خبر درخبر(499)
شمس تبریز قاسمی
آج صبح فجر کی نماز کے بعد جیسے ہی میں نے فیس بک دیکھا تو ملت ٹائمز کے آفیشیل پیج پر کانپور ریل حادثہ کی خبرگردش کررہی تھی ،ویب سائٹ وزٹ کرکے میں نے پوری خبر دیکھی ،دوسرے ہندی اور انگریزی اخبارات کی ویب سائٹ پر بھی وہ خبر آچکی تھی،ملت ٹائمز کے اسسٹنٹ ایڈیٹر جناب سید ذولقرنین صاحب خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں جو ہندی سیکشن کو مکمل اپڈیٹ رکھتے ہیں اور اہم خبروں کو فوری طور پر قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔
تفصیل کے مطابق بدھ کی صبح تقریبا 5 بجے سیالدہ ۔اجمیر ایکسپریس کی پندرہ بوگیاں پٹری سے نیچے اتر گئیں ،دو بوگیاں نہر میں جاکر گرگئیں،اس حادثہ میں تقریبا 60 سے زائد لوگ شدید زخمی ہیں تاہم ریلوے نے اس بات کی تصدیق کی ہے کسی کی بھی موت نہیں ہوئی ہے ،ایک ماہ قبل21 نومبر 2016کو اسی شہر کانپور کے آس پاس اندور۔پٹنہ ایکسپریس ٹرین شدید حادثے کا شکار ہوگئی تھی جس میں 160 سے زائد لوگوں کی موت ہوئی وہیں300 سے زائد افراد زخمی تھے ،یہ دوحادثے ایک ماہ کے دوران ایک شہر میں پیش آئے ہیں اور دونوں میں مسافروں کا اچھا خاصانقصان ہواہے ،اس سے قبل بھی متعدد چھوٹے بڑے حادثات پیش آچکے ہیں ۔دوسری طرف بی جے پی دورحکومت میں ریلوے کے کرایہ میں بھی مسلسل اضافہ ہورہاہے ،مودی حکومت نے اپنی حکومت کا آغاز ہی ریلوے کا کرایہ بڑھا کر کیاتھا ،تیس دنوں کے بعد ہی 2014 میں ٹرین کے کرایہ میں اضافہ کیا گیاتھااور اس کے بعد سے کئی مرتبہ کرایہ میں اضافہ ہواہے ۔دوسرے لفظوں میں یوں کہاجاسکتاہے کہ بی جے پی دورحکومت میں کرایے اور حادثے دونوں ایک ساتھ بڑھ رہے ہیں ،نہ اتنے حادثے اس سے قبل کبھی پیش آئے ہیں اور نہ ہی اتنی قلیل مدت میں کرایے بڑھائے گئے ہیں،ان دنوں پھر یہ خبر گردش کررہی ہے کہ مودی حکومت کرایہ میں اضافہ کرنے جارہی ہے اور آنے والے ریلوے بجٹ میں مسافروں کو مہنگائی کی مار جھیلنی پڑے گی۔
اگر ریلوے حادثات کا تجزیہ کیا جائے تو سب سے پہلے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس کا شکار سب سے زیادہ غریب لوگ ہوتے ہیں، ایسے زیادہ تر ٹرین حادثے ان ٹرینوں کے ساتھ ہوتے ہیں جنہیں غیر وی آئی پی ٹرینیں کہتے ہیں، راجدھانی، شتابدی ٹرینوں کو وی آئی پی ٹرینیں کہتے ہیں جس کے ساتھ حادثے تقریبانا کے برابر ہوتے ہیں، تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ راجدھانی اور شتابدی ٹرینیں مکمل طور پر محفوظ ہیں؟ اس کا جواب ہے، نہیں! چونکہ ٹرینوں کے ٹریک اور سگنل نظام یکساں ہیں، فرق صرف ٹرین کے انجن اور اس کے ڈبو میں ہوتا ہے، تاہم وی آئی پی ٹرینوں میں خصوصی کوچ ہوتے ہیں،وی آئی پی ٹرینوں کے گزرنے سے پہلے ٹریک کی زیادہ بہتر نگرانی بھی کی جاتی ہے، اس کیلئے دیکھ بھال کیلئے تعینات افسران اور انجینئر زیادہ ماہر ہوتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ انڈین ریلوے کی بیماری کی جڑ کیا ہے؟میں نے گذشتہ حادثے کے موقع پر معزز وزیر ریل کا ردعمل سناتھا انہوں نے کہاتھاکہ قصورواروں کے خلاف ہر ممکن سخت کارروائی کی جائے گی،لیکن سوال یہ ہے کہ اس طرح کے حادثوں کیلئے مجرم کون ہے؟کیا ہم ایک غیر فعال ریلوے نظام کے لئے برطانوی حکومت کو مجرم مان لیں؟ بالکل نہیں! برطانوی حکومت سے جو کچھ قیمتیں چیزیں ہمیں ملی ہے ان میں ایک قابل ریلوے نظام بھی شامل ہے، تو پھر مجرم کون ہے؟ کیا ڈیوٹی پر تعینات ملازمین اس کے لئے ذمہ دار ہیں؟ بالکل نہیں کیونکہ وہ اتنے تعلیم یافتہ نہیں ہوتے کہ ریل کے معیار اور اس سے جڑے خطرات کا اندازہ کر سکیں، میں اس کے لئے ریلوے کے وزیر کو بھی ذمہ دار نہیں مانتا، میری رائے میں مرکز کی ایک کے بعد ایک آنے والی مختلف حکومتوں کو اس کی ذمہ داری لینی چاہئے، ان سب کو جنہوں نے بھارتی ریلوے کو قیمتی جائیداد کے بجائے ایک سیاسی اوزار کی طرح برتا، بھارتی ریلوے روزمرہ جتنی سواری اور سامان کی نقل و حمل کرتی ہے اس کا ہمارے مجموعی گھریلو مصنوعات (جی ڈی پی) میں کم از کم دو فیصد کی شراکت ہے۔
خلاصہ یہ کے ریلوے نظام ہندوستان میں بہت بڑاہے لیکن حکومت اس پر کنٹرل کرنے میں ناکام ہے ،ریلوے میں اب تک کسی طرح کا سدھار نہیں ہوسکاہے ،سلیپر کلاسیز اور جنرل ڈبوں کی صورت حال ناقابل بیان ہے اور اس جیسے مسائل کا انبار ہے ،حکومت ہر مرتبہ اصلاح کے نام پر صرف کرایہ بڑھاتی ہے لیکن کسی بھی شعبہ میں کوئی بھی اصلاحی کام نظرنہیں آتاہے ،ان سب کے درمیان وزیر اعظم نریندر مودی صاحب ہندوستان میں بلٹ ٹرین چلانے کی بات کررہے ہیں جو ہندوستان جیسے ماحول میں مضحکہ خیز ہے،ہاں بلٹ ٹرین منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کی صرف ایک شکل ہوسکتی ہے کہ اس کا پورا نظام جاپان یا دیگر بیرونی کمپنی کے ہاتھوں میں دینا ہوگا ،ہندوستانی حکومت خود اس نظام کو نافذ کرنے اور بلٹ ٹرین کو منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں کرسکتی ہے ،جس طرح دہلی میٹروکا منصوبہ انتظام وانصرام جاپان کے ہاتھوں میں ہونے کی وجہ سے کامیابی سے ہم کنار ہواہے اور یہ اب دہلی کی لائف لائن مانی جاتی ہے۔(ملت ٹائمز)