ملک کا ہرگوشہ مسلمانوں کے لیے تنگ ہو گیا ہے، پولس کسٹڈی میں الطاف کی موت خود کشی نہیں، قتل ہے
کلیم الحفیظ، دہلی
کاس گنج ریاست اتر پردیش میں پولس کسٹڈی میں ۲۲ سالہ الطاف کی موت ہوگئی ۔ پولس کا بیان ہے کہ اس نے واش روم کی ٹونٹی سے لٹک کر خود کشی کرلی،خود کشی کے لیے اس نے جیکٹ کی ڈوری کا استعمال کیا۔ جیکٹ کی ڈوری اور تین فٹ اونچی ٹونٹی کی اوقات دیکھیے اور پولس کا بیان ملاحظہ کیجیے اور اپنا سر پیٹ لیجیے۔ کاش پولس کہہ دیتی کہ الطاف کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے تو شاید صبر بھی آجاتا اور لوگ یقین بھی کرلیتے ، مگر قتل کبھی چھپتا نہیں ، قاتل کوئی نہ کوئی نشان چھوڑدیتا ہے یا اس کے بیان میں وہ الفاظ ہوتے ہیں جو اسے قاتل ثابت کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔
بھارت میں پولس کسٹڈی میں اموات کا سلسلہ بہت پرانا ہے ،جب مسلمانوں کا سینہ سامنے ہو تو پولس کی گولیاں اپنا نشانہ نہیں چوکتیں، ہزاروں واقعات ہیں جہاں پولس نے سیدھے گولی مارکر ہلاکتیں کی ہیں ،کسی زمانے میں بدنام زمانہ پی اے سی تھی ، ہاشم پورہ ملیانہ فساد کے موقع پر ۲۵ مسلمانوں کو سیدھے گولی مار کر ہنڈن ندی میں بہادیا گیا تھا۔ پولس کی جانب سے جھوٹے بیانات ، زور زبردستی کرکے اہل خانہ سے اپنے بیانات پر دستخط کروالینا، بہت زیادہ ہنگامہ ہوا تو کچھ سپاہیوں کو معطل کردینا اور پھر خاموشی سے بحال کرلینا، عدالتوں میں گواہوں کو خریدنا یا دھمکانا ، ہمارے ملک کی شناخت ہے ۔ الطاف کی موت کا حادثہ بھی کوئی آخری حادثہ نہیں ہے ۔ روزانہ کوئی نہ کوئی الطاف اس طرح کے حادثوں کا شکار ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ کتنے ہی دل دہلادینے والے واقعات چند مہینوں میں واقع ہوئے ، مدھیہ پردیش کے اندور میں ایک چوڑی فروش پر تشدد کیا گیا، اتر پردیش میں ہی ایک لڑکے کو مندر میں پانی پینے پر پیٹا گیا۔ دہلی میں پہلے ایک پھل فروش پر اور ابھی حال ہی میں ایک بریانی بیچنے والے پر ظلم کیا گیا۔ لیکن سب سے زیادہ اندوہ ناک حادثہ کانپور میں ہوا۔ جب پولس کے سامنے ایک رکشہ پولر کو ہندو شدت پسند مارتے رہے اور اس کی معصوم بچی اپنے باپ کے پاؤں سے لپٹ کر بچانے کی اپیل کرتی رہی ۔ اس طرح کے مناظر سے بھی اگر پولس کا، تماش بینوں کا یا ہمارا دل نہیں پگھلتا تو ہمیں خود کو زندہ سمجھنے بلکہ انسان کہنے کا کوئی حق نہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمارے جسم میں دل نہیں ہے پتھر ہے ۔
تعجب یہ ہے کہ کہیں کوئی چوڑی فروش ، کہیں سبزی فروش،کہیں بریانی فروش ،اسی طرح زد و کوب کیے جارہے ہیں اور کسی طرف سے مدد کرنے والے ہاتھ نہیں اٹھتے ، کیا یہ ملک حیوانوں سے بھر گیا ہے ، جانور بھی اپنے ہم جنسوں کی مدد کو آگے آجاتے ہیں ۔ کیا یہاں امن پسندوں کی تعداد ختم ہوگئی ہے ، یوں تو یہ حادثات پورے ملک میں ہورہے ہیں لیکن اترپردیش اس طرح کے حادثات میں سر فہرست ہے اور کیوں نہ ہو جب قاتلوں کو سرکار کی حمایت حاصل ہو ، جب انھیں جیلوں میں ڈالنے کے بجائے ان پر پھول مالائیں ڈالی جارہی ہوں، جب خود پردیش کا وزیر اعلیٰ مظفر نگر فساد کو ریاست کی شان بان بتائے ۔ ان حالات میں مظلوم کیا کریں ، جب ملک کا ہر گوشہ ان کے لیے مقتل بن گیا ہو۔؟
ہمارے حکمرانوں نے یہ بھی سوچا ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ جب فرعون کا سر اٹھتا ہے تو کوئی نہ کوئی عصائے موسوی لے کر کھڑا ہوجاتا ہے ۔کیا انھیں نہیں معلوم کہ مظلوم کی آہیں کیا رنگ دکھاتی ہیں؟ کبھی وہ خالصتان تحریک شکل اختیار کرتی ہے ، کبھی نکسل ازم کی شکل میں نمودار ہوتی ہیں۔ تعجب یہ ہے کہ نہ عوام میں کوئی بیداری ہے ، نہ خواص میں ، تری پورہ میں فساد ہوتا ہے اور کھل کر خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے ۔ اس فساد کے خلاف مظلومین پرامن مارچ نکالتے ہیں تو ان پر پتھراؤ کیا جاتا ہے ،گولیاں برسائی جاتی ہیں۔ یعنی آپ ماریں بھی اور رونے بھی نہ دیں۔ جسمانی تشدد کے ساتھ مسلمانوں کے احساسات کو تکلیف پہنچاکر انھیں دماغی اور ذہنی اذیت پہنچائی جارہی ہے ۔ ملک کا گودی میڈیا زہر اگل رہا ہے ، فسطائی سیاست داں جھوٹ اور غلط بیانیوں سے کام لے کر ٹارچر کررہے ہیں، پولس جس کا کام انسانی جانوں کی حفاظت ہے ، بربریت پر اتر آئی ہے۔ کیا ملک کا ضمیر مر چکا ہے۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنا چاہئے کہ ظلم کی عمر بہت زیادہ نہیں ہوتی ۔ کسی بھی ملک کی ترقی امن و سلامتی کے پائیدان پر کھڑی ہوتی ہے، جس ملک کی سرحدیں غیر محفوظ ہوں اسے اپنے گھر میں جھگڑا نہیں کرنا چاہئے، چین مستقل در اندازی کررہا ہے ، اروناچل پردیش میں سینکڑوں گھر اس نے تعمیر کرلیے ہیں پاکستان ہمارا ازلی دشمن ہے، اس سے کسی خیر کی توقع فضول ہے ، اب حسینہ بھی آنکھیں دکھانے لگی ہے، نیپال بھی اعتماد کھو چکا ہے، ایسے میں ہمارے سماج میں نفرت پر مبنی یہ سیاست ، حکومتی اداروں کے یہ مظالم ، کسی ایک قوم کو ٹارگیٹ کرکے مار پیٹ اورقتل نیز ان مظالم پر خاموشی آخر ملک کو کہاں لے جائے گی۔ بے روزگاری ، غریبی میں اضافہ، سرکاری کمپنیوں کی نیلامی، اور پرائیویٹائزیشن، نے ملک کی معیشت تباہ کردی ہے اور فسطائی طاقتوں نے ملک کی اخلاقی ساکھ خراب کردی ہے۔
ملک کے ان حالات میں خیر امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عقل و ہوش سے کام لے ۔ اب تجربات کرنے کا نہیں بلکہ نتیجہ خیز اقدام کرنے کا وقت ہے۔ خود کی کمزوریاں دور کرنے کا وقت ہے ، فضول رسموں میں پیسہ اور وقت برباد کرنے کا نہیں کچھ تعمیری کام کرنے کا وقت ہے ۔ آپس میں دست بہ گریباں ہونے کا نہیں ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر کمزوروں کو اوپر اٹھانے کا وقت ہے۔ مایوس ہوکر گھر بیٹھ جانے کا نہیں کمر کس کر میدان عمل میں کود جانے کا وقت ہے۔ سوال ہمارا نہیں؛ بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کا ہے۔ کیا ہم انھیں ایسا ملک چھوڑ کر جائیں گے جہاں ان کی شناخت کی ہر چیز مٹ جائے گی؟ یہ اہم سوال ہے جس کے جواب کی ضرورت ہے ۔
اپنی گلیوں ، محلوں اور بستیوں کی حفاظت کی منصوبہ بندی کیجیے ، اپنے درمیان اگر شر پسند عناصر ہوں تو ان کی اصلاح کیجیے، اپنے وقت کی منصوبہ بندی کیجیے ، ظاہر ہے ہمارے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس میں ہماری جہالت اور غربت دونوں ہی شامل ہیں اس لیے ان دونوں کو دور کرنے پر توجہ دیجیے۔ ہر شخص کو اپنے مسائل خود حل کرنے ہیں، اس لیے خود کوشش کیجیے ، ذمہ دار اپنی ذمہ داری کا حق ادا کریں لیکن عوام بھی اپنے ذمہ داروں کا ہاتھ مضبوط کرے ، اپنے مقام اور اپنی حیثیت کو پہچانیے ، نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے جھانسے میں مت آئیے ، وہ آپ کو اپنے اسٹیج سے دھکا دے رہی ہیں ، آپ انھیں دھتکار دیجیے ، خود کو اتنا ذلیل مت کیجیے ، اتنا مت جھکیے کہ دستار ہی گر جائے ۔ اس سر کے تقدس کا کچھ تو خیال کیجیے جو اللہ کے آگے جھکتا ہے۔ دنیا تو خراب ہوگئی ہے اب آخرت ہی بچا لیجیے۔ آخری بات یہ ہے کہ اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط کیجیے ، اپنے گناہوں سے توبہ کیجیے، اس کے احکامات پر عمل کیجیے ، آپ اللہ کے حبیب کی امت میں ہیں ، اپنے رسول کی عزت اور عظمت کا پاس کیجیے ، ان کے احکامات کا کھلے عام مذاق نہ بنائیے ورنہ اللہ ایسے ہی ظالم ہم پر مسلط کردے گا جو ہمارے قتل کو خود کشی کا نام دیں گے اور ہمارے قتل کا الزام ہم پر لگادیں گے۔
کیوں ہوئے قتل ہم پر یہ الزام ہے
قتل جس نے کیا ہے وہی مدعی
قاضی وقت نے فیصلہ دے دیا
لاش کو نذر زنداں کیا جائے گا
اب عدالت میں یہ بحث چھڑنے کو ہے
یہ جو قاتل کو تھوڑی سی زحمت ہوئی
یہ جو خنجر میں ہلکا سا خم آ گیا
اس کا تاوان کس سے لیا جائے گا