میں بھی حاضر تھا وہاں

ملت ٹائمز نے گذشتہ دنوں ڈاکٹر فیضان مصطفے کا ایک بیان شائع کیا جو انہوں نے ریاض میں ایک کانفرنس کے دوران دیاتھا،انہوں نے اپنی تقریر کے دوران کہاکہ قرآن قانونی کی کتاب نہیں ہے۔۔۔ لیکن کچھ لو گو ں نے اس خبر کو منفی رخ دے دیا اور ملت ٹائمز کی پوری خبر پڑھے بغیر صرف سرخی دیکھ کر دروغ گوئی کا الزام عائد کیا حالاں کہ دفاع کرنے والوں نے بھی وہی کہاکہ جو ملت ٹائمز کی خبر میں ہے ،واضح رہے کہ ملت ٹائمز نے صحیح اور غلط کا کوئی فیصلہ نہیں کیاتھااور نہ ہی اپنا کوئی ردعمل ظاہر کیاتھا،یہ مضمون بھی ملت ٹائمز میں شائع ہونے والی خبر کے دفاع میں لکھا گیا ہے ،صحافتی دیانت داری کے پیش نظر ملت ٹائمز حرف بحر ف معروف مصنف مولانا احسن ندوی صاحب کے اس مضمون کو شائع کررہاہے۔(ایڈیٹر)

مولانا احسن ندوی۔مقیم ریاض
یہ انتہائی سنگین مسئلہ ہے کہ قوم کے ایک مایہ ناز قانون داں (پروفیسر ڈاکٹر فیضان مصطفی)، جو موجودہ وقت میں ہندوستانی سطح پر جاری یکساں سول کوڈ کی بحث میں مسلمانوں کے سب سے طاقت ور قانونی وکیل بن کر سامنے آئے ، جنہوں نے اپنی علمی گہرائی، وسیع دستوری وقانونی فراست و مہارت سے بیک وقت ملک کے اعلی قانون دانوں ، حکومت کی وزارت قانون اور اسلام کو نشانہ بنانے والے مفسدوں کو تنہا اپنی ذات سے دفاعی پوزیشن میں ڈھکیل دیاہو، ایک ایسی شخصیت کے بارے میں کسی سطحی فہم کے انسان کے بیان پر بلا تحقیق کوئی ملی نیوز پورٹل خطرنا ک قسم کا عقید? اسلامی سے متعلق الزام ان کے سر تھوپ دے جسے کل کسی دوسرے فرد کے سوال کے جواب میں کوئی بھی مفتی کافر قرار دے ، اور پھر ایک دوسرا نیوز پورٹل یہ عنوان بنائے “ڈاکٹر فیضان مصطفی اپنے گمراہ کن عقیدوں اور مسلمانوں میں گمراہی پھیلانے کے الزام میں خارج از اسلام قرار دئے گئے ” تو پھر کیا ہی جشن کا سماں ہوگا ا ن مسلم دشمن طاقتوں کے گھر جو مسلمانوں کی طرف سے دیوار بن کر کھڑے ہوئے اس شخص سے پریشان ہیں۔
مسلم پرسنل لاءکے ممبران کی فضیلت اپنی جگہ، لیکن جو لوگ پرسنل لائ کے قضیہ میں قانونی پہلوو¿ں پر نظر رکھتے ہیں انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ پرسنل لائ کے اجلاسوں اور بڑے بڑے عوامی جلسوں نے حکومت پر، وزارت قانون پر وہ اثر نہیں ڈالا جو اس فخر ملت قانون داں کے دستوری و قانونی مباحثہ نے حکومت ہند ، اسکےعدلیہ اور اسکے نظام عدل کو انصاف کی کسوٹی پر کس کر لاجواب کردیا۔ میں فقط ND TV. پر ڈاکٹر فیضان مصطفی کے مباحثہ کی بات نہیں کررہا، بلکہ انکے بے شمار مضامین کی جوحکومت کی وزارت قانوں پر بجلی بن کر گرتے ہیں، انکے متعدد لکچرس کی جس میں اس حکمت و دانائی سے انہوں نے مسلم پرسنل لا کی ہندوستانی اور دیگر سارے قوانین پر افضلیت ثابت کی کہ سننے اور دیکھنے والے بے ساختہ کہہ اٹھیں کہ مسلم پرسنل لا کی پوری تنظیم ایک طرف مسلمانوں کے سارے جلسے جلوس ایک طرف اور تنہا اس مرد مجاہد کی اذاں ایک طرف جو اپنی معنویت اور قیمت میں سب پر بھاری ہے۔
