خبر درخبر(498)
شمس تبریز قاسمی
ہندوستان کی تاریخ میں نریندر مودی پہلے ایسے وزیر اعظم ہیں جن پر گھوٹالے کا الزام عائد کیا گیا ہے اورخود کو اس سے بری ثابت کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں،معاملہ کورٹ تک پہونچ چکا ہے اور مودی صاحب اس کے دفاع میں کچھ بول نہیں پارہے ہیں،راہل گاندھی نے پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرس کے دوران کہاتھا کہ میں بہت بڑا انکشاف کرنے جارہاہوں ،میں بولوں گا تو ملک میں زلزلہ برپا ہوجائے گا لیکن مجھے پارلیمنٹ میں بولنے نہیں دیا جارہاہے ،اس بیان کے بعد سنسی جیسا ماحول بن گیا تھا اور سبھی کو انتظار تھاراہل کے ہنگامہ خیز بیان کا، چناں چہ پارلیمنٹ کے بجائے نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات میں ایک ریلی کے دوران انہوں نے زلزلہ برپا کرنے والا یہ بیان دیا اور سنسی خیز انکشاف کرتے ہوئے کہاکہ ملک سے بدعنونی ختم کرنے کا دعوی کرنے والے وزیر اعظم خود بدعنوان اور کرپٹ ہیں ،راہل گاندھی نے کہاکہ جن دنوں نریندر مودی صاحب گجرات کے وزیر اعلی تھے انہوں نے سہار اور برلاگروپ سے کڑوروں روپے لئے تھے ۔اپنے دعوی کو مدلل کرتے ہوئے راہل گاندھی نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ22 نومبر 2014 میں سہاراکمپنی پر انکم ٹیکس نے چھاپہ مارا تھا جہاں سے ایک ڈائری برآمد ہوئی جس میں لکھے گئے حقائق کچھ یوں ہیں،30 اکتوبر 2013 میں ڈھائی کڑور روپے نریندر مودی کو دیئے گئے،12 نومبر کو پانچ کڑروروپے،27 نومبر 2013 میں ڈھائی کڑروروپے،29 نومبر 2013 کو پانچ کڑروروپے،6 دسمبر 2013 کو پانچ کڑورروپے،19دسمبر 2013 کو پانچ کڑورروپے ،13 جنوری 2014 میں پانچ کڑوررپے،14 جنوری 2014 کوپانچ کڑوڑروپے،22 فروری 2014 پانچ کڑورروپے ،یہ سب ریکاڈ میں موجود ہیں،اس پر انکم ٹیکس محکمہ کے افسران کے دستخط بھی ہیں،چھ ماہ میں نومرتبہ سہار ا کے لوگوں نے اپنی ڈائری میں لکھاہے کہ نریندر مودی کو پیسہ دیاگیاہے ،سہار ا کے ساتھ برلا کمپنی سے بھی پیسہ لینے کا الزام عائد کیا گیا ہے ،رہل گاندھی کے بقول برلا کمپنی کے کمپیوٹر میں یہ تفصیل درج ہے ’’25 کڑورروپے گجرات کے سی ایم کو جس میں بارہ کڑورہوگئے ‘‘ باقی کے سامنے سوالیہ نشان لگا ہواہے ۔
راہل گاندھی نے جس انکشاف کے تعلق سے کہاتھاکہ ملک میں زلزلہ برپا ہوجائے گا اس میں نیا پن کچھ بھی نہیں تھا ،نوٹ بندی کے بعد نومبر 2016 میں دہلی اسمبلی اجلاس کے دوران ہی دہلی کے وزیر اعلی اروند کجریوال نے یہ انکشاف کردیاتھا کہ مودی خود بدعنوان ہیں اور گجرات کے سی ایم رہنے کے دوران انہوں نے کڑوروں روپے رشوت کے طور پر سہار اور آدتیہ برلا کمپنی سے لئے ہیں،کجریوال نے اسمبلی میں مکمل ثبوت پیش کیاتھا اور انکم ٹیکس محکمہ سے ضبط تمام فائلیں بھی انہوں نے عام کی تھی ،اس کے ساتھ معروف وکیل پرشانت بھوشن نے بھی سپریم کورٹ میں اس بارے میں عرضی دائر کررکھی ہے جس میں خاص طور پریہ سوال کیا گیا ہے کہ اکتوبر 2013 میں آدتیہ برلا گروپ پر انکم ٹیکس محکمہ کی چھاپہ ماری تھی ہوئی تھی اور نومبر 2014 میں سہارا انڈیا گروپ کی کمپنیوں کو دوبارہ بحال کیا گیا تھا،اس کی وجہ آخر کیا ہے ،25 اکتوبر کو بھوشن نے یہ الزامی خط تمام انکوائری ایجنسیوں، دو ریٹائرڈ ججوں، چیف ویجلنس کمشنر اور کالا دھن کی تحقیقات کرنے والے محکموں کی ٹیم کو بھی بھیجاتھا۔سپریم کورٹ نے یہ عرضی خارج کردی ہے اور کہاہے کہ اس طرح کے ثبوت کی بناپر کسی کے خلاف سماعت نہیں کی جاسکتی ہے تاہم کورٹ نے مزیدپختہ ثبوت اکٹھا کرنے کی ہدایت بھی دے رکھی ہے ۔
نریندر مودی پر گھوٹالے اور رشوت کا الزام صرف راہل گاندھی اور کانگریس کا نہیں بلکہ کجریوال اور پرشانت بھوشن کا بھی ہے ،معاملے کی آہت عدلیہ تک پہونچ چکی ہے ،دوسری طرف نریندر مودی ان الزامات کے دفاع میں کچھ بولنے کے بجائے راہل گاندھی کا مذاق اڑارہے ہیں ۔کسی بھی وزیر اعظم پر گھوٹالے جیسا سنگین الزامات بہت اہمیت رکھتے ہیں،انہیں راہل اور کجریوال کے کے خلاف توہین کا مقدمہ دائر کرنا چاہئے لیکن نریندر مودی کی خاموشی یہ بتارہی ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے اور ان الزامات کا تعلق کہیں نہ کہیں حقیقت سے ہے۔
ڈائری سے حاصل شدہ معلومات کو اتنی آسانی سے خارج نہیں کیاجاسکتاہے ،ماضی میں بھی ڈائری سے حاصل شدہ معلومات کی بناپر بدعنوانی ثابت ہوچکی ہیں،جین ڈائری کا جب معاملہ سامنے آیاتھا تو چار وزراء نے استعفی دیاتھاجن میں ایل کے اڈوانی بھی شامل ہیں،اسی لئے یہ معاملہ اب بڑھتا جارہاہے اور گذشتہ کل 27 دسمبر کو تقریباکانگریس اور ترنمول کانگریس سمیت 8 اپوزیشن پارٹیوں نے متفقہ طور پر نریندر مودی کے خلاف عائد ان الزامات کی منصفانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے ان سے استعفی دینے کی بھی مانگ کی ہے کیوں کہ کرپشن اور بدعنوانی کے اس الزام سے وزیر اعظم جیسا باوقار عہدہ داغ دار ہوگیا ہے۔(ملت ٹائمز)