مفتی منظور ضیائی
چیئرمین علم و ہنر فاؤنڈیشن ممبئی
اسلام ایک عالمگیر مذہب، دین کامل، جامع دستور اور مکمل ابدی نظامِ حیات ہےجس میں انسانی زندگی کے مختلف اور متنوع گوشوں پر سیر حاصل ہدایات موجود ہیں، اس میں ہردور اور ہر عہد کے مسائل کا حل موجود ہے,اس کی عظمت و اہمیت، کاملیت اور ابدیت کے حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ہم نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی، اور تمہارے لئے اسلام کو بطورِ دین پسند کیا۔(سورۃ المائدہ) اس آیت کریمہ سے واضح ہوگیا کہ اس نے زندگی گزارنے کے جتنے گوشے ہیں ان سب کے لئے کچھ اصول، کچھ قوانین، اور کچھ ضابطے بیان کرکے انسان کو دوسرے طور طریقوں سے بے نیاز کردیا ہے جس طرح آج کےدور میں کوئی موبائل خریدتا ہے تو اس کے ساتھ ” گائیڈنس بک ” ملتی ہے جس میں اس کے اور طریقہ استعمال کے بارے میں تفصیلات موجود ہوتے ہیں, اسی طرح ” قرآن مجید” اسلام کا ایک مکمل گائیڈنس بک ہے جو ہدایت کا صحیح راستہ بتاتی ہے اور اس میں زندگی کے تمام مراحل کی راہنمائی موجود ہے قرآن مجید میں اس کے لیے ” ان الدین عند اللہ الاسلام ” میں “دین” کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے در حقیقت اصل دین وہی ہوتا ہے جس میں زندگی کے تمام شعبوں کے حوالے سے جامع رہنمائی موجود ہو اور ان ہی صفات کا حامل “دین” تمام عالم کے “ادیان” پر غالب رہتا ہے اور اس کا مربی تمام انسانوں کا پالنہار ہے وہ مختلف زمانوں اور مکانوں میں اپنے بندوں کی مصلحتوں سے بخوبی واقف ہے اس لیے قانونِ اسلامی اور شریعتِ حقہ میں وہ جامعیت اور ہمہ گیری ہے جس سے دوسرے ادیان ومذاہب اور آئین وقوانین خالی نظر آتے ہیں,مزید برآں یہ مکمل راہِ اعتدال کا نام ہے، اس میں کسی بھی گوشہ سے افراط و تفریط نہیں ہے اس کے ماننے والوں کی فضیلت میں اعتدال کو بڑی اہمیت کے ساتھ قرآن کریم نے بیان فرمایا : ” وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّةً وَسطاً لِتَکُوْنُوا شُھَدَاءَ عَلیَ النَّاسِ․ ( قرآن مجید) اور اسی طرح ہم نے تم کو ایسی ہی جماعت بنایا ہے، جو نہایت اعتدال پر ہے؛ تاکہ تم لوگوں کے مقابلہ گواہ رہو” اس کا مطلب واضح ہے کہ دوسری امتوں کے مقابلے میں یہ امت معتدل ہے، افراط وتفریط کے درمیان راہ چلنے والی ہے، خواہ اعتقادات ہوں، اعمال واخلاق ہوں یا دیگر کارنامے ہوں ان سب میں میں اعتدال و وسطیت کا ہونا بہت ضروری ہے اسی لیے اسلام ایک طرف جہاں “حقوق اللہ” کادرس دیتا ہے وہیں دوسری طرف “حقوق العباد” پر بھی زور دیتا ہے اور حقوق العباد کے معا ملے میں یہ اتنا حساس ہے کہ”حقوق اللہ” اللہ تعالیٰ چاہے تو معاف فرما دے, لیکن “حقوق العباد ” اس وقت معاف نہیں ہو سکتے ہیں جب تک وہ بندہ خود معاف نہ کر دے جس کے حقوق تلف کئے گئے ہیں اور یہ بھی واضح رہے کہ اسلام “حقوق العباد” میں نہ صرف اپنے ماننے والوں کے حقوق کا تعین کرتا ہے بلکہ دیگر مذاہب کے لو گوں کو بھی “امن وسلامتی اور تحفظ” کی ضمانت دیتا ہے کیونکہ یہ شرف انسانیت کا علمبردار دین ہے اس لیے ہر فرد سے حسن سلوک کی تعلیم دیتا ہے اور اس کے اصول و ضوابط اور قوانین و قواعد شرفِ انسانیت سے متصادم نہیں ہیں بلکہ یہ زندگی کے تمام شعبوں میں انسان کی مکمل رہنمائی کرتا ہے,انسانی زندگی کے تمام مراحل کا ایک مکمل پیکج ہے، کئی ضوابط کا مجموعہ ہے۔ جس طرح سے ایک آئین ہوتا ہے اور عدلیہ اس آئین کی تشریح کرتی ہے اور تشریح کا دائرہ ہے جس کے اندر رہتے ہوئے ممکنہ تشریحات ہوسکتی ہیں بالکل اسی طرح اسلام نے بنیادی اصول و ضوابط بتا دیئے ہیں اور بنیادی احکامات کے علاوہ تمام مسائل میں اس کے دائرے میں رہ کر تشریح کا راستہ کھلا رکھا ہے اور اس میں”مسلمانوں” کی طرح” اقلیتوں” کو بھی ان تمام حقوق کا مستحق قرار دیا گیا ہے کیونکہ اسلام کا یہ بنیادی تصور ہے کہ زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں، ایک یہ ہے کہ اللہ کو معبود مان کر اُس کی عبادت کی جائے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے آپ کے بتائے ہوئے راستے پر چلا جائے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دوسرے مذہب کو اختیار کیا جائے یا لادینیت یا الحاد وغیرہ کے راستے پر جلا جائے یہاں اسلام اس بات کی ضمانت ہے کہ جو نظام اس سے ہٹ کر ہوگا اسے بھی باقی رہنے کا حق ہے تاکہ ایک مثالی معاشرے وجود میں آ سکے اور اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں قرآن و سنت کی عطا کی گئی تعلیمات اور دور نبوت اور دور خلافت راشدہ میں اقلیتوں کے حقوق کے احترام و تحفظ کے ارشادات و واقعات ان روشن نظائر میں سے ہیں جو اسلام میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے جانے پر واضح دلیل ہیں، اسی لیے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اقلیتوں سے نیکی، انصاف اور حسن سلوک پر مبنی رویہ اختیار کریں جیسا کہ قرآن پاک میں ارشادِ ربانی ہے :”لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَO ترجمہ :’’اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ‘‘ (الممتحنة) اسلام میں اقلیتوں کے حقوق کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے لگایا جا سکتا ہے : “ألاَ مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا أو انْتَقَصَهُ أوْ کَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ أوْ أخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيْبِ نَفْسٍ فَأنَا حَجِيْجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.”’’خبردار! جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو روزِ قیامت میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا۔‘‘ (أبو داود) آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بیرونی علاقوں سے آنے والے” غیر مسلم وفود ” کی میزبانی فرماتے تھے اور جب مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حبشہ کے “عیسائیوں” کا ایک وفد آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو “مسجد نبوی” میں ٹھہرایا اور ان کی مہمان نوازی خود اپنے ذمہ لی اور فرمایا : “اِنَّهُمْ کَانُوْا لأصحاب مکرمين، فإنی أحب أن أکافئهم.”’’یہ لوگ ممتاز و منفرد حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے میں نے پسند کیا کہ میں خود ان کی تعظیم و تکریم اور مہمان نوازی کروں۔‘‘ ( بيهقی، شعب الايمان) اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں ایک دفعہ ایک مسلمان نے ایک غیر مسلم کو قتل کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قصاص کے طور پر اس مسلمان کے قتل کیے جانے کا حکم دیا اور فرمایا : “أنا أحق من وفی بالذمة” یعنی ’’غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے۔‘‘ ( ابن أبی شيبة ,المصنف) اسلام اقلیتوں کے تحفظ اور سلامتی کا ضامن ہے اور اقلیتوں کی جان کی حرمت کے متعلق الشعبی کا قول ہے “دية اليهودی والنصرانی و کل ذمی مثل دية المسلم “یعنی ’’یہودی، عیسائی اور ہر ذمی کی دیت مسلمان کی دیت کی مثل ہے۔‘‘ ( عبد الرزاق، المصنف) اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کی حیات مبارکہ ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے کیونکہ انسانی نسل کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات و راہنمائی اس قدر تفصیل اور جامعیت کے ساتھ حدیث و سیرت کے ریکارڈ میں محفوظ ہے کہ آج کا کوئی بھی نظام جامعیت میں اس کی ہمسری کا دعوٰی نہیں کر سکتا ہے اگر آپ رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ احادیث و سیرت کی کتابوں میں آ پ ﷺ کی سیرت طیبہ کا ایک ایک لحظہ,لمحہ اور مرحلہ محفوظ ہے۔ اُمت کا ہر آدمی جو کام بھی کرنا چاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی میں اس کے لیے کامل نمونہ موجود ہے۔شادی ہو یا غمی، صحت ہو یا بیماری، سفر ہویا حضر، جنگ ہو یاصلح، سسر ہو یاداماد، والدین ہوں یا اولاد، سربراہِ مملکت ہو یا مزدور، مسجد ہو یا بازار، عبادت ہو یاتجارت، نماز ہو، روزہ ہو، اذان ہو، تکبیر ہو، جنازہ ہو، حج ہو، قربانی ہو، عمرہ ہو، غرض یہ کہ زندگی کے نشیب و فراز میں اور زندگی کے ہر ہر موڑ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ایک کامل نمونہ ہے۔ حتیٰ کہ اس شفیق و مہربان پیغمبر ﷺ نے قضائے حاجت اور تھوکنے تک کے طریقے اور آداب تک امت کو سکھا دئیے، آپ کی اطاعت و اتباع میں ہی انسانیت کی فلاح اور نجات کا راز مضمر ہے ۔۔۔۔ جاری ۔۔۔