افغانستان میں امریکہ کی عبرتناک شکست

معصوم مرادآبادی
20 سال کی جلاوطنی کے بعد ایک بار پھرطالبان نے افغانستان کی کمان سنبھال لی ہے۔ صدراشرف غنی ملک چھوڑکرفرار ہوگئے ہیں اور ان کی تین لاکھ سے زیادہ فوج 90ہزار طالبان کے سامنے ڈھیر ہوگئی ہے۔امریکہ پتلی گلی کے راستے افغانستان سے نکل چکا ہے۔ فوجی انخلاء کی تاریخ سے دوہفتہ قبل ہی پورا منظر بدل چکاہے۔امریکی افواج نے افغانستان میں بیس سال گزارے اور یہ دورانیہ اس کے لیے سخت آزمائشوں کا رہا۔ امریکہ نے یہاں اکسٹھ لاکھ کروڑروپے خرچ کئے اور اپنے کئی ہزار فوجیوں کو کھویا، لیکن دنیا نے دیکھا کہ جب وہ یہاں سے نکلا تو خالی ہاتھ تھا۔ امریکہ2001 میں طالبان کو نیست ونابود کرنے اور ایک جدیدجمہوری افغانستان کی تعمیر کے وعدے کے ساتھ یہاں آیا تھا، لیکن اب 2021 میں وہ افغانستان کو ان ہی لوگوں کے حوالے کرگیا ہے جن کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔وجہ صاف ہے کہ امریکہ کو ایک محفوظ راستے کی تلاش تھی اور وہ یہاں سے ’باعزت واپسی‘ کا بہانہ ڈھونڈھ رہا تھا تاکہ دنیا کو اس کی شکست کا احساس نہ ہوسکے۔لیکن سب نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ امریکہ نے یہاں منہ کی کھائی اور وہ ایسی ہی شکست سے دوچار ہوا جیسا کہ روس ہوا تھا۔یہ افغان قوم کی تاریخ ہے کہ اس نے کبھی کسی کی غلامی قبول نہیں کی، جس بڑی طاقت نے اس سرزمین پر بدنیتی سے قدم رکھا، وہ اس کے لیے قبرستان ہی ثابت ہوئی۔ افغانستان کے خلاف جنگ کی سب سے بڑی قیمت عوام اور امریکہ نے چکائی ہے۔براؤن یونیورسٹی کے’کاسٹ آف وار‘ کے مطابق اس جنگ میں اب تک 2لاکھ41ہزار لوگ ہلاک ہوئے۔ 3936 امریکی شہریوں اور 3586 امریکی جوانوں کی جان گئی۔ اس جنگ میں افغان فوج کے 71ہزار314 جوان مارے گئے۔امریکہ کو اس لڑائی کی قیمت 165 لاکھ کروڑروپے پڑی۔ اس نے جنگ کے خرچ پر39 لاکھ کروڑ کا تو سود ہی چکایا۔
چارکروڑ کی آبادی والے افغانستان کی34صوبائی راجدھانیوں کو طالبان نے دوہفتہ میں اپنے قبضہ میں لے لیا ہے۔خاص بات یہ ہے کہ اس دوران کوئی خون خرابہ نہیں ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ ایک منصوبہ بندی کے تحت ہوا ہے۔مگرطالبان کی واپسی کے ساتھ ہی ان تمام اندیشوں اور وسوسوں نے سر اٹھالیا ہے جو طالبان کے راج سے عبارت ہیں۔حالانکہ طالبان نے پچھلی غلطیوں کو نہ دہرانے کا اعادہ کیا ہے اور خواتین کے ساتھ شانہ بشانہ ہوکر کام کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔اس کے ساتھ ہی پوری دنیا کے ساتھ خوشگوار رشتے استوار کرنے اور اپنی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی بات بھی کہی ہے۔طالبان نے صدارتی محل(کاخ گلستاں) پر قبضہ کرنے کے بعد عام معافی کا اعلان بھی کردیا ہے اور اپنے تمام دشمنوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بھی بڑھایا ہے۔یعنی اس بار طالبان کی واپسی بہ انداز دگر ہوئی ہے۔خطہ کی بااثر طاقتوں نے پہلے ہی مرحلہ میں طالبان کے سر پر اپنا ہاتھ رکھ دیاہے۔ روس،چین اور پاکستان کی ’دعائیں اور دوائیں‘ دونوں اس کے ساتھ ہیں۔
ہندوستانی قیادت کے لیے افغانستان کے اقتدار میں یہ تبدیلی نیک شگون نہیں مانی جارہی ہے۔ اسی لیے مودی سرکار اب تک یہ طے نہیں کرپائی ہے کہ وہ اس پر کیا ردعمل ظاہر کرے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ افغانستان میں طالبان کی واپسی کا سب سے زیادہ نقصان ہندوستان کو ہی اٹھانا پڑے گا، جس نے وہاں گیارہ ہزار کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ اس میں ایک ہزار کروڑ کی لاگت سے تعمیر کی گئی پارلیمنٹ کی وہ عالیشان عمارت بھی ہے، جہاں اسے جمہوریت کے ترانے گونجنے کی امید تھی۔ لیکن ہندوستان کی خواہش کے برعکس وہاں اسی طالبان کا پرچم لہرارہا ہے جسے ہندو ستان قطعی پسندنہیں کرتا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ طالبان ہی اب افغانستان کے سیاہ سفید کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے اب تک ایسا کوئی بیان نہیں دیا ہے جس کی ضرب ہندوستانی مفاد ات پر پڑتی ہو۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستان جتنی جلد ممکن ہو طالبان کی طرف سے کی گئی دوستی کی پیشکش کا مثبت جواب دے کیونکہ اگر اس معاملے میں ہندوستان نے غیر ضروری تاخیر کی تو اسے اس کا نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے اوراس صورتحال کا فائدہ ہندوستان کے دشمن اٹھا سکتے ہیں۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ امریکہ کو افغانستان میں بدترین شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔بیس برس تک افغانستان کے سیاہ سفید کا مالک رہے امریکہ کی لاچاری کا سب سے عبرتناک منظر وہ تھا جب اسے اپنے سفارتی عملہ کو سفارتخانے کے بغل میں ایک لینڈنگ پیڈ سے لفٹ کرنا پڑا۔ حالانکہ چالیس دن پہلے امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا تھا کہ”افغانستان میں آپ ایسا نہیں دیکھیں گے کہ لوگوں کو چھت سے ائیر لفٹ کیا جارہا ہے۔“
افغان قوم نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ تادیر کسی کی غلامی قبول نہیں کرسکتی۔ افغان عوام پچھلی دوصدیوں سے دنیا کی بڑی طاقتوں کو ان کی اوقات بتا رہے ہیں۔دراصل اب سے دوسو سال پہلے جب بڑی طاقتوں نے افغانستان کی جغرافیائی صورتحال کا ادراک کیا تبھی سے وہ اس ملک اور اس کے عوام کے ساتھ بے حسی کا سلوک کررہی ہیں۔ برطانوی سامراج کے عروج کے زمانے میں افغانستان ایک ایسا ملک تھاجس کی ضرورت اسے اپنے ایک ’بفر‘ ملک کے طور پر تھی۔ اس نے اس پر قابو پانے کی فوجی کوشش کی، مگر اس کوشش میں اسے جھٹکا لگا، پھر بھی اس نے ہمت نہیں ہاری۔افغانستان پر سب سے کاری ضرب1979میں سوویت روس نے لگائی۔ روس کی سرخ فوج نے افغانستان میں داخل ہوکر وہاں کمیونسٹ سرکار تشکیل دی۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان دنیا کی بڑی طاقتوں کا میدان جنگ بن گیا۔1980میں امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے سوویت فوج کے خلاف افغان مجاہدین کو منظم کیا اور ان پر دولت اور ہتھیاروں کی بارش کردی۔ طالبان کی تشکیل میں امریکہ کے کردار کو کوئی فراموش نہیں کرسکتا۔ طالبان کے خونی سنگھرش کا نتیجہ یہ نکلا کہ1989میں روس نے افغانستان کو چھوڑ نے میں ہی عافیت سمجھی اور اس طرح افغانستان پر روس کا دس سالہ قبضہ ختم ہوا۔ 1996 میں طالبان نے کابل پر اپنا پرچم لہرایا اور سابق صدر نجیب اللہ کو شارع عام پر پھانسی دے دی گئی۔2001 میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر جارحیت کا آغاز کیا اور طالبان کے اقتدار کا خاتمہ کردیا۔یہ کارروائی امریکہ میں نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں کے بعدالقاعدہ کو ختم کرنے کے لیے عمل میں آئی تھی۔دہشت گردانہ حملوں کا الزام القاعدہ کے سر تھا جس کا قلع قمع کرنے کے لیے امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کی اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی، لیکن جس اسامہ بن لادن کی تلاش میں افغانستان کو کھنڈر میں تبدیل کردیا گیا تھا، وہ پھر بھی اس کے ہاتھ نہیں آیا۔بہت بعد میں ایک فضائی حملے میں امریکہ نے پاکستان میں اسامہ کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
حالات نے نئی کروٹ اس وقت بدلی جب گزشتہ سال 29 فروری 2020کو امریکہ اور طالبان نے ایک سمجھوتے پر دستخط کئے، جس میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کی مرحلہ وار واپسی کا پروگرام طے ہوا۔ رواں سال کی 14/ اپریل کو صدر جو بائیڈن نے کہا کہ افغانستان میں موجود 3500/ امریکی فوجی ستمبر تک وطن واپس آجائیں گے۔گزشتہ ماہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کا عمل شروع ہوا۔ کئی ایرفیلڈ افغان فوج کو سونپ دئیے گئے۔لیکن جس وقت طالبان کابل میں داخل ہوئے تو دس ہزار سے زیادہ افغان فوجی اپنی توپیں اور ٹینک چھوڑکر روپوش ہوگئے۔ یہ وہی ’بہادرافغان فوج‘ تھی جسے بڑی محنت سے امریکہ نے تربیت دی تھی۔افغانستان میں تختہ پلٹ کو امریکہ اور یوروپی ممالک ناجائزقرار دے رہے ہیں، لیکن روس، چین اور پاکستان نے’طالبان حکومت‘کو منظوری دے دی ہے۔چین کا کہنا ہے کہ وہ طالبان سرکارسے تعاون کرے گا۔ روس کا کہنا ہے کہ طالبان اب افغانستان کی حقیقت ہیں اور ان سے دوستانہ تعلقات استوار کئے جائیں گے۔ واضح رہے کہ یہ وہی طالبان ہیں جنھیں ان کے پہلے دور میں کسی بڑی طاقت نے تسلیم نہیں کیا تھا اور محض چند مسلم ملکوں نے ہی انھیں منظوری دی تھی۔ لیکن اب جس انداز میں طالبان کو حمایت مل رہی ہے، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا کو طالبان کی اصل طاقت کا احساس ہوگیا ہے۔اب سب سے بڑا سوال ان چار کروڑ طالبانی عوام کی فلاح وبہبود کا ہے جنھیں سبھی نے نظرانداز کیا ہے اور جو اب تک چکی کے دوپاٹوں کے درمیان پستے رہے ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں