مرکز کے ماڈل کرایہ داری ایکٹ پر دہلی بار کونسل کو اعتراض

دہلی حکومت کے محکمہ قانون کو خط لکھ کر اپنے اعتراضات سے کیا آگاہ، مرکز کا یہ ایکٹ عدالتی اختیارات سے متضاد، مبہم اور غیر واضح ہے: ایڈوکیٹ حمال اختر

نئی دہلی: (ملت ٹائمز) کچھ دن قبل مرکزی حکومت نے ماڈل ٹیننسی ایکٹ کے نام سے ایک ڈرافٹ متعارف کرایا ہے جس کے جلد ہی قانونی شکل اختیار کرنے کا امکان ہے تاہم حکومت نے اس سے قبل اس ڈرافٹ پر عوامی رائے طلب کرنے اور اعتراض درج کرانے کے لیئے اسے عوام کے درمیان پیش کیا ہے۔ اب دہلی بار کونسل نے اس بل پر اپنے اعتراضات درج کراتے ہوئے حکومت دہلی کے محکمہ قانون کو خط لکھا ہے جس میں اس بل کو عدلیہ کے اختیارات سے متضاد بتاتے ہوئے بہت سے پہلوؤں کی نشاندہی کی ہے اور ان پر حکومت ہند کی تو جہ مبذول کرائی ہے ۔ دہلی بارکونسل کے قائم مقام چیئرمین ایڈوکیٹ حمال اختر نے محکمہ قانون کو تحریرکردہ اپنے خط میں 9نکات کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کراتے ہوئے گزارش کی ہے کہ مرکزی حکومت کو تجاویز ارسال کرنے سے قبل اس کا ڈرافٹ دہلی بار کونسل کو ضرور ارسال کیا جائے جو ایڈوکیٹ ایکٹ 1961 کے تحت ایک خود مختار ادارہ ہے ،حمال اختر نے کہاکہ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ آخر میں وکلاء کو ہی ان سارے معاملات کو ہینڈل کرنا ہے۔دہلی بارکونسل نے محکمہ قانون کو تحریر کردہ اپنے خط میں لکھا ہے کہ مرکزی حکومت نے ماڈل کرایہ داری ایکٹ کے تحت کرایہ داری کی بہت سی موجودہ مشکلات کو دور کرنے کی سمت میں اچھی کوشش کی ہے تاہم پھر بھی بہت سے امور ایسے ہیں جو غیر واضح ہیں اور ان پر از سرِ نو نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے آگے کہاکہ متعارف کرائے گئے نئے ایکٹ کے سیکشن 2 (H) اور سیکشن 2 (I) میں انتظامی رینٹ اتھارٹی کی بات کہی گئی ہے جبکہ ہماری رائے میں اس طرح کی اتھارٹی کا قیام کرتے وقت یہ بات ذہن نشین رہے کہ عدلیہ کے اختیارات انتظامیہ کو منتقل نہ ہوں۔اس لیئے اس میں قابل ذکر تبدیلی کرتے ہوئے اس طرح کے رینٹ کورٹ کا قیام کرتے وقت عدالتی افسران کے تقرر کو یقینی بنایا جائے نہ کے انتظامی افسران جیسے ضلع کلکٹر،ضلع مجسٹریٹ کو اختیارات دیدیئے جائیں۔اسی طرح خط میں آگے اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ رینٹ ایگریمینٹ پیش کرنا ضروری ہے جو کہ رازداری کے خلاف ہے۔آگے تحریر ہیکہ ایم ٹی اے (ماڈل ٹیننسی ایکٹ) میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ یہ ایکٹ جائداد منتقلی ایکٹ 1882پر اثر انداز ہوگا یا نہیں،اسی طرح اس میں لوجنگ ہاؤس اور ہوٹلوں کو ایم ٹی اے کے دائرہ اختیار سے باہر رکھا گیاہے اسی لیئے ہوٹل یا لاج پیینگ گیسٹ کو کرایہ پر دینے والے معاملات غیر واضح ہیں،اسی طرح ڈرافٹ میں ’رینٹ‘ کی تعریف بھی متعین نہیں کی گئی ہے اسی لیئے کرایہ کی ادائگی مبہم اور غیر واضح ہے۔انہوں نے آگے تحریر کیا ہے کہ ایم ٹی اے میں کرایہ داری ایگریمینٹ ناکام ہونے کی صورت میں کیا ہوگا؟، ریاستوں کو اس ایکٹ کو اپنانے اور نا اپنانے کا اختیاراور معاشرہ کے کمزور طبقات کے افراد کی کرایہ داری کرتے وقت کرایہ کی تخفیف میں سودے بازی کی صلاحیت کی کمی اور اسے طے کردہ کرایہ پر مجبوراً رضامندی جیسے بہت سے امور ہیں جو نئے کرایہ داری ایکٹ میں مبہم اور غیر واضح ہیں۔ ایڈوکیٹ حمال اختر نے کہاکہ یہ ایکٹ دراصل عدلیہ کے اختیارات انتظامیہ کو منتقل کرنے کی کوشش ہے جبکہ آئن میں عدلیہ ،مقننہ اور انتظامیہ سب کے اختیارات الگ الگ بیان کیے گئے ہیں۔