سہیل انجم
جو معاشرہ جتنا زیادہ روادار اور تحمل پسند ہوتا ہے اس کی ترقی کے امکانات اتنے ہی زیادہ روشن ہوتے ہیں۔ اسی طرح جو معاشرہ تعصب و تنگ نظری کی گرفت میں رہتا ہے وہ تنزلی کے غار میں جاگرتا ہے۔ عام طور پر ہم لوگ مغربی ملکوں کی ترقی و خوشحالی پر رشک کرتے ہیں اور خواہش کرتے ہیں کہ ہم بھی ایسی ہی ترقی سے ہمکنار ہوں۔ لیکن ہم اس معاشرے کی خوبیوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں اور اس کی خوشحالی کے اسباب پر غور کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اس کی بے شمار خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ روادار اور تحمل پسند ہے۔ اگرچہ وہاں بھی تعصب کی کارفرمائی ہے لیکن اتنی نہیں کہ وہ ترقی و خوشحالی کی گاڑی کے لیے اسپیڈ بریکر بن جائے۔ اگر ہم ہندوستانی معاشرے کا جائزہ لیں تو پائیں گے کہ یہاں خوبیاں کم اور خامیاں زیادہ ہیں۔ یہاں کا معاشرہ پہلے بھی تعصب و تنگ نظری کی گرفت میں تھا اور اب بھی ہے۔ بلکہ گزشتہ چند برسوں میں یہ گرفت کہیں زیادہ مضبوط ہوئی ہے۔ جس کے نتیجے میں مذہبی، سماجی و فرقہ وارانہ یگانگت متاثر ہوئی ہے اور یہ فضا ہندوستانی معاشرے کو زوال کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ہم یہ کہہ کر اپنی پشت کتنا ہی تھپتھپا لیں کہ ہم ترقی کی شاہراہ پر برق رفتاری کے ساتھ گامزن ہیں اور ہم عالمی قائد بننے جا رہے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سچائی چونکہ بہت تلخ ہوتی ہے اسی لیے ہم اس سے آنکھیں چار کرنے کا حوصلہ نہیں کر پاتے۔ سچائی یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں پروپیگنڈے کی مدد سے جو ماحول بنایا گیا ہے اس نے عوام کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے جس کی وجہ سے انھیں حقائق نظر نہیں آرہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ سیاست اور یہ خواہشِ بیجا ہے کہ ہمارا اقتدار تاابد قائم رہے۔ اس کے لیے مختلف قسم کے حربے اختیا رکیے جاتے اور جائز ناجائز ہر قسم کے طریقے کام میں لائے جاتے ہیں۔ تعصب کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ ان میں سب سے خطرناک قسم مذہبی تعصب ہے۔ اس نے ہم سے صبر و برداشت کی صلاحیت چھین لی ہے او راب بیشتر معاملات کو مذہب و فرقے کے چشمے سے دیکھا جانے لگا ہے۔ عام طور پر یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ جب بھی انتخابات کا موقع آتا ہے تعصب و تنگ نظری بڑھ جاتی ہے اور مختلف بہانوں سے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں یہ صورت حال کہیں زیادہ ابھر کر سامنے آئی ہے۔ پاکستان کے ہاتھوں ہندوستانی کرکٹ ٹیم کی شرمناک شکست کے بعد جس طرح محمد شامی کو ٹرول کیا گیا وہ سماجی و مذہبی ہم آہنگی کے کمزور پڑنے کی جانب ایک واضح اشارہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی کھیل میں فتح و شکست کی ذمہ داری پوری ٹیم کی ہوتی ہے اور خوش دلی کے ساتھ شکست کو بھی تسلیم کرنے کو ہی اسپورٹس مین اسپرٹ کہا جاتا ہے۔ لیکن محمد شامی کے معاملے میں جو کچھ ہوا وہ نہ صرف عوام کے ایک طبقے کے تعصب کو واضح کرتا ہے بلکہ اس پر خاموش رہنے کی وجہ سے کرکٹ ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں کی سوچ پر بھی سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ شکر ہے کہ وراٹ کوہلی نے تاخیر سے ہی سہی محمد شامی کو ہدف ملامت بنانے والوں کی ملامت کی ہے اور اسے بزدلی اور نامردی سے تعبیر کیا ہے۔ بلا شبہ ان کا یہ قدم اسپورٹس کے جذبے کو تقویت فراہم کرتا ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ پوری ٹیم شامی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہو جاتی۔ گوڑ گاو ¿ں ہریانہ کا ایک ایسا کامرشیل علاقہ ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی بھی ہے اور دوسرے علاقوں سے بہت سے مسلمان وہاں ملازمت کرنے جاتے بھی ہیں۔ لیکن وہاں مساجد کی تعداد اتنہائی کم ہے جس کی وجہ سے مختلف سیکٹرز کے پارکوں میں مسلمان نماز جمعہ ادا کرتے آئے ہیں۔ لیکن اب دائیں بازو کی بعض شرپسند تنظیموں کو مسلمانوں کی ادا چبھنے لگی ہے۔ حالانکہ ابھی تک حکومت اور پولیس کا رویہ مسلمانوں کے حق میں ہے لیکن یہ رویہ کب بدل جائے کہا نہیں جا سکتا۔ گزشتہ جمعہ کو پولیس نے سیکٹر بارہ میں نماز کی مخالفت کرنے والوں میں سے تیس افراد کو حراست میں لے لیا اور پھر نماز کی ادائیگی ہوئی۔ لیکن اب ان لوگوں نے اعلان کیا ہے کہ اگلے جمعہ کو وہ اسی پارک میں پوجا کریں گے اور اس طرح نماز کی ادائیگی کو روکیں گے۔ اب اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کے ساتھ ساتھ قومی سلامتی کا مسئلہ بنانے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے اور الزام لگایا جا رہا ہے کہ ان پارکوں میں باہری لوگ نماز پڑھنے آتے ہیں جن میں روہنگیا دہشت گرد بھی شامل ہیں۔ حالانکہ اس کا کوئی ثبوت ان کے پاس نہیں ہے۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اگر اوقاف کی زمینوں اور تاریخی مسجدوں پر حکومتی قبضے ختم کر دیے جائیں اور وہاں نماز کی اجازت دی جائے تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ لیکن حکومت ایسا کیوں کرنے لگی۔ لہٰذا اندیشہ ہے کہ گوڑ گاو ¿ں کے پارکوں میں نماز کی ادائیگی کا معاملہ آگے چل کر کوئی خطرناک اور تباہ کن موڑ اختیار نہ کر لے۔ خیال رہے کہ ریاستی حکومت نے نماز جمعہ کے لیے 106 مقامات مقرر کیے تھے لیکن اب وہ گھٹ کر صرف 26 رہ گئے ہیں۔ لیکن وہ بھی شرپسندوں کو گوارہ نہیں ہے۔ تری پورہ میں ہونے والے مسلم مخالف تشدد کے سلسلے میں بہت کچھ ذرائع ابلاغ اور خاص طور پر سوشل میڈیا میں آگیا ہے اور آرہا ہے۔ لہٰذا اس پر زیادہ روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن یہ معاملہ بھی اسی تعصب و تنگ نظری سے جڑا ہوا ہے جس سے ایسے دوسرے معاملات جڑے ہوئے ہیں۔ سنگھ پریوار سے وابستہ مختلف تنظیموں کی جانب سے بنگلہ دیش میں ہونے والے ہندو مخالف تشدد کے ردعمل میں یہ سب کچھ ہوا ہے۔ لیکن دونوں جگہوں کے معاملے میں نمایاں فرق ہے۔ بنگلہ دیش میں شرپسندوں کے خلاف سخت کارروائی کی گئی اور متعدد مسلم تنظیموں نے بھی جلو س نکال کر ہندوو ¿ں کے خلاف ہونے والے تشدد کی مخالفت کی۔ لیکن تری پورہ میں نہ تو شرپسندوں کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے اور نہ ہی کسی ہندو تنظیم نے جلوس نکال کر مسلم مخالف تشدد کی تادم تحریر مخالفت یا مذمت کی ہے۔ تری پورہ میں تیس سال سے بائیں بازو کی حکومت تھی اور یہ پورا عرصہ انتہائی پرامن رہا۔ انتہائی سادہ مزاج وزیر اعلیٰ مانک سرکار نے سماج کو فرقہ وارانہ یگانگت کے دھاگے میں باندھے رکھا تھا لیکن اب اس یگانگت کے رشتے کو تار تار کیا جا رہا ہے۔ ادھر اشتہاروں کا معاملہ ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ابھی ‘فیب انڈیا’ کے اشتہار ‘جشن رواج’ پر اٹھے طوفان کی گرد بیٹھی بھی نہیں تھی کہ ایک اور اشتہار کو واپس لینا پڑ گیا۔ فیشن ڈزائنر سبیہ ساچی مکھرجی کا ‘منگل سوتر’ اشتہار متنازعہ بن گیا۔ دراصل وہ جس بیہودہ انداز میں تیار کیا گیا ہے ا س کا یہی حشر ہونا تھا۔ فیشن ڈیزائننگ کے نام پر عریانت کی اور وہ بھی کسی مذہبی علامت کے ساتھ، اجازت نہیں دی جا سکتی۔ شاید اس کے ذمہ داروں کو صورت حال کی نزاکت کا احساس ہو گیا۔ اسی لیے انھوں نے مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ کی مخالفت کے فوراً بعد اسے واپس لے لیا۔ اس سے قبل ایک اور اشتہار جو ہندووں کے ایک تہوار کروا چوتھ سے متعلق تھا اور جو دو ہم جنس پرست خواتین پر بنایا گیا تھا واپس لینا پڑا۔ فلم ساز پرکاش جھا کے او ٹی ٹی پلیٹ فارم کے لیے بنائی جانے والی سیریز ‘آشرم’ کی شوٹنگ پر حملہ کیا گیا اور پرکاش جھا پر سیاہی پھینکی گئی۔ حالانکہ اس میں جو کچھ دکھایا جا رہا ہے وہ بابا رام رحیم اور آسارام وغیرہ کے آشرموں میں ہونے والی حرکات کی محض ایک ہلکی سی عکاسی ہے۔ لیکن وہ بھی دائیں بازو کے لوگوں سے ہضم نہیں ہوئی۔ اسی درمیان کامیڈین منور فاروقی کے ممبئی میں ہونے والے تین شوز کے خلاف ہنگامہ کیا گیا۔ گجرات سے کچھ لوگ ممبئی پہنچے اور انھوں نے منتظمین اور آڈیٹوریم کے ذمہ داروں کو دھمکیاں دیں اور آگ لگانے کی باتیں کیں، لہٰذا شوز منسوخ کر دیے گئے۔ اس سے قبل منور فاروقی کو جیل بھی جانا پڑا تھا۔ حالانکہ انھوں نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ ہندو دیوی دیوتاو ¿ں کا مذاق نہیں اڑائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں روزانہ کم از کم پچاس دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ عدم تحمل اور عدم رواداری کی یہ صورت حال کسی بھی حال میں ملک میں فرقہ وارانہ میل جول اور آپسی بھائی چارے کے منافی اور اس کے لیے نقصاندہ ہے۔ یہ صورت حال جتنی جلد بدل جائے سماجی تانے بانے کے لیے اتنا ہی اچھا ہوگا۔