کورونا کے نئے اور خطرناک روپ: پرہیز علاج سے بہتر

پروفیسراخترالواسع
کورونا کی وبا کا ایک دور ختم نہیں ہو پاتا کہ اگلے دور کی آمد آمد کا شور اتنا زور پکڑ لیتا ہے کہ ڈر اور خوف کا نیا ماحول انسانوں کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔ گزشتہ سوا سال میں دنیا بھر نے کووڈ19- کی جو قہر سامانی دیکھی ہے اس نے انسانوں کو اپنے خول میں سمٹنے کے لئے مجبور کر دیا ہے۔ سیاست ہو یا معیشت، مذہب ہو یا تعلیم و تفریح سب نہ صرف اپنی معنویت اور اہمیت کھوتے جا رہے ہیں بلکہ متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے پاس جینے کا جواز اور سہارا بھی معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔

ابھی کورونا کی دوسری لہر کی لائی ہوئی تباہی سے فرصت نہیں ملی تھی، اپنوں کا ماتم کرکے فارغ بھی نہیں ہوئے تھے اور سماج میں بے حسی، مجرمانہ غفلت اور کالا بازاری کا وہ گھناؤنا روپ دیکھا جس نے زندہ رہنے پر شرم سار کر دیا۔ کس کس چیز کی چور بازاری دیکھنے کو نہیں ملی؟ ابھی یہ بتایا ہی جا رہا تھا کہ کورونا کی تیسری لہر آٹھ ہفتے میں آنے والی ہے کہ پتا چلا کہ ڈیلٹا کے نام سے کورونا کا ایک نیا روپ آ دھمکا اور مہاراشٹرا کی ریاست کو اس نے اپنا پہلا نشانہ بنایا۔

ابھی کورونا کے ساتھ فنگس کی مختلف شکلوں سے خوفزدہ بیٹھے ہی تھے اور اس کا علاج ڈھونڈھ رہے تھے کہ پتا چلا ڈیلٹا کے نت نئے روپ انسانی جسم کے اعضائے رئیسہ کو نقصان پہنچانے اور ہلاکت میں ڈالنے کی پوری قدرت رکھتے ہیں۔ان نئے حالات اور وبائی پیچیدگیوں کے لئے ہم سب بھی کافی حد تک ذمہ دار ہیں۔ ہم میں سے اکثر جو نہ تو سرکار کی دی ہوئی ضروری ہدایتوں کو ماننے کو تیار ہیں اور نہ ہی طبی ماہرین کے مشوروں پر عمل کرنے کو تیار ہیں۔ چہرے پر منہ اور ناک کو ماسک سے ڈھکنے کا مسئلہ ہو یا جسمانی فاصلہ بنائے رکھنے کی بات، ہاتھوں کو صابن سے دھونے یا سینیٹائز کرنے کا مشورہ ہم میں سے زیادہ تر لوگوں نے سب پر اس سنجیدگی سے نہ توجہ دی اور نہ عمل کیا جس کی ازحد ضرورت تھی۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ ہم ہندوستانی جو کہ عام طور پر مذہبی اقدار کے پابند ہیں اور جن کے دن کی شروعات ہی سب سے پہلے نہانے دھونے سے ہوتی ہے اور بعض کے مذہبی عقیدے کے مطابق طہارت نصف ایمان کا درجہ رکھتی ہے، تو وہ پاکیزگی اور نظافت کی سرکاری ہدایتوں اور طبی مشوروں سے کیوں گریزاں نظر آتے ہیں؟ خوف کا شکار اور ہراساں تو ہیں لیکن جس سختی سے احتیاط کا دامن تھامنا چاہیے اس کے لیے آمادہ نظر نہیں آتے۔ لوگ نہ جانے کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ پرہیز علاج سے بہتر ہوتا ہے۔

