موجودہ حالات میں مسلمانوں کی بقاءاور جان ومال کا تحفظ بنیادی مسئلہ ۔ کیا مسلمانان ہند کی باوقار تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کو اپنا دائرہ اب وسیع کرنا چاہیئے ؟

نئی دہلی ( شمس تبریز قاسمی )
آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ ہندوستان میں مسلمانوں کی سب سے باوقار، مضبوط اور متحدہ تنظیم ہے جس میں سبھی مسلک ، طبقہ اور سماج کے مسلمانوں کی نمائندگی ہے ، ملکی اور عالمی سطح پر بھی اسی تنظیم کو مسلمانوں کے سب مضبوط ترجمان کے طور پر سمجھاجاتاہے ، قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں بھی بورڈ کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی دیگر ملی جماعتوں کے مقابلہ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کی موجودگی قابل ذکر ہے ۔ 1972 میں بورڈ کا قیام عمل میں آیاتھا جس کا پس منظر عائلی اور شرعی مسائل پر ہونے والوں حملوں کا دفاع تھا ۔  نفقہ اور طلاق جیسے مسائل پر بیرونی مداخلت کور وکنے کیلئے بورڈ نے مسلسل اپنی کوششیں بھی کی ۔ حالیہ دنوں میں مسلمانان ہند بورڈ سے مطالبہ کررہے ہیں کہ واپنے مقاصد اور دائرے میں توسیع کریں کیوں کہ ستر کی دہائی میں عائلی مسائل کا تحفظ بنیادی ایشو تھا لیکن اس وقت مسلمانوں کی بقاءاور شناخت کا تحفظ سب سے بنیادی مسئلہ ہے ، عائلی مسائل کی جگہ سماجی ، تعلیمی ، سیاسی مسائل کا سامناہے اور لگاتارمسلمانوں پر چوطرفہ حملہ کیا جارہاہے ، شہریت ، وجود ،مذہبی شناخت، دینی ادارے ، مساجد سبھی خطرے میں ہیں ۔ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کیا جارہاہے ، مسلمانوں کی ماب لنچنگ کی جارہی ہے ، مسجدوں پرحملوں کا سلسلہ بڑھتاجارہاہے ، ریاستی تعاون سے مسلمانوں پراٹیک کیا جارہاہے ۔ سرکردہ مسلم رہنما کو گرفتار کے جیل کی سلاخوں میں بند کیاجارہاہے ۔ سوشل میڈیا اور دیگر محاذ پر سرگرم مسلم نوجوان ،ایکٹویسٹ اور صحافیوں پر یو اے پی اے لگاکر انہیں جیل میں بند کیا جارہاہے ۔ مذہبی سرگرمیوں پر پابندی لگائی جارہی ہے ، مسلمانوں کے درمیان خوف وہراس کا ماحول پیدا کردیاگیا ہے ۔اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کو چاہیئے کہ اپنے مقاصد اور دائرے میں توسیع کرے ، مسلمانوں کو درپیش مسائل پر آواز اٹھائے ۔ امت مسلمہ کی رہنماءکرے ۔ 1970 کے زمانے میں شریعت کا تحفظ بنیادی مسئلہ تھا لیکن اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں مسلمانوں کے وجود اور ان کی شناخت کا تحفظ ہی بنیادی مسئلہ بن گیا ہے ، جان ومال خطرے میں ہے اس لئے اگر وجود ہی باقی نہیں رہے گا تو پھر عائلی مسائل کی لڑائی لڑکے کیا فائدہ ہوگا ۔کسے کیلئے تحفظ شریعت کیلئے مہم چلائی جائے گی۔
ملت ٹائمز نے اسی موضوع پر ملک کے سرکردہ دانشوران اور علماءسے فون پر بات کرکے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی کہ مذکورہ سوال کے تناظر میں بورڈ کو کیا کرنا چاہیئے ،کیا موجود ہ حالات کے تناظر میں دائرے میں توسیع کرکے اسے موجودہ تقاضوں کے مناسب بنانا چاہیئے ، قوم کی رہنما ئی کرنی چاہیئے یا اسے آج بھی عائلی مسائل تک ہی محدود رکھا جائے ۔
