غیر نصابی کتب کا مطالعہ

عارف اکرام قاسمی (لندن)
مطالعہ انسان کے زاویہ نظر، سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کو وسیع تر کرتا ہے، انسانی دماغ کو جلا بخشتا ہے، ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرتا ہے، قوت حافظہ کو بڑھاتا ہے اور آج کے دور میں مطالعہ کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنے وقت کو انٹرنیٹ اورموبائیل فون کے بیجا استعمال سے محفوظ رکھ پاتا ہے۔
حال ہی میں میں نے مولانا عبد الماجد دریابادی صاحبؒ کی تحریر کردہ کتاب ’’ محمدعلی: ذاتی ڈائری کے چند اوراق‘‘ حفیظ نعمانی صاحبؒ کی ’’رواداد قفس‘‘ اور ڈاکٹر خالد ندیم صاحب کی ’’شبلیؒ کی آپ بیتی‘‘ کا مطالعہ کیا ہے۔
غیر تدریسی کتابوں کا مطالعہ کرنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ ان کتابوں کے مطالعے سے نہ صرف یہ کہ میری معلومات میں اضافہ ہوا ہے بلکہ فکرونظر کا دائرہ بڑا وسیع ہوا ہے اورساتھ ساتھ اس بات کا بھی بڑا افسوس ہوا ہے کہ قوم و ملت کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کرنے والے ان مجاہدین اورسرفروشوں کی قربانیوں سے اب تک میں ناواقف تھا جنہوں نے ملک وملت کے لئے ایسی ایسی اذیتیں برداشت کی ہیں کہ وہ ناقابل بیان ہیں۔ ہندوستان میں شعائر اسلام اور مسلم قوم کی شناشائی کو باقی و دائم رکھنے کے لئے جیل کی سلاخوں تک کا سفر کیا۔
میرا موضوع سخن ان مشاہران علماء کی قربانیاں بیان کرنا نہیں ہے بلکہ میرا مقصد زمانہ طالب علمی میں ان عظیم شخصیات کے بارے میں نہ جاننے اور ان کے بارے میں مطالعہ نہ کرنے پر اظہار افسوس کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے بارے میں پڑھنے کی اہمیت پر زور ڈالنا ہے۔ یہ کتب پڑھنے کے بعد یہ احساس شدت کے ساتھ پیدا ہوگیا ہے کہ زمانہ طالب علمی میں بہت سا فالتو وقت ادھر ادھر یا خوش گپیوں میں صرف کرنے کے بجائے دارالعلوم کی لائبریری میں موجود اس عظیم علمی سرمائے سے بھرپور فائدہ اٹھایا جانا چاہئے جو ہمارے اسلاف نے ہمارے لئے چھوڑا ہے اور جس میں نئی نئی کتابوں کی آمد کے ساتھ مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
زمانہ طالب علمی کے دوران کبھی اس جانب خیال ہی نہیں گیا کہ غیر نصابی کتب کا بھی مطالعہ کیا جائے اور ان سے استفادہ کیا جائے، ملت کا درد رکھنے والے اصحاب قلم کو پڑھا جائے اور ہندوستان میں اسلامی تشخص کے بقاء اور احیاء کے لئے سعی، کاوشیں اور جدوجہد کرنے والے مجاہدین کو پڑھا جائے۔ صرف میں ہی نہیں بلکہ میرے اکثر ساتھیوں کا بھی یہی رجحان تھا کہ صرف نصابی کتب کا مطالعہ کافی ہے۔ اور ہوتا بھی یہی تھا کہ میں اور اکثر ساتھی نصابی کتب کا ہی مطالعہ کرتے تھے۔ لیکن کچھ طلباء ایسے بھی تھے کہ جو غیرنصابی کتب کا بھی مطالعہ کرتے تھے۔
نصابی کتب میں سیرت النبیﷺ، تاریخ اسلام، قصص الانبیاء کے علاوہ درسی کتابیں شامل ہوتی تھیں جبکہ سیرت النبیﷺ ہی کی کتابوں کی بات کی جائے تو ایک سے ایک عمدہ کتاب علماء اور غیرعلماء یہاں تک کہ غیرمسلموں نے بھی لکھی ہیں۔ سیرتﷺ پر کتاب کا ذکر آیا ہے تو بتاتا چلوں کہ ایک عیسائی راہبہ کیرن آرم اسٹرانگ کی کتاب ’’محمد‘‘ (جو میں نے اب تک خود نہیں پڑھی ہے مگر اس کا اردو ترجمہ ہندوستان میں شائع ہو چکا ہے) کے بارے میں مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی صاحب کا تبصرہ یہ تھا کہ اس عورت نے ان ان باتوں کا دفاع کیا ہے جہاں بہت سے مسلمانوں کوبھی پریشانی ہونے لگتی ہے۔ ہندوستان کے شہرت یافتہ صحافی آنجہانی خش ونت سنگھ باوجود سکھ ازم سے تعلق رکھنے کے، اس کتاب پر جب تبصرہ لکھتے ہیں تو بے اختیار ان کے قلم سے سب سے پہلا جو لفظ تحریر ہوتا ہے وہ ’’محسن انسانیت‘‘ ہے۔
اب سوچئے کہ درسی کتابوں کے ساتھ ساتھ اگر ایسی کتب کا مطالعہ بھی کرلیا جائے تو اس کا کتنا بڑا فائدہ ہوگا۔
مدارس اسلامیہ کے موجودہ نصاب کی اہمیت وافادیت اپنی جگہ بلکل مسلّم ہے اور طلبہ جس طرح اس سے استفادہ کررہے ہیں یقیناً وہ قابل تعریف ہے، لیکن جب کوئی نصاب تیار کیا جاتا ہے تو مرتبین کے پیش نظر یہ رہتا ہے کہ محدود وقت میں طلبہ کا اعلیٰ اور معیاری کتب سے استفادہ ہوجائے اور ان کی انفرادی صلاحیت نکھرکر سامنے آئے۔ اس لئےکسی بھی فن کی چند معیاری کتابوں کو سامنے رکھ کر ان میں سے سب سے زیادہ نفع بخش کتاب کو منتخب کر لیا جاتا ہے مگر ان کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ باقی ماندہ کتابوں سے استفادہ نہ کیا جائے یا یہ دیگرکتب مطالعہ کے قابل نہیں ہیں۔
اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں طلبا کے لئے ایک ادنیٰ مشورہ ہے کہ وہ ان غیر نصابی کتب کا بھی مطالعہ کریں جن میں ہمارے اکابروعلماء کی قربانیوں کی دل خراش، ولولہ انگیز اور سبق آموز داستان رقم ہیں۔ آخر میں شاید یہ کہنا نا مناسب نہیں ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ پر اپنی کتاب اور وحی کے ذریعے جو علم عطا کیا تھا اس کا ہم تصوربھی نہیں کرسکتے مگرجس دین کی ابتدا ہی ’’اقراء‘‘ سے ہوئی تھی اس کے ماننے والوں کو علم کی اہمیت کا احساس دلانے کے لئے آپﷺ ’’رب زدنی علما‘‘ کی دعا مانگتے رہے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں