ہم ایسے نازک موڑ پر کھڑے ہیں جہاں بہت دانش مندی اور نزاکت کے ساتھ ایسے فیصلے لینے ہیں جس سے ہم بحیثیت قوم ایوان بالا کے مکینوں کو اپنی بیداری اور اہمیت کا احساس دلا سکیں
سیف الاسلام مدنی
ایک لمبے عرصے سے ہندوستان کے مسلمان سیاسی اعتبار سے اپنے آپکو تنہا محسوس کررہے ہیں اور اس بات کا احساس انہیں خوب ہے کہ مسلمان آزادی کے بعد سے ہی کس طرح نظر انداز کئے گئے ہیں نہ صرف نظر انداز کئے گئے بلکہ تمام سیاسی پارٹیوں نے کبھی مسلمانوں کو ملک کا اول درجہ کا شہری نہیں سمجھا ہر اعتبار سے ان پر مظالم کئے گئے انکا قتل عام کیا گیا ہزاروں فساد کرائے گئے جن میں لاکھوں قتل اور لاکھوں بے گھر ہوئے لیکن سکیولرازم کا دم بھرنے والوں نے کبھی اس قوم کی جانب توجہ نہیں کی اس کے درد کا علاج اور فکرو غم کا مداوا نہیں کیا
یوں تو اس ملک میں مسلمانوں کے خلاف سوتیلا رویہ شروع سے ہی رہا آج کے حالات اور اور بعد آزادی کے حالات میں زیادہ کوئی فرق نہیں سردار پٹیل جیسے لوگ آزادی کے بعد ہی مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھانے لگے تھے اور انہیں مطعون کیا جانے لگا تھا کانگریس نے اپنے اصولوں کو قائم نہیں رکھا جس بنیاد پر انڈین نیشنل کانگریس وجود میں آئی تھی وہ بعد آزادی ہی تبدیل ہوگیا ۔
ایک تبصرہ میری نظر سے گذرا جس میں مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب انڈیا ونس فریڈم کے تعلق سے لکھا ہے کہ جس نے مولانا آزاد کی یہ کتاب پڑھی ہے اسے ملک کے موجودہ حالات پر متحیر نہیں ہونا چاہئے ۔
ملک کی سب سے قدیم سیاسی جماعت کانگریس پارٹی جس کے پرچم تلے ملک آزاد ہوا جو ملک میں جمہوریت اور سیکولرزم کی سب سے بڑی دعویدار ہے، اس کے دستورکا تقاضا تھا کہ وہ اس مسئلہ میں سب سے زیادہ حساس ہوتی اور دستور کی پاسداری کرتی، مگر واقعات ومشاہدات بتاتے ہیں کہ اسی کانگریس پارٹی کے زیرِ اقتدار دستور کی سب سے زیادہ پامالی ہوئی ہے اور اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے اور انہیں کے نقش قدم پر ملک کی دیگر سیاسی پارٹیاں بھی چلتی رہیں ،
اب ضرورت ہے کہ مسلمان اپنی موجودگی کا احساس دلائیں اور اپنی سیاسی قیادت خود پیدا کریں ،ظاہر ہےیہ بات لکھنے میں جتنی آسان ہے عملی میدان میں اتنی ہی مشکل کہ مسلمانوں کی قیادت ہو تو کون سی قیادت جسکو ملک کے تمام مسلمان تسلیم کرلیں یہ انتہائی مشکل کام ہےمسلمانوں کی مذہبی قیادتیں تو اپنی جگہ مسلم ہیں گو انہوں نے قوم کے تئیں اپنی ذمہ داری پوری کی ہو یا نہ کی ہو، ہندوستان کی مسلم سیاسی قیادت میں ایک نام اسد الدین اویسی کا لیا جاسکتا ہے جو مسلمانوں کو انکے حقوق دلانے کی بات کرتے ہیں قانون کی بالادستی اور جمہوری اقدار، وروایات کی پاسداری انکا مشن ہے وہ مسلمانوں کو سیاسی غلامی سے نجات دلانے کی بات کرتے ہیں ایوان بالا تک مسلمانوں کو پہونچانے کی بات کرتے ہیں لیکن انکو بھی مذہبی قیادت کی اور سے کوئی حمایت نہیں ملی ممکن ہے لوگ انکی پالیسیوں سے متفق نہ ہوں تو سوال تو یہی ہے اور اسی کا جواب تلاش کرنا یے جس کے لئے مسلمان 70 سالوں سے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے کہ آخر مسلمان کس کی پالیسیز اور کن پالیسیز پر متفق ہونگے کیا انڈین نیشل کانگریس کی پالیسی پر جسکی تباہ کاریاں مختصر میں اوپر لکھ چکا ہوں، میں نہیں کہتا کہ مسلمان مجموعی طور پر اویسی کا دامن تھام لیں لیکن اتنا ضرور لکھنا چاہونگا کہ ملکی اور مذہبی قیادتوں کو مل بیٹھنا چاہئے جمعیتہ علماء ہو یا مکمل مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی پرسنل لاء بورڈ ہو سب مل کر مسلمانوں کےاس مسئلے کو حل کریں اور اپنی سیاسی زمین تلاش کریں انٹلیکچؤل اور دانشور حضرات اس کو ترجیحی طور پر دیکھیں کیوں کے سیاست اور ایوان بالا تک رسائی جمہوری ملک میں بڑی طاقت رکھتا ہے یوپی کے الیکشن قریب ہیں اس سلسلے میں مسلمانوں کو حکمت عملی کے ساتھ اپنے ووٹ کا استعمال کرنا چاہئے یوں تو کہنے کو اسمبلی اور پارلیامنٹ میں کئی مسلمان ہیں لیکن سب جانتے ہیں کہ انکا کردار کیا ہے وہ آزاد نہیں ہوتے مسلم مخالف فیصلوں میں یہ بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں اس لئے اپنی آزاد پارٹی آزاد ممبران اسمبلی و پارلیامنٹ ہونے چاہئے تاکہ آزادی کے ساتھ اپنی بات مضبوطی کے ساتھ اٹھا سکیں اس میں جتنی تاخیر کی جائےگی بازیابی میں اتنی ہی دشواری پیش آئےگی!
mdsaifulislammadni@gmail.com
8299649549