لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

مولانا محمد شمشاد رحمانی قاسمی

(نائب امیر شریعت امارت شرعیہ بهار اُڈيشہ وجھاركھنڈ) 

تبدیلی مذہب کے سلسلے میں سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا ميں ايك طوفان بپا ہے۔ کرید کرید کر نت نئے الزامات مسلمانوں پر لگائے جا رہے ہیں ۔ معروف داعی ڈاکٹر عمر گوتم اور مفتی جہانگیر قاسمی کی گرفتاری کے بعد سے ایسا لگ رہا ہے کہ شدت پسندوں نے ایک بڑا معرکہ فتح کر لیا ہے کہ ہر طرف اس کی تشہیر کی جا رہی ہے۔ کشمیر سے لے کرکنیا کماری تک تبدیلی مذہب کے ایشو کو اچھا لا جا رہا ہے۔

     كسے معلوم نهيں كہ گلوبلائزیشن کے دور میں مذہبی تعلیمات کی ترسیل آسان ہو گئی ہے اور یہ ایک کھلی کتاب کے مانند ہے ، جس کا جب جی چاہے، گوگل پر سرچ کر لے ، ہر مذہب کے بارے میں مثبت اور منفی دونوں طرح کی معلومات دستیاب ہیں، جس کا جی چاہے دیکھ ،پڑھ اور سن سکتا ہے۔گزشہ دو دہائی سے خاص طور پر؛ جب سے اسلامو فوبیا كا رجحان بڑھا ہے ، ڈیجیٹل دنیا کے لوگ اورعصری دانش گاہوں کے تعليم يافتہ حق كے متلاشی نوجوان ،خود سے پڑھ کر ، اپنی تحقیق اور ریسرچ کر کے اپنا دین و ایمان بدلنے لگے ہیں۔اس میں کسی طرح کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جو افراد مبلغ اسلام اور دین کے داعی ہیں ،ان کا مشن یہ ہے کہ اگر اللہ کا باغی بندہ اسلام کا ’شرن‘ لے لیتا ہے تو اس کا ثواب ہمیں ملے گا ۔ اسلام کے عقیدے کے مطابق یہ ثواب داعی کو اسی وقت مل سکتا ہے جب قبول اسلام کیلئے اس کی نیت خالص ہو ، کسی طرح کي دنیوی لالچ نہ دی گئی ہو ،خود اسلام قبول کرنے والے نےپورے ہوش وحواس سے بغیر کسی دنیوی غرض کے ایمان قبول کیا ہو۔

    تاریخ کے صفحات اٹھا کر دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ اسلامی حکومت خواہ وہ محمد عربی ﷺ کا زمانہ ہو ،خلفاء راشدين کا دور ہو یا اس کے بعد کا،کبھی بھی لالچ اور خوف سے کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا۔قرآن مجید میں کھلے عام اعلان کیا گیا ہے کہلا اکراہ فی الدین،، (دین میں کوئی جبر نہیں) ، اس پر مسلمان ہمیشہ سے عمل کرتے چلے آئے ہیں۔گہرائی میںجائیں تو پتہ چلے گا کہ اسلام دین فطر ت ہے ، اس کا جادو جس پر اثر کر جاتا ہے ، اسے جاہ و منصب اور دنیوی لالچ کی ضرورت نہیں ہو تی ۔دل میں جب ایمان کی تڑپ پیدا ہوتی ہے تو وہ اپنے گھر ، سماج ، مذہب ،رواج وعقائد اور انداز معاشرت سب کچھ ترک کے اسلام کے دامن میں پناہ لے كر هي قلبي سكون حاصل كرتاہے ، اس راہ میں خواہ کتنے مصائب اور مشکلات آئیں ،وہ پیچھے مڑکر نہیں دیکھتا ۔ کوہ ہمالہ کی طرح یہ چٹانی عزم یو ں ہی نہیں پیدا ہوتا ، یہ توفیق اور حوصلہ خالق کائنات دیتا ہے۔جب سے عمرگوتم اور مفتی جہانگیر کی گرفتاری ہوئی ہے، ہر روز ایمان لانے والوں کی آزمائشی کہانی ہمیں حضرت بلال حبشی ؓ، حضرت صہیب رومیؓ کی یاد لاتی ہے۔ یو پی کے رمن کمار ہوں ، یا بہار کے ڈاکٹر سجیت کمار ؛ ایمان کی بہاریں ان سب کو اپنے چھاؤں میں لے چکی ہیں ، اب چاہے کوئی طوفان آجائے ان کے قدم پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ عمر گوتم کے ہاتھوں اب تک جن خوش قسمت افراد نے اسلام قبول کیا ہے ، وہ سب ڈاکٹرس ، انجینئر س اور اعلی تعلیم یافتہ اور اصحاب ثروت اور مالدار گھرانوں سے تعلق رکھنے والے ہیں ۔ ہر طرح کی سہوليات وآسائشوں كو چھوڑ کر انہوں نے اسلام کے دامن کو تھاما ہے ، کتنے اپنوں سے بچھڑ گئے اور آرام و آسائش کی زندگی تج کر تکلیف و مصائب کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔آخر وہ کونسی طاقت ہے جو ان کو ثابت قدم ركھے ہو ئے ہے،۔ کاش ! نفرت کا بیج بونے والے اسلام کی اس روحانی طاقت کو سمجھ سکیں۔

    ہم جس ملک میں بستے ہیں وہ ایک سیکولر ملک ہے۔ جہاں آئین کی مختلف دفعات اور بنیادی حقوق کے تحت انسان کو اپنی پسند کے مذہب پر عمل کرنے،اس کی تبلیغ کرنے اور قبول کرنے کی آزادی ہے۔ دستوری حقوق کو استعمال کر تے ہوئےعمر گوتم نے اگر عمرفاروق کی راہ اپنائی تو کونسا جرم کیا کہ آئینی منصب اور اونچے عہدوں پر بیٹھے لوگ، بدزبانی اور فتنہ انگيزي پر اتر آئے۔ ان دونوں کا مقدمہ عدالت میں شروع ہو چکا ہے ، دیر سویر وہ انشاء اللہ باعزت بری ہوں گے ؛ کیونکہ جو خدا ایمان کی دولت سے نوازتا ہے ، وہی استقامت بھی دیتا ہے اور آزمائش کی بھٹی سے گزار کر کندن بھی بناتا ہے۔

حال ہی میں امریکہ کے ’پیو ریسرچ سینٹر‘ نے ہندوستان میں مذہبی تعصب کو لےکرسروے رپورٹ شائع کی ہے۔ یہ خود مختار ادارہ ہے ، جو دنیا میں معاشرتی سلوک کی تحقیقات کرنے کے لیے سروے کرتا ہے، الگ الگ موضوعات اور خدشات پر لوگوں کے رجحانات اور خیالات کو مرتب کرتا ہےاور اعداد وشمار پیش کر تا ہے ، اس کی تحقیق اور سروے کو مستند مانا جا تا ہے۔تبدیلی مذہب کے بارے میں جو عام سمجھ ہے ، یہ رپورٹ اس پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔ سروے کے دوران پایا گیا ہے کہ جتنی تعداد ہندو دھرم چھوڑ کر دوسرے دھرم اپناتی ہے، لگ بھگ اتنی ہی تعداد دوسرے مذاہب کی پہچان چھوڑکر ہندو پہچان اپناتی ہے۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ تبدیلی مذہب کو لےکر جو پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اور بےچینی پیدا کی جا رہی ہے، وہ غیرضروری ہے؛ کیونکہ مذہب کی تبدیلی بڑی تعداد میں ہو ہی نہیں رہی ، یہ رپورٹ ہندستانی سماج كے تمام طبقے كو غور كرنے كي دعوت دے رہی ہے، حكام سے لے كر عوام تك كي ذمہ داري ہے كہ ملك كي سالميت اور گنگا جمني تہذيب كي حفاظت كے ليے ، نفرت پھيلانے والے لوگوں سے ہوشیار رہیں اور ان كي قانوني گرفت كي جائے۔

4جولائی 2021 کو غازی آباد میں منعقد ’مسلم راشٹریہ منچ ‘کے پروگرام میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نےخطاب کرتے ہوئےیہ تسلیم کیا کہ’’بھارت کے ہندو آتنک وادی بن چکے ہیں ، مسلمانوں کی ماب لنچنگ کرتے ہیں ،تبدیلی مذہب کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں اور مذہب اسلام سے نفرت کرتے ہیں، مسلمانوں کو دیکھنا گوارا نہیں کرتے ہیں،یہ بھائی چارہ کے خلاف ہے ،یہاں کے ہندو اور مسلمان دونوں ایک ہیں ، دونوں کا ڈی این اے بھی ایک ہے ۔اس لئے نفرت کی نہیں بھارت کے مفاد کی بات ہو نی چاہیے‘‘۔بھاگوت نے جو کچھ کہا ؛اس پر پوری دنیا میں تعریف ہو رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے ہندومسلم اتحاد کی بات کی اور مسلمانوں کا دفاع کیا۔ اگر بھاگوت کی نیت صحیح ہے توہم یہی کہیں گے کہ : ’تمہیں نے درد دیا ہے ، تم ہی دوا دینا‘۔ لیکن سمجھنے والے سمجھ رهے هيں كہ ان کا بیان حقیقت کے خلاف ہے ، اس بیان کے ذریعے آر ایس ایس نے پھر ایک شاطرانہ کروٹ لی ہے ۔پوری دنیا میں بدنام ہو رہی آر ایس ایس کی شبیہ کو بچانے کیلئے یہ قیامت کی چال چلی گئی ۔اتر پر دیش میں ہو نے والے انتخاب اور پوری دنیا میں تھو تھو ہورہی بی جے پی کو لے کر یہ بیان دیا گیا ہے۔

عمر گوتم کون ہیں ؟ اپنا تعارف کراتے ہوئے ایک ویڈیو میں وہ خودکہتے ہیں: ‘میں اترپردیش کے فتح پور ضلع میں ٹھاکر گھرانے میں پیدا ہوا تھا اور بیس سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا۔ میرے خاندان نے اس کی مخالفت کی تھی۔ ‘مجھے اپنے ایک مسلمان پڑوسی سے معلوم ہوا کہ اسلام میں ہمسایہ ہونے کے ناطے میرے کیا حقوق ہیں۔ اسی سے میں اسلام کی طرف راغب ہوا۔ اس وقت مجھے اللہ یا رسول کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔عمر گوتم کہتے ہیں: ‘میں نے ایک سال تک اسلام کے بارے میں پڑھا اور پھر سنہ 1984 میں اسلام قبول کرلیا۔ میں نے اپنا نام شیام پرساد گوتم سے تبدیل کرکے محمد عمر گوتم رکھ لیا۔ میں نے پہلے اپنے ہندو دوستوں سے کہا کہ میں اب مسلمان ہوں۔گوتم کا کہنا ہے کہ ‘مذہب تبدیل کرنے کے بعد مجھے دھمکایا گیا، حملے بھی ہوئے لیکن میں اپنے ایمان پر ثابت قدم رہا۔ میں نے اسلام کو کسی دباؤ یا کسی بہانے یا شادی کے لالچ میں نہیں بلکہ اسلام سے متاثر ہوکر قبول کیا۔

    جبری مذہب تبدیلی کو لے کر جہاں اترپردیش اے ٹی ایس اور این آئی اے کی جانچ چل رہی ہے اور روزانہ نئے نئے انکشافات سامنے آرہے ہیں ، وہیں سوشل میڈیا پر روزانہ نئے نئے چہرے سامنے آرہے ہیں جو کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ انہو ںنے اپنی مرضی اور صوابدید پر اسلام مذہب قبول کیا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کو سامنے کیوں نہیں لایا جارہا ہے ، جن کا جبری طور پر مذہب تبدیل کرایا گیا ہے ۔اگر مان بھی لیا جائے کہ کسی کو لالچ دے کر اور فنڈنگ کر کے مذہب تبدیل کیا گیا ہے ۔ وہ رقم لے کرگھر واپسی بھی تو کرسکتا ہے اور پرانا مذہب اختیار کرسکتا ہے ۔ در اصل یہ کھیل اترپردیش میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر شروع کیا گیا ہے ۔ تاکہ ان اہم امور اور موضوعات پر عوامی جوابدہی سے بچا جاسکےاور عوام کو گمراہ کرکے بنیادی سوالات پر پردہ ڈالا جاسکے ۔ ایک آخری بات میں یہ کہوں گا کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم کو اگر عوام کی حمایت مل رہی ہے تو، اس کے لئے کہیں نہ کہیں مسلمان بھی ذمہ دار ہیں ۔ملک کو آزاد ہوئے 70برسوں سے زائد ہو چکے ، ہمارے گھروں کی دیواریں برادران وطن کے گھروں سے لگی ہوئی ہیں ، صرف 10انچ کی مسافت ہے ؛ لیکن اب تک ہم ان کو اذان کاصحیح مفہوم بھی نہیں سمجھا سکے ،ہماري ذمہ داری ہماری كہ اپنے داعیانہ كردار كو سامنے لائيں اور اپنے حسن عمل اور حسن اخلاق سے ، ملك كے ماحول ميں مثبت تبدیلی كی فضاء ہموار كريں ، الله ہمارا حامی و مددگار ہو ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں