محمد فیاض عالم قاسمی
لغت میں مساوات کا معنی یکساں اور برابری کے ہیں،بالخصوص حقوق، مراتب اور مواقع میں یکساں ہونا۔ مساوات(عدل وانصاف) یا منصفانہ تقسیم کا اصول، اسلام کا ایک اہم عنصر ہے، جس کی بنیاد انسانیت پر قائم ہے۔آج ہم انسان مختلف مذاہب، فرقوں، ذاتوں اور حیثیتوں میں بٹے ہوئے ہیں،اوراس بناء پر ایک دوسرے پر فوقیت ، اور فضیلت کے قائل ہیں، اسی پر بس نہیں، بلکہ اس بناء پر جھگڑے اورلڑائی بھی کرتے ہیں، حتیٰ کہ قتل اورغارت گری کی نوبت آجاتی ہے۔ حالاں کہ اللہ سبحانہ و تعالی نےحضرت انسان کو ایک مرد اور ایک عورت سےیعنی حضرت آدم علیہ السلام اور حوا علیہا الصلوۃ والسلام سے پیداکیا، اس لحاظ سے یہ دونوں بزرگ دنیاکے تمام انسانوں کے ماں باپ ہوئے۔اورسارے انسان آپس میں بھائی بھائی ہوئے۔قرآن کریم میں اللہ تعالی نے فرمایا:ترجمہ:اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہےاور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے؛تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگارہے ۔ بےشک اللہ سب کچھ جاننے والا (اور) سب کی خبر رکھنے والاہے۔(حجرات:۱۳)
اس آیت کریمہ سے واضح ہوگیا کہ پیدائشی طور پرسارے انسان ایک ہی ماں باپ سے پیداہوئے ہیں،بحیثیت انسان سب برابر ہیں،رسول اللہ ﷺنے اس بات کی گواہی دی کہ اللہ کے سارے کے سارے بندے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔(ابوداؤد:١٥۰۸)۔ جہاں تک رہی بات براداری اور خاندان کی تووہ صرف اورصرف شناخت اور پہنچان کے لیےہیں، اسی طرح رتبہ کے اعتبار سے افضل اور اعلی ہونے کامعیار صرف اور صرف تقوی ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃالوداع کے موقع پر واضح طور پر اعلان فرمایاکہ اے لوگو! بیشک تمھارا رب ایک ہے ۔ تمھارا باپ ایک ہے ۔ دیکھو! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی کالے کو کسی گورے پر اور کسی گورےکو کسی کالےپر کوئی فضیلت وامتیاز نہیں،ہاں تقویٰ کے سبب فرق ہوسکتاہے،تم میں سے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہے“۔(البیہقی:۷۳۱۵)گویاکہ جس کا تقوی اورپرہیزگاری، سوچ وفکر،علم وعمل، قول وفعل، اخلاق وکردارجتنا عمدہ اور اچھا ہوگا اتنا ہی وہ عنداللہ معزز اور مکرم ہوگا۔پس کسی علاقہ کے رہنے والوں کو دوسرے علاقے کے لوگوں پر مثلا کسی بنگالی کو بہاری پر، یا کسی گجراتی کو مراٹھی پر یا مراٹھی کو ماکشمیری پرکوئی فضیلت نہیں،اسی طرح کسی شیخ کو پٹھان پر ، یاپٹھان کوخان پر یا خان کو میمن پر ،یا کسی ماڑواڑی کودلت پر،اس سے بھی آگےمجھے کہنے دیجئے کسی دلت کو برہمن پر یا برہمن کو دلت پر کوئی فضیلت یافوقیت نہیں۔ہاں اگر ایک کاتقویٰ دوسرےسے بڑھاہواہے تو زیادہ تقویٰ والے کو کم تقویٰ والے پر یقینافضیلت حاصل ہے،اوراللہ کے نزدیک زیادہ عزت والاہے، چاہےاس کا خاندان یاعلاقہ کچھ بھی ہو۔
اللہ تعالیٰ کاارشادہے: ترجمہ: اے ایمان والو ! اﷲ کا حق ادا کرنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے رہو ، کسی قوم کی دشمنی تم کو ناانصافی پر آمادہ نہ کردے ، انصاف کرو ، یہی تقویٰ سے قریب تر ( طریقہ ) ہے ، اور اﷲ سے ڈرتے رہو ، یقیناً اﷲ تمہارے اعمال سے باخبر ہیں۔ (سورہ مائدہ:۸)
