جویریہ صدیق
افغانستان کبھی بھی صحافیوں کے لیے ٓاسان خطہ نہیں رہا۔ یہاں سے کوریج کرنا آسان نہیں ہے۔ یہاں متعدد مقامی اور غیرملکی صحافیوں پر حملے ہوئے۔ کچھ خوش قسمی سے بچ گئے تو کچھ جانبر نہیں ہوسکے۔ ”وار رپورٹنگ“ جرنلزم کا حصہ ہے، جنگ کو کور کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اصل حقائق عوام کے سامنے آسکیں، لیکن یہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ جنگ کی رپورٹنگ کٹھن اور دشوار ہے، اس میں جان بھی جاسکتی ہے۔
تاہم سچ کے علمبردار اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور حقائق عوام کے سامنے لاتے ہیں۔ بھارت کے مسلمان فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی بھی ان میں سے ایک تھے جو حقائق کی جستجو میں اپنی جان کی بازی لگا گئے۔ میں ان کو ذاتی طورپر نہیں جانتی نا ہمارا کبھی ٹویٹر پر انٹریکشن ہوا۔ تاہم وہ اس وقت بہت زیادہ منظر عام پر آئے جب انہوں نے بھارت میں کورونا سے ہلاکتوں کی کوریج کی۔
مودی سرکار اور آر ایس ایس کے پیروکار ان کے دشمن بن گئے۔ ان کو دھمکیاں ملیں اور سوشل میڈیا پر ان کے خلاف منظم مہم چلائی گئی۔ تاہم انہوں نے ہمت نہیں ہاری، وہ کام کرتے رہے اور کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کی بھرپور کوریج کی۔
صدیقی خبر رساں ادارے رائٹرز کے ساتھ کام کرتے تھے۔ وہ ادارے میں چیف فوٹوگرافر کے طور پر تعینات تھے۔ اس وقت بھی وہ افغانستان میں کوریج پر موجود تھے اور امریکہ نیٹو کے انخلا کے بعد حقائق دنیا کو بتا رہے تھے کہ طالبان اور افغان سیکورٹی فورسز کے درمیان شدید تصادم میں وہ جاں بحق ہوگئے۔
اس سے پہلے بھی وہ بہت پرخطر علاقے اور جنگیں کور کرچکے تھے۔ جن میں ہانگ کانگ میں احتجاج، روہنگیا ریفیوجی کرائسز، دہلی کے دنگے، نیپال کا زلزلہ، عراق، مقبوضہ کشمیر اور افغان جنگ وغیرہ شامل ہیں۔ ۲۰۱۸ میں ان کو سب سے بڑا صحافتی ایوارڈ ملا۔ انہوں نے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم دکھائے جس میں ایک تصویر میں ایک روہنگیا خاتون کشتی سے اتر کر ساحل کی زمین کو چھو رہی تھی۔ اس تاریخی تصویر پر ان کو اور ان کے کولیگ عدنان عابدی کو پلٹزر ایوارڈ ملا۔ یہ دنیا میں سب سے بڑا صحافتی ایوارڈ ہے۔
۴۱ سالہ دانش صدیقی شادی شدہ تھے۔ پسماندہ گان میں انہوں نے بیوہ اور دو بچے چھوڑے ہیں۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ کے مطابق ان کو معلوم نہیں تھا کہ دوسری طرف کوئی صحافی بھی موجود ہے۔ اس وقت وہاں بہت شدید لڑائی ہورہی تھی جب دانش صدیقی زد میں آگئے۔ یہ خبر جب میڈیا پر آئی تو دنیا بھر کی صحافتی برادری نے اس پر غم اور رنج کا اظہار کیا۔ سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد نے انہیں خراج تحسین پیش کیا۔
افغانستان میں اب تک ۳۳ صحافی جاں بحق ہوچکے ہیں۔اس کے ساتھ لوکل افغان صحافی بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ہر دن وہ حملوں اور دھمکیوں کا سامنا کرتے ہیں۔دانش صدیقی بھی افغانستان میں لقمۂ اجل بن گئے۔ ان کے آخری ٹویٹ بھی افغانستان سے متعلق تھے اور وہ عوام کو تصاویر کے ذریعے سے بروقت خبریں پہنچا رہے تھے۔آخری تصویر قندھار سے افغان اسیشل فورسز کی ٹویٹ کی۔
مجھے ایک چیز سے بہت تکلیف اور رنج ہوا جب ان کی موت کی خبر آئی تو مودی میڈیا سیل اور بھارتی دائیں ہاتھ کے ٹرولز اکاؤنٹ اس بات پر خوشی کا اظہار کرتے رہے۔ ان کو دانش کی کورونا کوریج پر اعتراض تھا کیونکہ اس سے مودی حکومت کی غفلت دنیا بھر کے سامنے آگئی تھی۔ اس وجہ سے وہ دانش صدیقی کی موت پر مسرت کا اظہار کرتے رہے اور میں یہ سوچتی رہی کہ کوئی اتنا کیسے گرسکتا کہ کسی کی ناگہانی موت پر خوش ہو۔
دانش زندگی بھر عام لوگوں کے مسائل سامنے لاتے رہے۔ اسی جستجو میں جہاں فانی سے چلے گئے۔ ان کا کام ان کے نام کو زندہ رکھے گا۔
آر ایس ایس یا مودی میڈیا ان کے خلاف جو بھی کہتے رہیں اس سے اس صحافی کی ذات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا جو دکھی انسانیت کے دکھ دنیا کے سامنے عیاں کر گیا۔ میری دعائیں مرحوم اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔ دانش صدیقی فوٹو جرنلزم کا اثاثہ تھے اور ہمیشہ رہیں گے۔
افغانستان صحافیوں کے لیے بہت پرخطر علاقہ ہے۔ وہاں پر کوریج کرتے وقت تمام ایس وپیز پر عمل کیا جائے اور بہت چوکنا اور محتاط ہوکر کوریج کی جائے۔ یہاں پر امریکا اور نیٹو کے انخلا کے بعد دیرپا امن کے لیے اقدامات کیے جائیں اور اس کے لئے عالمی دنیا اپنا کردار ادا کرے۔