تعطل کے شکار تعلیمی ادارے اور حکومت کے لیے ترجیحی کام

معاذ مدثر قاسمی
دو ہزار بیس کے اوائل میں وبائی مرض کرونا وائرس نے ہندوستان سمیت پوری دنیا میں رفتہ رفتہ جب اپنے پر پھیلائے، تو دیکھتے ہی دیکھتے پورے عالم کو اس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، سارا نظام زندگی تعطل کا شکار ہوگیا، ہر کوئی اپنے گھروں میں قید و محصور ہوگئے اور معیشت کے ساتھ دیگر شعبہ جات بھی زبوں حالی کے شکار ہوگئے۔ چندماہ بعد وبائی مرض کی شدت کم ہو ہی رہی تھی اور زندگی کا نظام اپنی سابقہ حالت کی طرف لوٹ ہی رہا تھا، کہ بھارت میں کرونا وائرس کی دوسری لہر نے ایسی شدت کے ساتھ دستک دی کہ زندگی کا ہر شعبہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا، اور تاحال وہی بے یقینی کی کیفیت کہیں نہ کہیں برقرار ہے۔
اس وبائی مرض کی وجہ سے دیگر شعبہ جات کے ساتھ تعلیمی شعبہ بھی بہت بری طرح متاثر ہوا ہے ، اگریہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس وبا کی وجہ سے تعلیمی شعبہ متزلزل ہو گیا ہے اور دن بدن ترقی کے منازل طے کرنے والا شعبہ زبوں حالی اور پاتال کی طرف گامزن ہے۔
گزشتہ سولہ ماہ سے تعلیمی ادارے خاص کر شروعاتی درجات کے اسکول وغیرہ ملک کے اکثر صوبوں میں مکمل طور پر تعطل کے شکار ہیں ، جس کی وجہ سے تعلیمی نظام اس حد تک متاثر ہوا ہے کہ اگر آنے والے دنوں میں ممکنہ اثر کا جائزہ لیا جائے تو سوچ کرہی روح کانپ اٹھتی ہے۔ پوری ایک نسل کا مستقبل سیاہ نظر آرہا ہے۔ حالات فی الفور اگر نارمل ہو بھی جائیں ، نظام زندگی کا پہیہ سابقہ طور پر فراٹے بھی بھرنے لگے پھر بھی سولہ ماہ کی بندش کا جو اثر ان تعلیمی اداروں پر پڑا ہے اس سے بازیاب ہونے میں شاید برسوں بیت جائیں۔
یوں تو وبائی مرض کی دستک دینے سے قبل ہی ہمارے ملک کا تعلیمی معیار بہت ہی نچلے پائیدان پر تھا، ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق دیہی علاقوں کے پانچویں کلاس کے تقریباً پچاس فیصد طلبہ دوسرے درجہ کی کتابیں پڑھنے کے اہل نہیں تھے۔ سولہ ماہ کی بندش کی وجہ سے اب کیا صورتحال ہوگی وہ ہم خود سوچ سکتے ہیں۔ عظیم پریم جی یونیورسیٹی کے حالیہ تجزیہ کے مطابق کلاس دو سے کلاس چھ کے بانوے فیصد طلبہ لینگویج اسکل یعنی زبان دانی کی صلاحیت مفقود کر چکے ہیں ، جبکہ بیاسی فیصد طلبہ حساب و کتاب اور ریاضی جیسی بنیادی صلاحیت سے نا بلد ہوچکے ہیں۔
سولہ ماہ کے تعطل کا اثر ممکنہ طور پر بہت دیر پا ہوگا اور جس کی وجہ سے پوری نسل نو کی صلاحیت پر بٹہ لگ جائے۔ اس کا کتنا اثر پڑ سکتا ہے اس کو ایک مثال سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے؛ دو ہزار پانچ میں جب پاکستان میں زلزلہ آیاتھا تو تقریبا چار ماہ تک تعلیمی ادارے تعطل کے شکار تھے، اس کے اثرات کا جب ماہر معاشیات جشنو داس (Jishnu Dasr) اور ان کے رفقاء نے تجزیہ کیا تو پتہ چلاکہ صرف چار ماہ کی بندش سے اس کا اثر تقریباً دوسال تک رہا۔