معروف دانشور ڈاکٹر محمد منظور عالم سکریٹری جنرل آل انڈیا ملی کونسل نے ملت ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ مسلمانوں کے سیاسی ، سماجی اور دیگر مسائل پر بات کرنے کیلئے متعدد تنظیمیں موجود ہیں اگر آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کو بھی اس میں شامل کردیاگیا تو اس کی طاقت اور اہمیت ختم ہوجائے گی ۔ یہ واحد تنظیم ہے جو مخصوص مسائل پر توجہ دیتی ہے اور اسی بنیاد پر اس کی افادیت ہے ۔ مسلمانوں کی بقاءکا مسئلہ ، جان ومال کا تحفظ بہت اہم ایشوز ہیں لیکن ان مقاصد کیلئے دوسری تنظیمیں موجود ہیں ۔
معروف عالم دین اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کی مجلس عاملہ رکن مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی نے ملت ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ جدید تقاضوں اور موجودہ حالات کے تناظر میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کے دائرہ کو وسیع کرنے کی شدید ضرورت ہے لیکن کچھ نزاکتیں ایسی ہیں جس کی بنیاد پر ایسا نہیں ہورہاہے ، شاید اب اس جانب توجہ دی جائے گی اور موجودہ حالات کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے بورڈ کے اراکین وذمہ داران اپنے دائرہ کو وسیع کرنے کی کوشش کریں گے ۔
معروف دانشور پروفیسر اخترالواسع نے اس تناظر میں ملت ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کا جو نام ہے اسے وہیں تک محدودر رکھاجائے ۔ جس مقصد کیلئے یہ تنظیم قائم ہوئی تھی وہ ابھی تک حل نہیں ہوئے ہیں جس پر توجہ دینا زیادہ ضروری ہے ۔ دوسرے مسائل کیلئے پہلے سے متعدد جماعتیں اور تنظیمیں موجود ہیں جنہیں فعال ہوکر اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے ، بورڈ کو توسیع دینے کی صورت میں دیگر جماعتوںس ے ٹکراﺅہوگا اور اس بنیاد پر بورڈ کی افادیت بھی ختم ہوجائے گی اس لئے بورڈ کو چاہیئے کہ وہ اپنے دائرے میں کام کرے۔
سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے ملت ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کاقیام عائلی مسائل میں سرکاری اور بیرونی مداخلت کور وکنے کیلئے عمل میں آیاتھالیکن بورڈ بنیادی طور پر اس میدان میں ناکام ثابت ہواہے ۔ تین طلاق کیس میں عدلیہ اور سرکار نے واضح طور پر مداخلت کی اور بورڈ اس کا حل تلاش کرنے میں ناکام رہا۔ آج سے تیس سال قبل جے پور کے اجلا س میں یہ تجویز سامنے آئی تھی کہ تین طلاق کو غیر اسلامی قرار دیا جائے لیکن بورڈ نے اسے منظور نہیں کیا اور بالآخر سپریم کورٹ نے اس میں مداخلت کی ، دوسرے فریق بھی سامنے آئے اور اب پارلیمنٹ سے قانون بھی منظور ہوچکاہے ۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ دور میں مسلمانوں کی بقاء، ان کی شناخت اور جان ومال کا تحفظ بنیادی مسئلہ بنا ہواہے ۔ بورڈ کے ذمہ داروں پر فرض ہے کہ وہ قوم کی صحیح رہنمائی کریں اور بتائیں کہ موجودہ دور میں مسلمانوں کو کیا کرناچاہیئے اور کیسے ان کے مسائل حل ہوں گے ۔
جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر انجیئنر سلیم صاحب نے ملت ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ بورڈ کے دائرہ کو وسیع کرنے کا اختیار بورڈ کے اراکین کاہے ، وہ چاہیںتو فیصلہ کرسکتے ہیں ، بورڈ کے باہر اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوسکتاہے ۔ انہوں نے کہاکہ جماعت اسلامی ہند بھی بورڈ کا حصہ ہے ، ایک سوال کے جوا ب میں انہوں نے کہاکہ ہم اپنی ذاتی رائے نہیں دے سکتے ہیں کیوں کہ یہ ملی اتحاد کے خلاف ہے ۔
سپریم کورٹ آف انڈیا کے سینئر وکیل اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کے رکن ایڈوکیٹ محمود پراچہ نے ملت ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ ہندوستانی مسلمانوں کا سب سے مضبوط اور مشترکہ پلیٹ فارم ہے جس کی ملک سمیت دنیا بھر میں اہمیت ہے ، عدالتوں میں بھی بورڈ کے بیانات کوبطور حوالہ کے پیش کیا جاتاہے اس لئے میرے میں خیال میں وقت کے تقاضے کو پورا کرتے ہوئے بورڈ کے دائرہ کو وسیع کرنا چاہیئے ، اس سے پہلے بھی بورڈ نے اپنے دائرہ اختیار کے خلاف جاکر بابری مسجد کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا ۔ گذشتہ سالوں میں بورڈ نے دین بچاﺅ ، دیش بچاﺅ کی تحریک بھی چلائی تھی ۔ اس وقت کا بنیادی مسائلہ مسلمانوں کے جان ومال کا تحفظ ، ہندتوا فورسز کی طر ف سے ہونے والے حملوں کور وکنا ، مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کا سد باب بنیادی اور اہم مسئلہ ہے ۔ اس لئے بورڈ کو چاہیئے کہ اپنے دائرہ کو وسیع کرے اور موجودہ حالات میں مسلمانوں کے جو بنیادی مسائل ہیں اس پر توجہ دے ۔
پٹنہ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اقبال انصاری نے کہاکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کو کس طرح کام کرناہے اور کیا کرناہے یہ فیصلہ خود ان کو کرنا چاہیئے ، ان کے ممبر ان کو فیصلہ لینا چاہیئے کہ کب کیسے حالات اور کیا کرنے کی ضرروت ہے ۔
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے ملت ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کے قیام کا ایک مخصوص پس منظر ہے ، لہذا اسی دائرے میں کام کرنا چاہیئے ، بورڈ اگر اپنے دائرے سے تجاوز کرے گی تو دوسری تنظیموںسے ٹکراﺅ پیدا ہوگا ۔ انہوں نے یہ بھی دعوی کیا کہ بورڈ کے 90 فیصد اراکین مذہبی شخصیات ہیں اس لئے انہیں عائلی مسائل تک ہی محدود رہنا چاہییے ۔
ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کی مجلس عاملہ کے رکن ڈاکٹر قاسم رسول الیا س نے کہاکہ بورڈ کا قیام تین بنیادی مقاصد کیلئے عمل میں آیاتھا ۔ عائلی اور شرعی مسائل میں حکومت کی جانب سے ہونے والی مداخلت کا سد باب اور اندورنی بگاڑ کی اصلاح کیلئے ۔ دارالقضاءکا قیام اور اسلامی تعلیمات کے مطابق مسلم پرسنل لاءکا حل تلاش کرنا اور مسلمانوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنا ۔
یہ تین بنیادی مقاصد ہیں جسے سامنے رکھتے ہوئے بورڈ کا قیام عمل میں آیا تھا ، بقیہ سیاسی ، سماجی اور دیگر مسائل کیلئے دوسری بہت ساری تنظیمیں موجود ہیں ۔ آل انڈیا ملی کونسل ، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت اور دوسری جماعتوں کے قیام کا مقصد سیاسی ، سماجی اور دوسرے سبھی ایشوزپر مسلمانوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھانا اور ان کی رہنمائی کرنا شامل ہے ۔ میرے خیال میں بورڈ کے دائرہ کو وسیع کرنے کے بجائے ان تنظیموں کو فعال کرنے کی ضرورت ہے لیکن موجودہ مسائل کو نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتاہے ۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کے شعبہ خواتین کی سربراہ ڈاکٹر اسماءزہرا نے ملت ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ یہ سچ ہے کہ حالیہ دنوں میں ہمارا بنیادی اور اصل مسئلہ جان ومال کا تحفظ ہے اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہے جس کی بنیاد پر مسلمانوں کی امید یں بھی اہم ترین معاملوں میں اس سے وابستہ ہیں لیکن اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار اراکین کو حاصل ہے ۔بورڈ کی مجلس عاملہ اور عمومی مجلس کے اراکین ہی اس دائرے کو بڑھاسکتے ہیں ۔ دوسرے لوگوں کے اختیار میں نہیں ہے ۔انہوں نے کہاکہ سب سے پہلے آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کی ورکنگ باڈی کی از سر نو تشکیل دی جائے ، ملک اور سماج کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے باصلاحیت اور قابل لوگوں کو اس میں شامل کیا جائے تاکہ وہ بہتر فیصلہ کرسکیں ۔ انہوںنے کہاکہ اس وقت قوم بدترین حالات سے دوچار ہے اور انہیں رہنمائی کی شدید ضرورت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
این ڈی ٹی وی کے سینئر صحافی اطہر الدین منے بھارتی نے کہاکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا ءبورڈ کا ماضی اور حال شاندار رہاہے اور اب اسے چاہیے کہ اپنے دائرہ کو وسیع کرتے ہوئے مسلمانا ن ہند کے دیگر مسائل پر توجہ دے ، تعلیم اور دیگر میدانوں میں بھی کام کرے ۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کی مجلس عاملہ کے رکن مولانا ابوطالب رحمانی نے ملت ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ میں بورڈ کا ممبرہوں اور اس تعلق سے جوبھی بات ہوگی وہ میں بورڈ کی میٹنگ میں کہوں گا ، انہوں نے یہ بھی کہاکہ جو اصحاب علم ودانش ہیں ان سے درخواست ہے کہ اپنے مشورے اور تجاویز ہمیں بھیجیں ، سپرد قرطاس کریں ہم اسے بورڈ کے پلیٹ فارم پر اٹھائیں گے ۔
سینئر جرنلسٹ اور معروف تجزیہ نگار شیبا اسلم فہمی نے کہاکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ نے ہمیشہ مسلمانوں کے مفادکے خلاف کام کیاہے ، مسلم مخالف طاقتوں کو فائدہ پہونچایاہے لہذا اس تنظیم کو اب ختم کردینا چاہیئے ، انہوں نے کہاکہ اس تنظیم کے ممبران مخلص ، مسلمانوں کے تئیں ہمدرد اور فکر مند ضرور ہوسکتے ہیں لیکن بنیادی طور پر یہ تنظیم مسلمانوں کے خلاف کام کرتی ہے ، اس تنظیم کی وجہ سے بھارت کے 30 کروڑ مسلمانوں کو شکست اور بدنامی کا سامناکرناپڑتاہے ، دور اندیشی اور حکمت عملی کا فقدان ہے ۔ نان ونفقہ ، تین طلاق سمیت کئی کیسوں میں بورڈ کی ناقص حکمت عملی اور کوئی منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی ہوئی ہے ۔ اس کے علاوہ یہ تنظیم مسلم خواتین کے خلا ف کام کرتی ہے ۔ موجودہ حالات میں اس تنظیم کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے ۔ جہاں تک بات ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی ، سماجی اور دیگر مسائل کی ۔ ماب لنچنگ ، کرائم اور اسلاموفوبیا کی تو اس سلسلے میں تنہا مسلمانوں کا آواز اٹھانا سود مند ثابت نہیں ہوگا ، دلتوں اور دیگر کمیونٹیز کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین دہلی کے صدر کلیم الحفیظ نے ملت ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ مسلمانوں کے سرکردہ اور باوقار شخصیات کا گروپ ہے، اس کا اثر و رسوخ سب سے زیادہ اس لئے دائرہ کو وسیع کرتے ہوئے سیاسی ، سماجی اور دیگر شعبوں میں مسلمانوں کی رہنمائی کرنی چاہیئے ، یہ صحیح ہے کہ اس کا نام مسلم پرسنل لاءہے اور جس وقت قیام عمل میں آیاتھا اس وقت عائلی مسائل ہی بنیادی ایشوز تھے لیکن ان دنوں حالات مختلف ہیں اور اس پلیٹ فارم کے ساتھ سماج کے اہم رہنما جڑے ہوئے ہیں اس لئے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دائرہ کو توسیع کرنا چاہیئے اور دوسرے سیاسی ،سماجی امور میں مسلمانوں کی رہنمائی کرنی چاہیے۔

نوجوان اسکالر ڈاکٹر منظر امام نے کہاکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کا جن دنوں قیام عمل میں آیاتھااس وقت ملک کے حالات اس وقت سے مختلف تھے ، آج پچاس سالوں بعد بہت کچھ بدل گیا ، لہذا تنظیم کو بامقصد اور موثر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ اب اس کے دائرہ کو وسیع کیا جائے خاص طور پر بورڈ کو چاہیئے کہ تعلیمی میدان میں مسلمانوں کی رہنمائی کرے اور سیاسی امور میں بھی ہندوستانی مسلمانوں کو صحیح راستہ دکھائے ۔
ملت ٹائمز کے ٹوئیٹر ہینڈل پر دسیوں نوجوان اسکالرس اور صحافیوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کی توجہ موجودہ حالات اور عصر حاضر میں مسلمانوں کو درپیش مسائل کی جانب مبذول کرائی ہے اور ان کی رائے ہے کہ مسلمانان ہند کی اس مشترکہ اور باوقار تنظیم کو عائلی مسائل کے ساتھ حالیہ دنوں میں درپیش مسائل نظر رکھنے اور مسلمانوں کی رہنمائی کرنے کی ضرورت ہے ۔ دیگر تنظیموں کے ساتھ آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کی توجہ اس لئے ضروری ہے کہ کیوں کہ یہ مسلمانوں کا سب سے طاقتور، مضبوط اور مشترکہ پلیٹ فارم ہے اور اسی تنظیموں کو ملک وبیرون ملک میں مسلمانوں کا نمائندہ ادارہ سمجھا جاتاہے ۔

واضح رہے کہ اتر پردیش کے کانپور میں 20/21 نومبر 2021 کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کا سالانہ اجلاس ہورہاہے جس میں کئی اہم امور پر تجاویز منظور کئے جانے اور ملک وقوم کے حق میں کچھ اہم فیصلے کئے جانے کی توقع کی جارہی ہے ۔ اس انتخاب میں بورڈ کے نئے سکریٹری جنرل کا انتخاب بھی ہوناہے کیوں کہ مولانا محمد ولی رحمانی کی وفات کے بعد یہ جگہ خالی ہے ، اس کے علاوہ دستور کے مطابق بورڈ کے صدر کی میعاد بھی پوری ہوگئی ہے، اس لئے سکریٹری جنرل کے علاوہ صدر کے عہدہ کیلئے بھی از سرنو انتخاب ہوگا ۔

SHARE
شمس تبریز قاسمی ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر اور بانی ہیں ۔اسپیشل اسٹوریز ، فیچرس اور کنٹینٹ تحریر کرنے کے علاوہ ملکی اور عالمی مسائل پر خصوصی کالم لکھتے ہیں، یوٹیوب پرانٹرویو ز ، گراﺅنڈ رپورٹس اور اسپیشل پروگرام پیش کرتے ہیں ، ڈبیٹ شو ” دیش کے ساتھ “ اور یومیہ پروگرام ” خبر در خبر “ کے وہ میزبان بھی ہیں ۔ یہاں دیئے گئے لنک کے ذریعہ سوشل میڈیا پر آپ ان سے براہ راست جڑسکتے ہیں ۔