یوٹیوب پر بھی انکے مباحثے اور لکچرس موجود ہیں ، جسے ہر وہ شخص جسے انگلش کی سمجھ ہو دیکھ اور سمجھ سکتاہے کہ انہوں نے ہندو قوانین میں اب تک کی اصلاحات اور اسکی حقیقت، ملک کی عدلیہ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی نظیروں میں ہندو عورتوں کے ساتھ ہورہی نا انصافیاں، ہندوستان کے اندر مختلف ریاستوں میں ایک سا قانون بحال کرنے کی صعوبتیں اور اسکے عدم امکان۔ خود حکومت ہند کا اب تک یکساں سول کوڈ کا کوئی نمونہ (بلو پرنٹ) پیش کرنے میں ناکامی اور اس سب کے بعد فقط مسلمانوں کو پریشان کرنے کے لئے یکساں سول کوڈ کی تلوار دکھاکر مسلمانوں کو ڈارانا ، ان حقائق سے جب انہوں نے پردہ اٹھایا ہے تو وزارت قانون کو منہ چھپائے نہیں بن رہی۔ اس پورے غبارے سے انہوں نے ہوا نکال دی، انہوں نے وزارت قانون کو چیلنج کیا کہ اس کا یکساں سول کوڈ کیسا ہے، اسکا نمونہ تو دکھائے، حکومت پہلے اسکا بلو پرنٹ تو سامنے لائے، پھر حکومت کو اندازہ ہوجائے گا کہ وہ کہاں کھڑی ہے، کیا یہ اسکے لئے ممکن بھی ہے یا نہیں۔
ان حقائق کے سامنے آنے پر پتہ چلا کہ حکومت فقط ڈرامہ کرتی ہے اور ایسا کرنا اسکے بس کی بات نہیں، اسلئے کہ خود ہندوو¿ں کے متعدد گروہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہونگے۔ مختلف ریاستیں اسکے خلاف اعلان بغاوت کردیں گی۔ ظاہر ہے یہ چیلنج کسی عام آدمی کی طرف سے نہ تھا، یہ ملک کی سب سے مای? ناز قانون کی یونیورسیٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر فیضان مصطفی کی طرف سے تھا۔ چنانچہ سارے اہل قلم اور مختلف اداروں کی طرف سے یہ پوائنٹ اٹھائے جانے لگے یہاں تک کہ وزارت قانون میں ڈاکٹر فیضان مصطفی کے استاذ بھی اس متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ اور پھر سبھی پیچھے ہٹ گئے ہم نے یہ سمجھا کہ حکومت نے ہمارے سامنے گھٹنے ٹیک دئے ، ہم نے یہ نہیں سوچا کہ کیا وزیر اعظم مودی نے آج تک کسی کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہیں؟ وہ انسان ٹکرانا جسکی سیاست ہو، انتشار پھیلانا جسکی عادت ہو، قتل و خون جس کی سواری ہو، وہ کسی فرد یا جماعت کے سامنے گھٹنے ٹیک دے، کیا ایسا ممکن ہے۔ اسے تو انتظار تھا کہ ہم میدان میں آئیں، اور ایسے پریشان ہوں کہ ہماری زندگی منتشر ہوکر رہ جائے ، نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو، کوئی ہارے کوئی جیتے پہلے ہم برسوں سڑکوں کی خاک تو چھان لیں ، پولیس کی لاٹھیاں کھالیں، پھر ملک بھر کا میڈیا ہم پر الزامات تھوپے کہ ہم اس ملک کو توڑنا چاہتے ہیں، اس حکومت کو مسلمانوں کو کچل دینا چاہئے اس لئے کہ مسلمانوں کا تیور پرسنل لا پر کچھ ایسا ہے جو خطرناک مستقبل کا اشارہ دیتا ہے۔
قانون کی لڑائی میں قانونی داو¿ ہی کام کرتے ہیں، وہاں لاٹھی اور جوتے چپلوں سے بات نہیں بنائی جاسکتی جو مسلم پرسنل لا کے سکریٹری مولانا ولی رحمانی دامت برکاتہم کر گئے، اس لئے ان کے بیان کے بعد مودی نے ایک بھرے جلسہ میں کہا کہ ہم کسی مسلمان بہن کے ساتھ ناانصافی نہی ہونے دیں گے، ہم انہیں ان کا حق دلاکر رہیں گے۔ دیکھا آپ نے، انہیں کوئی حیا آئی؟ جو اپنی بیوی کو پورے ملک کے سامنے حق نہیں دے سکتا وہ مسلمان عورتوں کے حقوق کی حفاظت کی بات کرے۔ تو کیا اثر ہوا مولانا ولی صاحب کے جوتے مارنے کی دھمکی کا۔ لیکن جب ڈاکٹر فیضان مصطفی نے دستور کی حقیقت اور زمینی حقائق پیش کئے، حکومت کی بے بسی اورحکومت کے ہندو میرج ایکٹ کے بعد عدلیہ کے ہاتھوں ہندو عورتوں کے ساتھ نا انصافی کے بے شمار واقعات و نظیریں سامنے رکھیں، موجودہ حکومتی قانون وراثت میں ہندو عورتوں کے ساتھ مظالم کی داستان بیان کی تو حکومت کو بھاگنے کا راستہ نہیں ملتا، اب حکومت اور اسکا وزارت قانون خود ہی اس مسئلہ کو دبانے کی خواہش رکھتاہے۔
ذرا تصور کیجئے اگر کسی عالم نے، کسی سجادہ نشین و پیر ومرشد نے اتنا بڑا کام کیا ہوتا تو اسکا اتنا پروپیگنڈہ کیا جاتا کہ ساری خدائی کو انکے حق میں ترانہ پڑھنے پر مجبور کردیا جاتا، لیکن ملت کا یہ بے لوث خادم اس فرنٹ پر تنہا یہ کام کررہاہے تو اس ملت کو اس کی کوئی خبر نہیں، اس لئے کہ ہمیں انگریزی زبان سے سروکار نہیں، ہمیں ملک کے قانوں دانوں کے درمیان چل رہی قانونی بحث کی شد بد نہیں، ہمیں قانون کے گلیاروں اپنی بات کہنے اور منوانے کا ہنر نہیں۔ جب کہ فیضان مصطفی سعودی عرب آئے تو دوران سفر بھی انہیں چین نہیں ایک قانونی بحث پر مطالبہ ہوا کہ فیضان مصطفی اس پر اپنا نقط? نظر واضح کریں، ان کے سکریٹری نے کہا کہ سر ملک سے باہر ہیں، انہوں نے خود وہ میسج دیکھ لیا، اور جدہ ایر پورٹ پر بیٹھے بیٹھے اس پر مضمون لکھ کر بھیج دیا اس لئے کہ معاملہ ملی وکالت کا تھا جس میں وہ کسی طرح کی تاخیر گوارا نہیں کرسکتے تھے۔
جہاں تک بات 23 دسمبر کی شب انکے لکچر کی ہے، تو یہ لکچر ریاض کے کچھ اہل خرد حضرات نے منعقد کی ، وہ ریاض سعودی عرب میں موجود ہندوستانی اصحاب علم و دانش طبقہ کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں اس طرح کا پروگرام منعقد کیا جس میں ڈاکٹر فیضان مصطفی صاحب سے روبرو ہونے کا موقع ملا۔ اس لئے کہ ڈاکٹر فیضان مصطفی صاحب ملک کی سب سے اعلی قانونی یونیورسیٹی “نلسار یونیورسیٹی آف لا” حیدر آباد کے وائس چانسلر ہیں۔ واضح رہے کہ ایک ایسی یونیورسیٹی کا وائس چانسلر ہونا، جہاں امتحان داخلہ ملک کا سب کٹھن مسابقہ مانا جائے۔ مسابقانی امتحان میں ملک کا سب سے کٹھن کوالیفائنگ مسابقاتی امتحان اسی یونیورسیٹی کا داخلہ امتحان مانا جاتاہے۔ 2015 میں اس یونیورسیٹی میں محض 65 سیٹ کے لئے 40000 طلبائ نے اپنی قسمت آزمائی، ایک ایسی یونیورسیٹی کا وائس چانسلر ہونا ان کے قانونی قد و قامت اور علمی مقام کا بین ثبوت ہے، اس طرح وہ ہم سبھوں کے لئے سرمایہ افتخار ہیں۔
