ہم آزاد ہیں مگر …..

محی الدّین آزاد
ہمارا ملک ہندوستان 15 اگست 1947کو انگریزوں کی غلامی کے اور ان کے ظالمانہ چنگل سے آزادہوا، اس لئے ہم ہر سال یہ قومی تہوار بڑے جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں اور منانا بھی چاہیے کیونکہ ہم آزاد ہیں، اس بار ہم 75 یومِ آزادی منانے جارہے ہیں مطلب یہ کہ انگریزوں کی غلامی سے نجات پائے ہوئے 75 سال مکمل ہوگئے، اس آزادی کو حاصل کرنے کے لئے ملک کے سبھی طبقوں نے بلا تفریق مذہب و ملت ہندو مسلم سکھ عیسائی سبھی نے لا زوال اور بیش بہا قربانیاں دی ہیں ملک کی آزادی کی تئیں اپنی ذمہ داری پوری ایمانداری سے نبھایا ہے، جن کی بدولت آج ہم آزادی کی فضا میں سانس لے رہے ہیں، حصول آزادی کے اس خار دار اور مشکل سفر میں کسی نے بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا، اس میں شک کہ تحریکِ آزادی میں ہمارے اسلاف پیش تھے ہم نے قربانیاں دی ہیں لیکن جو لوگ انگریزوں کی دلالی و چاپلوسی کرتے تھے پکڑے جانے پر متعدد بار جنہوں نے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی وہی آج اپنے آپ کو سب سے زیادہ محب وطن ہونے اور ملک کا معمار وطن ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
ملک آزاد ہونے کے بعد ملک میں رہنے والے تمام باشندوں کو ایسے قوانین و آئین کی ضرورت تھی جس میں کہ ہند میں بسنے والے تمام افراد کو بلا تفریق مذہب و قوم کے برابری کا حصہ مل سکے، ہر طبقے کی عزت وآبرو، جان ومال، عقائد و اخلاقیات کی تحفظ کر سکے اور بھائی چارہ اور الفت و محبت کے ساتھ زندگی گزاری جا سکے تاکہ ملک میں خوشحالی اور ترقی ہو، چنانچہ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی سرپرستی میں ایک آئین تیار کیا گیا جوکہ بالا خصوصیات اور انسانی تحفظ کا علمبردار تھا اور یہ آئین 26 جنوری 1950 کو پورے ملک میں نافذ کیا گیا، آئین ہند میں تمام مذاہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذہب و دھرم کے مطابق کھانے پینے رہنے سہنے اور مذہب کے مطابق عبادت کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔
لیکن ہماری بدقسمتی دیکھئے آج ہم جس آئین کا حلف اٹھاتے ہیں اور جس کے مطابق زندگی گزارنے اور اس پر عمل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اسی آئین کا مزاق بنا کر رکھ دیا ہے۔
ویسے پندرہ اگست کے دن ملک کے وزیر اعظم لال قلعہ کے فصیل پر کھڑے ہو کر قومی جھنڈا پھراتے ہیں اور گزشتہ سال میں حکومت کے ذریعہ کئے گئے کاموں و ملک کی تعمیر ترقی اور مستقبل کے ترقیاتی منصوبوں سے لوگوں کو آگاہ کرانا مقصود ہوتا ہے مگر وہاں ذاتی و مذہبی نمائش دیکھنے کو ملتی ہے۔
بہر حال آج ہم آزاد ہیں لیکن ہماری ذہنیت انگریزوں سے کہیں زیادہ گئی گزری ہے آج حکمران وطن اپنی سیاسی روٹی سینکنے اور عہدے و منصب کے خاطر انگریزوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ملک میں مذہبی نفرت کی آگ لگا کر قوانین و آئین کو بالائے طاق رکھ کر لڑائی جھگڑے کراکر ایک نیا ہندوستان بنانے کی ناپاک سازش رچی جارہی ہے، آج ملک میں مذہب کے نام پر کمزور طبقوں اور اقلیتوں کو ستایا جارہا ہے انہیں ذہنی اور جسمانی تکلیف دی جا رہی ہے، کہیں تو جانور کے نام قتل کر دیا جاتا ہے، تو کہیں کھلے عام اقلیتوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے، کہیں عصمت دری کرنے والے ظالموں کو پھولوں کا گلدستہ پہنا کر استقبال کیا جاتا ہے، کہیں مذہبی عمارتوں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے، کہیں ایک خاص مذہب کے لوگ زبردستی دوسروں کو مذہبی کلمات کہنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور نہ کہنے پر انہیں جسمانی و ذہنی تکلیف دی جاتی ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ بالا حادثات و واقعات بعض مرتبہ قانونی افسران کے سامنے پیش آتے ہیں مگر وہ ہاتھ پر مہندی لگا کر تماشائی بنے رہتے ہیں ریاستی و مرکزی حکومتیں اس سے با خبر ہوتی ہیں مگر ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتا اور نہ ہی ان پر وقت سے کارروائی کی جاتی ہے، ہاں جب لوگ سوشل میڈیا آواز بلند کرتے ہیں تو ان پر کارروائی ہوتی ہے پھر انہیں ہفتہ دس دن چھوڑ دیا جاتا ہے، ان چھوڑنا یقیناً نفرتی ذہنیت والے شخص کو حوصلہ افزائی کرنا ہے لہٰذا اس طرح لوگوں کی ایسی سزا دی جانی چاہیے کہ دوبارہ کوئی ایسا کام نہ کر سکے۔
اگر ہم ملک میں ترقی لانا چاہتے ہیں، اخوت و رواداری دیکھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں قومی بھائی چارہ کو بڑھاوا دینا ہوگا، نفرتی اور مذہبی سیاستدانوں سے کنارہ کشی اختیار کرنی ہوگی، ہر طبقے کو اس کے مذہب و ملت کے مطابق زندگی گزارنے اور عبادت کرنے کو آزادی دینی ہوگی، ملک کے باشندوں کی افادیت و اہمیت کو سمجھنا ہوگا، میرا ملک ہے کے بجائے ہمارا ہے کہنا ہوگا، ملک کی تعمیراتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہوگا، ملک کے تمام افراد کو خوشحالی دہنی ہوگی تب ہمارا ملک “وش گرو” نہیں تو دنیا کے نظروں میں ہماری کوئی وقعت اور حیثیت باقی نہ بچے کی دنیا ہمیں گری ہوئی نظروں سے دیکھے گی آئیے ہم عہد کریں کہ ہم مذہبی اور نفرتی ذہنیت ختم کر ینگے اور ملک کی ترقی اور تعمیری کاموں میں پیش رہیں گے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں