موہن بھاگوت کی ’تقریر امن‘ آر ایس ایس کے عمل سے متضاد محض ایک بیان بازی: پاپولر فرنٹ

پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی قومی مجلس عاملہ کے ذریعہ پاس کردہ ایک قرارداد میں آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے مسلمانوں سے متعلق تبصرے کو محض ایک بیان بازی قرار دیا گیا جسے خود آر ایس ایس نہیں مانتا۔
غازی آباد میں مسلم راشٹریہ منچ کے ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے، بھاگوت نے کہا کہ اگر کوئی ہندو یہ کہتا ہے کہ یہاں ایک بھی مسلمان نہیں رہنا چاہئے تو وہ شخص ہندو نہیں ہے۔ یہ بھارت کی موجودہ سماجی و سیاسی صورتحال کی ایک سطحی تصویر کشی ہے گویا کہ یہاں صرف ہندو مسلم کا مسئلہ ہے۔ دراصل یہ سنگھ پریوار اور خود بھاگوت کے ذریعہ فروغ پا رہے فرقہ پرست فسطائی نظریے کے اصل مسئلے سے لوگوں کی توجہ بھٹکانے کی ایک کوشش ہے۔آر ایس ایس کے موجودہ اور ماضی کے کام اپنے آپ میں بھاگوت کے الفاظ کے خلاف سب سے بڑا ثبوت ہیں۔ ایک طرف آر ایس ایس کے لیڈر باہر بڑے ہی خوشنما الفاظ کا استعمال کرتے ہیں، لیکن وہیں دوسری طرف وہ عوام میں جاکر مسلمانوں کے خلاف تشدد کو فروغ دیتے ہیں۔ ’آزادانہ اور سب کو لے کر چلنے والی زبان‘ کا یہ نیا انداز اس بات کی علامت نہیں ہے کہ آر ایس ایس کے اندر اعتدال روی آ رہی ہے بلکہ یہ اس خوف کی علامت ہے کہ کہیں آر ایس ایس کی تعصب پرستی کا کھلا مظاہرہ ان کے لئے قومی و بین الاقوامی سطح پر نقصان کا باعث نہ بن جائے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی نے اپنی حکمرانی والی ریاستوں میں مسلمانوں پر ظلم و تشدد بند نہیں کیا ہے۔ اپنے بیان کے برعکس وہ مسلمانوں کو بدنام اور الگ تھلگ کرنے کے واحد مقصد کے تحت نازی قوانین کو یکے بعد دیگرے نافذ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے قتل کی کھلی دعوت دینے والے نیتاؤں کو بمشکل ہی قانونی نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بلکہ انہیں سیاسی انعامات سے نوازا جاتا ہے۔
ایک دوسری قرارداد میں پاپولر فرنٹ کی این ای سی نے مرکزی و ریاستی حکومتوں سے بڑھتی اسلام دشمنی پر قدغن لگانے کی درخواست کی، جس کی وجہ سے بے قصور مسلمانوں پر تشدد بڑھتا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف لنچنگ اور حملوں کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ یہ اسلام دشمنی پر مبنی مسلسل افواہوں، اشتعال انگیزی اور مسلمانوں پر حملوں کی کھلی دعوتوں کا راست نتیجہ ہے۔ پاپولر فرنٹ نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکام صورتحال پر قابو پانے میں ناکام رہے، تو یہ بڑے پیمانے پر تشدد میں تبدیل ہو جائے گا۔
ایک اور قرارداد میں، پاپولر فرنٹ کی این ای سی نے کہا کہ مودی کی کابینہ میں ردّو بدل اس بات کا کھلا اعتراف ہے کہ حکومت ملک میں آئے معاشی و صحت عامہ سے متعلق بحران سے نمٹنے میں پوری طرح سے ناکام رہی ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مودی کی بدانتظامیوں، انتظامی ناکامیوں اور پالیسی کی فاش غلطیوں کے نتیجے میں ایسی صورتحال پیدا ہوئی جس نے ہزاروں لوگوں کی جان لے لی اور جو بڑے پیمانے پر غریبی اور بے روزگاری کا سبب بنی۔ ہر ایک چیز کا سہرا اپنے سر باندھنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے والے مودی اب دوسروں پر الزام ڈال کر تمام ناکامیوں سے اپنا دامن جھاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بالفاظ دیگر، مودی اس حقیقت کا اعتراف کر رہے ہیں کہ اب تک ان کی حکومت ناکام ہی رہی ہے۔
وزیر داخلہ امت شاہ کے نوتشکیل شدہ وزارتِ تعاون کو سنبھالنے کے جوش و خروش کے پیچھے خطرناک منصوبے کارفرما ہیں۔ گجرات میں، وہ تمام کوآپریٹو سوسائیٹیوں کو آر ایس ایس کے زیر اثر لانے میں کامیاب رہے تھے، جس کی بنا پر کوآپریٹو سوسائیٹیوں سے متعلق ہر ایک کام کے لئے لوگ آر ایس ایس پر منحصر ہو گئے تھے۔ یہ پورے ملک کی کوآپریٹیو اور تھرفٹ سوسائٹیوں کا بھگواکرن ہے۔ اس سے بی جے پی کو زبردست سیاسی فائدہ حاصل ہوگا۔ ملک کے کسانوں، مزدوروں اور کم آمدنی والی جماعتوں کی اکثریت ایک یا ایک سے زیادہ طریقوں سے کوآپریٹو سوسائٹی نیٹ ورک سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر یہ کسی سیاسی خیمے کے زیر اثر آ گئی، تو ان کے لئے ووٹروں کو متاثر کرنا آسان ہو جائے گا۔ اس لئے یہ ایک سیاسی قدم ہے جس کا مقصد ووٹ بینک ہے۔ وزیر داخلہ کے لئے کوآپریٹو سیکٹر کو سنبھالنے کا اس کے علاوہ کوئی سبب نہیں ہے۔
ایک اور قرارداد میں، قومی مجلس عاملہ نے فادر اسٹین سوامی کی جیل میں بدقسمت موت پر شدید رنج و الم کا اظہار کیا۔ بہترین خراج عقیدت جو ہم فادر کو پیش کر سکتے ہیں وہ تمام ظالمانہ قوانین کی منسوخی ہے جو حکومت کو لوگوں کے انسانی حقوق سلب کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ وہ یو اے پی اے کی دفعہ 43ڈی (5) کو چیلنج کرنے والی اپنی درخواست کا جواب ملے بغیر ہی اس دنیا سے رخصت ہو گئے، جو کہ مکمل طور سے آئین کی روح کے خلاف ہے اور جو ضمانت ملنے کو ناممکن بنا دیتا ہے۔ اس شق کے مطابق، عدالتوں کو مقدمے کی درستگی پر سوال کرنے تک کی اجازت نہیں ہے اور انہیں بلاتحقیق حکومت کے الزامات کو ماننا ہی پڑے گا۔ گرچہ عدالت نے اسٹین سوامی کے لئے الگ سے طبی دیکھ بھال کی پیش کش کی تھی، لیکن وہ ضمانت پر مصر رہے۔ ان کی موت سماج کے تمام طبقات بالخصوص عدلیہ کو اس سوال کے ارد گرد لا کھڑا کرتی ہے کہ کیا یو اے پی اے جیسے قوانین ہونے چاہئیں۔ یہ خوش آئیند بات ہے کہ اپوزیشن لیڈران یو اے پی اے کے غلط استعمال کے خلاف آگے آئے ہیں۔ تاہم یہ محض غلط استعمال کا معاملہ نہیں ہے؛ بلکہ ایک جمہوری ملک میں یو اے پی اے جیسے ظالمانہ قانون کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے، اور یو اے پی اے کو ختم کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا مطالبہ نہیں ہونا چاہئے۔ پاپولر فرنٹ اپوزیشن لیڈران سے اپیل کرتی ہے کہ وہ یواے پی اے اور استعماری دور کے غداری قانون کے مکمل خاتمے کے مطالبے کے ساتھ آگے آئیں۔