اس وبا کے دوران ہزاروں لاکھوں طلبہ ایسے ہوں گے جنھوں نے سولہ ماہ تک نہ اسکولوں کا رخ کیا ہوگا اور وسائل کی محرومی کی وجہ سے تعلیم وتعلم سے اپنا ربط برقرار نہ رکھ پائے ہوں گے۔ اور ان کو جب سرسری امتحانات کے ساتھ یا بغیر امتحان لیے اگلے درجہ میں ترقی دی جائے جیساکہ سی بی ایس سی بورڈ کے تمام طلبہ کو بغیر امتحان کے آنے والے درجات میں ترقی دے دی گئی تو کیا یہ امید کی جاسکتی ہے کہ یہ طلبہ مترقی درجات کی کتابیں کماحقہ سمجھ پائیں گے! یقیناً جواب منفی میں ہوگا، اور یہ بعید نہیں ہے مجبور ہوکر یہ طلبہ تعلیم سے دوری اختیار کرلیں اور سماج میں غیر تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بھیڑ کا اضافہ ہو جائے۔
ہاں جن کے والدین یا کوئی ایک تعلیم یافتہ ہیں اور وسائل تک ان کی رسائی ہے تو وہ کچھ حد تک اس نقصان کی تلافی میں مدد کرسکتے ہیں ، مگر غیر تعلیم یافتہ والدین ،خاص کر دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والے بچوں کی تعلیم پر کس قدر منفی اثر پڑا ہوگا اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اس بندش کی وجہ سے ہزاروں لاکھوں غریب والدین کے بچے جن کے پاس وسائل کی کمی ہے وہ یقیناً جاہل رہ جائیں گے جبکہ اشرافیہ کے بچے کچھ نہ کچھ حاصل کرلیں گے ، جس کی وجہ سے سماج مزید عدم توازن کا شکار ہوجائے گا۔
جہاں کرونا سے حفاظت کے لیے مؤثر اقدام اٹھانا ضروری ہے وہیں سماج کو غیرتعلیم یافتہ نوجوانوں کی بھیڑ کا حصہ بننے سے بچانا بھی ضروری ہے۔ حکومت کو اس پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے، اور مزید تاخیر کیے بغیر فوری مگر حفاظتی نقطہ نظر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تعلیمی ادارے کو کھولنے پر توجہ دینی چاہیے۔ جس طرح اعلی تعلیمی اداروں میں طلبہ کےلیے کچھ حد تک اقدام کیے گئے ہیں اسی طرح بنیادی تعلیمی ادارے اور طلبہ کے لیے مؤثر لائحہ عمل کے ساتھ بغیر ادنی تاخیر کیے اقدام کرنا ناگزیر ہے۔
یونی سیف، یونیسکو جیسی بہت سی تنظیمیں اور اداروں نے تعلیمی اداروں کو دوبارہ کھولنے کے حوالے سے چند تجاویز پیش کی ہیں ، حکومت ہند، خاص کر نئے وزیر تعلیم کو ان تجاویز کو مد نظر رکھتے ہوئے تعلیمی اداروں کوفوری طور پر کھولنے لئے عملی اقدام اٹھانے پر سنجیدگی سے غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
کرونا وائرس سے صحت کومدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی اداروں کو مکمل بند رکھنے یا مکمل کھولنے کی پالیسی سے اوپر اٹھ کر پچاس فیصد کی گنجائش کے ساتھ باری باری کی پالیسی اپنائے ، یعنی اگر ایک کلاس میں سو طلبہ کی گنجائش ہو تو ایک دن پچاس طلبہ کو بلایا جائے، اگلے دن بقیہ پچاس کو ۔ اس سے طلبہ تعلیم سے یکسر محروم رہنے کی بجائے بہت حد تک ان کا اساتذہ اور قلم و قرطاس سے لگاؤ رہے گا۔ جس طرح کئی حکمتوں نے روز مرہ کی ضروریات کے پیش نظر دوکانوں کے لیے یہ اصول لاگو کیا تھا، اسی طرح تعلیم بھی انسان کی ایک لازمی ضرورت ہے اس کے لیے یہی پالیسی حکومت کو اپنانی چاہیے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اب طریقۂ تدریس میں بھی تبدیلی ضروری ہے، کتابیں مکمل کرنے کے بہ جائے فن کو سہل انداز میں پیش کرنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ اس سولہ ماہ تک تعلیم سے بہت حد تک دوری کی وجہ سے فنون سے جو عدم انسیت در آئی ہوں گی، اگلے درجہ کی کتابیں سمجھنے میں سہولت اور آسانی ہو۔