اس آیت کریمہ کی تشریح میں حضرت مولاناخالد سیف اللہ رحمانی صاحب لکھتے ہیں: انسان کو انصاف کی راہ سے ہٹانے والی دو چیزیں ہوتی ہیں ، کسی سے محبت و تعلق ، یا کسی سے نفرت و عداوت ، سوہ نساءکی آیت نمبر : ۱۳۵میں محبت و تعلق کی بنا پر ناانصافی کو منع فرمایا گیا ، اور یہاں عداوت و نفرت کی بناپر ناانصافی کو ، اسلام کا نظام عدل کس قدر صاف ستھرا ہے کہ اس میں نیک و بد ، فرماں بردار و نافرمان ، مسلمان وغیر مسلم اپنے اور بیگانے کا کوئی فرق نہیں ، انصاف ہرایک کے ساتھ ضروری ہے ! رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: خداکی قسم اگرمیری بیٹی فاطمہ بنت محمد نے بھی کسی کا کچھ چرایاہوتاتو میں ضرور اس کا ہاتھ کاٹ ڈالتا۔(صحیح مسلم:1688)
کسی بھی ترقی یافتہ اور مہذب قوم، سوسائٹی یا ملک کے لیےان کے باشندوں کے لئے عدل وانصاف اور مساوات ایک بہترین اصول ہے ۔اس کو نظر انداز کر کے کوئی ملک نہ ترقی کر سکتا ہے اور نہ اس ملک میں انصاف اور امن وامان قائم ہو سکتا ہے آج دنیا کے جن ممالک میں اپنے شہریوں کو انصاف اور حقوق دلاتے وقت ان کی ایمانداری اور حب الوطنی کے بجائےان کی ذات، پات اور نسل کو ترجیح دی جاتی ہے، وہاں حقوق پامال ہوتے ہیں۔اور انصاف اور مساوات ایک خواب بن کر رہ جاتا ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارا ملک بھی بری طرح سے اس مرض میں مبتلاءہے ۔ روزانہ کئی لوگوں پر صرف اس لئے ظلم کیا جاتا ہے کہ وہ دلت یا اقلیتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔اور ظالموں کو صرف اس لئے چھوڑ دیا جاتا ہے کہ اس کاتعلق اکثریتی طبقہ سےہےیاوہ برہمن ہے۔حالاں کہ ہماراملک ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے،اورجمہوریت کابنیادی عنصر عدل ومساوات ہے۔ جمہوریت کو برقرارکھنے میں تین اہم ستونوں کاکردارہوتاہے۔ مقننہ (Legislative)، جو لوگوں کی بھلائی کے لئے قانون بناتاہے، انتظامیہ(Administration)جو قانون کو نافذکرتاہے، اورعدلیہ(Court)جو کسی قسم کے اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے، خواہ وہ اختلاف عوام کے درمیان ہو، یا مقننہ اورانتظامیہ کے درمیان ، تاہم ایک ہر ایک ادارہ کے اصول وضوابط مقررہیں جن کو اپنے دائرہ میں رہتے ہوئے خدمت کرناہوتاہے۔ اس کے علاوہ ذرائع ابلاغ (Media) کو بھی جمہوری ملک کاچوتھا ستون تصورکیاجاتاہے، کیوں کہ وہ لوگوں کی باتوں انتظامیہ تک پہونچانے کے ذریعہ بنتاہے۔ان چاروں اداروں کاقیام ہی عدل وانصاف اورمساوات کے تصور کو فروغ دینے اور اس کو برقراررکھنے کے لئے عمل میں آیاہے؛لیکن صورت حال یہ ہے کہ یہ چاروں ادارے ایک خاص طبقہ کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں، نہ کہ جمہوریت کی۔اگر ظالم کا اس خاص طبقہ سے ہو تو اس کوظالم ہی تصور نہیں کیاجاتاہے، بلکہ اس کو دیش بھکت کانام دیاجاہے،اس کے ظلم پر تالیاں بجائی جاتی ہیں، اور اگر اس کا تعلق اقلیتی فرقے سے ہو تو اس کو سب سے بڑاظالم کے طورپرپیش کیاجاتاہے۔اس صورت حال پر جتنابھی افسوس کیاجائے کم ہے۔
حالاں کہ کسی بھی قوم یا ملک کے باشندوں میں جب تک آپسی بھائی چارہ اور محبت پیدا نہیں ہوگی، تب تک وہ ملک ترقی کی طرف نہیں بڑھ سکتااوریہ اسی وقت ممکن ہے جب ملک کے سربراہان اور باشندوں کے درمیان گہراربط ہو، یعنی پیارومحبت اور ہمدردی کاتعلق ہو،ہر کوئی ہر کسی کو اہمیت دیتاہو،عزت واحترام کرتاہو،ہر کوئی دوسرے کے حقوق کو اداکرتاہو،اونچ نیچ کافرق نہ ہو،خاندان یاحسب ونسب کاکوئی امتیاز نہ ہو،قانون کی نظر میں سب برابر ہوں تب ہی کوئی قوم ترقی کرسکتی ہے،ملک میں امن وامان قائم ہوسکتاہے؛ورنہ پھر ہلاکت وبربادی اس کامقدربن جائے گی۔ اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ ہم کو اورہمارے ملک کودن دونی رات چوگنی ترقی عطافرمائے اورہرقسم کی آفت ومصیبت سے بچائے ۔آمین۔
(٭ مضمون نگاردارالقضاء ناگپاڑہ کے قاضی شریعت ہیں)
رابطہ: 8080697348