اس پروگرام سے ایک دن قبل جامعہ ملیہ الومنای ایسوسی ایشن کے پروگرام میں شرکت کرتے ہوئے انہوں نے فقط اہل علم اور یونیورسیٹی فارغین کو خطاب کیا تھا، اس پروگرام میں بھی انہوں نے یہی سمجھا کہ شرکائے جلسہ سب کے سب اہل علم و دانش ہیں ، جب کہ منتظمین نے عام افادہ کی غرض سے اس پروگرام میں شرکت کے لئے کوئی کارڈ نہیں رکھاتھا، چنانچہ اس میں ایک تعداد مسلم پرسنل لا پر بحث سننے کے لئے کچھ ایسے لوگوں کی بھی آگئی جنکی ذہنی استعداد انکے لکچر کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی۔ اس پایہ کے قانوں داں کی بات پوری طرح سمجھ پانا ان کے بس میں نہ تھا خاص طور پر ان حالات میں کہ ڈاکٹر صاحب حسب عادت انگریزی میں بولنا شروع کردیتے تھے ، باوجود اسکے کہ ان سے اپنا خطاب اردو میں ہی کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔
دوسرے دن جگہ بہ جگہ کچھ لوگ مجھے روک روک کر اپنی شکایت اور ناراضگی کا اظہار کرنے لگے ، پتہ چلا کہ وہ اس پر نالاں ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے بڑی خطرناک بات کہی اور وہ بھی ہم لوگوں کی موجودگی، دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ ان کا اعتراض اس بات پر ہے کہ انہوں نے کہا کہ قرآن قانون کی کتا ب نہیں۔
گویا کہ کچھ ناسمجھ لوگوں کی طرف سے پوری بحث کو بالکل ہی الگ انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ میں نے ایک مقامی مسئلہ ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کی غلط فہمیوں کو دور کیا لیکن جب ایک نیوز پورٹل پر یہی بات خبر بن کر آئی تو اپنی ساری مشغولیتوں کو درکنا ر کر اس پر قلم اٹھانا ضروری سمجھا۔۔
ڈاکٹر صاحب دراصل اس قضیہ کی پیچیدگیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہنے لگے کہ اس وقت کورٹ میں مسلم پرسنل لا ایک خطرناک الجھن میں مبتلا ہے۔ مدعیوں کا دعوی ہے کہ طلاق کے مسئلہ میں قرآن کے حکم کے مطابق انکے حق میں فیصلہ دیا جائے ، یہاں میں یہ واضح کرتا چلوں کہ آیت قرآنی
سے استدلال کرتے ہوئے سلفیوں کا مسلک ہے کہ قرآن کی اس آیت کے بموجب طلاق صرف عدت میں ہی دی جاسکتی ہے، گویا طلاق عدت سے بندھی ہوئی ہے جس طرح نماز کے بارے میں حکم ہے ?ِنَّ ?لصَّلَوٰةَ ?َانَت? عَلَ? ?ل?م±و¿?مِنِ?نَ ?ِتَ?ٰبًا مَّو?ق±وتًا نماز وقت سے مربوط ہے اسی طرح طلاق عد ت سے، اب اگر کوئی شخص ساری نمازیں ایک ہی وقت میں پڑھ لے تو اس کی وہی ایک فرض نماز ادا مانی جائے گی جو اس وقت کی ہے بقیہ ساری باطل، اسی طرح اگر کوئی تین عدت کی طلاقیں ایک ہی عدت میں دے دے تو اسکی ایک ہی طلاق مانی جائے گی باقی باطل۔ اب سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ مسلم پرسنل لا کے سامنے یہ سوال ہے کہ وہ قرآ ن کے حکم کو کیوں نہیں مانتا؟
دوسرا مسئلہ یہ کہ مسلم پرسنل لا کہتاہے کہ تین طلاق ایک ناپسندیدہ عمل ہے ، اور یوں بھی طلاق سب سے مبغوظ حلال ہے، رسول اللہ ? کا روئے انور طلاق پر غصہ سے سرخ ہوجاتا ، ایک ناپسندیدہ عمل ہونے کے باوجود اگر کوئی تین طلاق دیتاہے تو وہ تین ہی مانی جائےگی۔ واضح رہے کے تین طلاق کو تین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قرار دیا اور ایک لمبی بحث ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ کیوں اور کن حالات میں کیا۔
لیکن سپریم کورٹ کو اس سے کیا بحث کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کون ہیں ، وہ بس اتنا جانتاہے کہ قرآن کا یہ قانون ہے تو مسلم پرسنل لا قرآن کے قانون کو نظر انداز کرکے انسان کے قانون کوکیوں مان رہا ہے، تو کورٹ کا سوال ہے کہ آپ یہ بتائیں کہ کیا آپ قرآن کو نہیں مانتے ؟
اب اگر مسلم پرسنل لا یہ کہہ دیتا ہے کہ اس مسئلہ میں ہم قرآن میں مذکور عدت کو نہیں مانتے بلکہ ان کے شارحین جو ظاہر ہے انسان ہیں ان کی قانون سازی کو مانتے ہیں تو ایک خطرناک مثال قائم ہوجائے گی۔ کورٹ میں پرسنل لا کا یہ موقف مستقبل میں ایک خطرناک نظیر بن جائے گا اور مستقبل میں کورٹ اس کو نظیر بناتے ہوئے قرآن کو تجاوز کرنے پر مسلمانوں کو مجبور کرسکتاہے۔ اسلئے کہ خود مسلم پرسنل لا نے اس موقع پر ایسا کیاہے۔
مسلم پرسنل لا کو اس مصیبت سے نکالنے میں ڈاکٹر فیضان مصطفی نے یہ راہ سجھائی ، انہوں نے اس پر اس طرح استدلال کیا کہ قرآن اس طرح کی قانون کی کتاب نہیں جیساکہ رائج قانون کی کتابیں ہیں، جس میں قوانین دفعات کی شکل میں بیان کئے جاتے ہیں جیسے Article 4, Article 5 یا Article 5 C جیساکہ دستور کی کتابوں میں ہوتاہے۔ بلکہ یہ تشریع ، قانون سازی کی اساس ہے۔ جس سے کبھی براہ راست تو کبھی اس کی روشنی میں قانون سازی کی جائے گی۔ قرآن میں 83 آیتیں ہیں جو واضح قانون کی شکل میں ہیں، اس پر صدر جلسہ نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ قرآن میں براہ راست قانون 400 آیتوں میں ہے۔ یہ تحقیق کا موضوع ہے کہ قرآن میں براہ راست قانونی آیتوں کی تعداد کتنی ہے۔لیکن یہ بات کہ قرآن رائج قانون کی کتابوں کی طرح کوئی قانونی کتاب نہیں بلکہ قانون سازی کی اساس ہے یہ ایک مسلمہ اسلامی و فقہی نظریہ و عقیدہ ہے۔۔
قرآن کیسی کتاب ہے، جب Miracle in Quran Board ٬٬ہیئة الاعجاز العلم فی القرآن والسنة “قرآن میں سائنٹفک معجزہ کی مجلس ” جسکا ہیڈ آفس سعودی عرب میں ہے اس نے کام شروع کیا تو ابتدا میں بڑی مخالفت ہوئی اور بڑی تعداد میں علمائ نے کہاکہ قرآن کو فقط کتاب ہدایت کے طور پر ہی لیں۔یعنی اسلام میں قرآن کو کتاب ہدایت کہاگیا، قرآن نے اسے کتاب ہدایت ہی کہاہے۔ اب اسے یوں بھی محض کتاب قانون بولنا اس کی تنقیص کے مترادف ہوگا۔ ہاں یہ اسلامی قانون سازی کی بنیاد ہے، اس میں جہاں کہیں بھی واضح ہدایات موجود ہیں ان کی حیثیت قانون کی ہے اور جہاں کہیں نئے مسائل پیش آئیں گے اس میں اس کی روشنی اور طے کردہ اصولوں کی مطابق فیصلے ہونگے اور کچھ بھی نہ ملا تو کم از کم قرآن کے مزاج اور اسکے عام رخ کے مطابق قانون بنائے جائیں گے۔
اس طرح ہم سپریم کورٹ کے اس سوال سے بچ سکتے ہیں کہ قرآن میں مذکور قوانین کی تشریح اور اسکی قانون سازی مسلم ماہرین قانون اور علما کریں گے ، جیساکہ چاروں فقہی مسلکوں کا وجود ہے، اس لئے سپریم کورٹ یہ سمجھے کہ قرآن کوئی اس طرح کی قانون کی کتاب نہیں جیساکہ دستور ہند ہے جس کی دفعات کی بنیاد پر کورٹ فیصلہ کرتاہے ، اس کے برعکس قرآن قانون سازی کی بنیاد ہے اور یہاں اس کے مطابق فیصلے اور قوانین بنانے کا کام مسلم فقہا کے ذریعہ ہوتاہے۔ اس لئے سپریم کورٹ اس بحث میں پڑتا ہی کیوں ہے جس میں اسے کوئی گہرائی نہیں وہ اسے ان قانوں دانوں کے اوپر چھوڑ دے جو اس میں پوری صلاحیت رکھتے ہیں اور وہ علمائ اور اسلامی ماہرین قانون ہیں۔
اس طرح انہوں نے مسلم پرسنل لا کو اس الجھن سے نکال دیا اور سپریم کورٹ کے اس سوال کے خطرناک وار کو ناکام کرنے کی کوشش کی۔ تو اس میں انہوں نے کیا غلط کہا کوئی سمجھائے کہ کیا حقیقت اس کے برعکس ہے؟اگر کسی کے سمجھ میں نقص ہو تو یہ اسکا قصور ہے نہ کہ اس کی مار ملت کے ایک مایہ ناز فرزند پر پڑنی چاہئے۔اسی طرح کچھ لوگوں نے کہاکہ انہوں نے یہ کیسے کہہ دیا کہ فقہ یا پرسنل لا آسمانی قانون نہیں۔یہاں بھی یہی نقص فہم کا مسئلہ ہے، اگر تین طلاق کے مسئلہ میں انسانی تشریح اور تنفیذ ثابت ہے تو یہ آسمانی کہاں سے ہوا، اسے حالا ت کے تقاضے کے تحت ایک ہی مانا جاسکتا ہے اور تین کو تین بھی، اسی طرح نکاح میں نکاح نامہ یعنی عقد نکاح کا اضافہ کیا جاسکتا ہے جو آسمانی نہیں بلکہ انسانی ہوگا اور کتاب و سنت کی روشنی میں تو اس میں کیا غلط کہاگیا۔
اسی طرح انہوں نے کہا کہ فقہ ایک اسلامی قانونی رائے ہے۔ اور جب اسے کوئی حکومت نافذ کردے تو وہ رائج قانون بن جاتاہے۔ یہ عین حقیقت ہے ورنہ اگر فقہ حنفی یا فقہ مالکی کو وحی مان لیا جائے تو گویا کہ وہ ممالک جو فقہ شافعی کو اپنا قانون بناتے ہیں وہ دین سے خارج ہوجائیں گے۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ فقہ قرآن و سنت کی بنیاد پر ایک قانونی رائے جس میں حکومتوں کو اختیار ہے کہ وہ جس قانونی رائے کو مناسب سمجھے تسلیم کرے ، اور اسکی بھی مثالیں ہیں کہ حنفی فقہ کے مطابق قانون رائج ہونے کے باوجود فقہ مالکی کی رائے پر عمل کیا گیا جیساکہ مفقود الخبر شوہر کے سلسلہ میں ہے کہ اس کے غائب ہونے کی صورت میں کب تک ایک عورت انتظار کرے اور کتنے سالوں کے بعد اسے اختیار ہوگا کہ وہ دوسری شادی کرلے۔مسئلہ یہی ہوا کہ اہل علم کی مجلس میں عوام کو مدعو نہیں کیا جانا چاہئے ورنہ وہ کسی بات کا مطلب کچھ سمجھ کر خطرناک مسئلہ بناسکتے ہیں جیساکہ اس پروگرام کے بعد دیکھنے میں آرہاہے۔

SHARE