لاک ڈاؤن، نائٹ کرفیو کی پابندیوں نے یقیناً بیماری کو بڑی حد تک شکست دی لیکن ساتھ میں شکم کی آگ بجھانے کے جو سادھن تھے ان سے بھی محروم کر دیا۔ بعض لوگ تو دانے دانے کو محتاج ہو گئے اور سرکار اور سماج میں موجود غیرسرکاری تنظیمیں (این جی اوز) چاہتے ہوئے بھی کتنوں کے دکھوں کا مداوا کر سکتی ہیں؟ معاشی سرگرمیوں کی پیش رفت سے بریک لگ جانے سے سرکاری خزانے بھی خالی ہوئے جا رہے ہیں اور اس کمی کو پورا کرنے کے لئے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے، شراب کی بِکری کو فروغ دیا جا رہا ہے تاکہ ان دونوں سے جو آمدنی ہو اس سے ملک کے معاشی ڈھانچے کو قابو میں رکھا جا سکے۔ ان حالات میں ایک عام شہری کیا کرے؟

اس کا سیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے جائے اور کورونا کا ٹیکہ لگوائے۔ کورونا کا ٹیکہ سرکاری اسپتالوں میں سرکار کی طرف سے مفت میں لگانے کا پورا انتظام کر دیا گیا ہے اور ڈیلٹا کے منفی اثرات ہوں یا کورونا کی تیسری لہر کے درپیش خطرات سب سے بچاؤ کے لئے ٹیکہ کاری ضروری ہے اس کے بعد سماج کے وہ تمام متمول اور صاحب ثروت افراد، اپنے خاندانوں اور بستیوں میں جو ایمانداری سے مدد کے مستحق ہیں ان کی مدد کے لئے آگے آئیں۔ تقریبات جیسے شادی، بیاہ وغیرہ میں جو فضول خرچیاں ہوتی ہیں انہیں فوراً روک دینا چاہیے اور ممکن ہو تو اجتماعی شادیوں کا نظم کیا جائے۔ ہر بستی میں نوجوانوں لڑکے لڑکیوں کی والنٹیرس کی ٹیمیں بنائی جائیں تاکہ وہ کورونا سے متاثر افراد اور خاندانوں کے کام آ سکیں۔ مریضوں اور اسپتالوں کے بیچ میں رابطے کا کام کر سکیں۔
سماجی طور پر عام شہریوں کی یہ ذمہ داری نبھانا اس لئے ضروری ہے کہ سرکار چاہے تو بھی تن تنہا ہمارے آپ کے تعاون کے بغیر یہ ذمہ داری نہیں اٹھا سکتی۔ ابھی تک کووڈ19- کے ذریعے ہم نے جو انسانی جانوں کی ہلاکت دیکھی ہے اور معاشی تباہ حالی دیکھ رہے ہیں وہ کچھ کم ہولناک اور خوفناک نہیں تھی لیکن آگے جو خطرات بلا تخصیص انفرادی اور اجتماعی طور پر ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں اور جن کی پیش گوئی ہی ہمارے رونگٹے کھڑے کیے دے رہی ہے وہ یہ ہے کہ کورونا کی تیسری لہر کا شکار ہمارے بچے ہوں گے اور اس طرح ہمارے خاندان کے خاندان ختم ہو جائیں گے۔
ہماری نئی نسل جس سے ہماری ساری امیدیں وابستہ ہیں، ہم ان کو ہی کھو دیں گے تو پھر خود جی کر کیا کریں گے؟ مذکورہ بالا خطرات کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ ہم ہر طرح کے فتنہ اور فساد، تفریق و امتیاز، نفرت و تشدد کو بھول جائیں اور مل جل کر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کورونا کو مکمل طور پر شکست دیں اور اس کے لئے جو بھی تدابیر اختیار کرنی پڑیں ضرور کریں کیوں کہ وقت کی اس تنبیہ کو اس وقت ہمیں خاص طور پر نہیں بھولنا چاہیے کہ: وطن کی فکر کر ناداں قیامت آنے والی ہے تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)