مفتی منظور ضیائی
چیئرمین : علم و ہنر فاؤندیشن ممبئی
اسلام دینِ فطرت ہے اس لیے ہر انسان کے ساتھ یکساں حسنِ سلوک کی تعلیم دیتا ہے اس کے اصول و ضوابط بالکل واضح ہیں اور اس میں اقلیت کی بنیاد پر امتیازی سلوک و برتاؤ شرف ِانسانیت کے منافی قرار دیا گیا ہے اور مسلمانوں کے تمام حقوق کی طرح اقلیتوں کو بھی ان کے تمام حقوق کا مستحق قرادیا گیا تاکہ ایک مثالی سوسائٹی وجود میں آسکے اور جبر، زور زبردستی اور استحصال کرکے دین میں شمولیت کی نفی کرتے ہوئے” دعوت و تبلیغ ، امر بالمعروف ونہی عن المنکر ” کی اجازت دی گئی ہے اور اس میں اقلیت اور اکثریت میں کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی کبھی اقلیت کو اکثریت پر قربان کرنے کی بات کی گئی ہے بلکہ اس نے ہر کسی کو اس کا حق دیا ہے اور اسلام انسانیت کی بنیاد پر تمام انسانوں کی عزت و احترام کا درس دیتا ہے چاہے وہ اقلیت میں ہوں یا اکثریت میں ہوں اور اس میں کوئی ایسے اصول یا ضوابط نہیں ہیں جو انسانیت کے مخالف ہوں اور ہر طبقہ چاہے وہ اقلیت میں ہو یا اکثریت میں ہو سب کے حقوق کی ادائیگی لازم ہے اور مزید برآں کسی کو زور , زبردستی, جبر و اکراہ کے ذریعے دین میں داخل کرنے سے منع کیا گیا ہے بلکہ ہر انسان کو اس حد تک آزادی دی گئی کہ مذہب کو اختیار کرنے کے لئے بھی آزاد چھوڑ دیا گیا ہے جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے کہ: «لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ٭ لَا انۡفِصَامَ لَہَا ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ[سورۂ بقرہ] ترجمہ : دین میں کسی طرح کا جبر نہیں ہے. ہدایت گمراہی سے الگ اور واضح ہوچکی ہے,اب جو شخص بھی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کی مضبوط رسّی سے متمسک ہوگیا ہے جس کے ٹوٹنے کا امکان نہیں ہے اور اللہ سمیع و علیم ہے, اور دوسرے مقام پر ارشادِ ربانی ہے کہ :«لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ[سورۂ کافرون] ترجمہ :تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے»۔یہ بھی واضح رہے کہ اسلام تمام بنی نوع انسان کے لیے رحمت و ہدایت ہے, اِس کی دعوت کسی خاص طبقہ ،گروہ ،جماعت یا قبیلہ کے لیے نہیں بلکہ بلاامتیاز رنگ و نسل اور نظریہ و مذہب تمام انسانوں کے لیے ہے۔ اسلام کی دعوت و تبلیغ حکمتِ پر مبنی ہے , اِس کے مصالح میں منکرین و مخالفین تک اسلام کی دعوت پہچانے کے لیے اختلافات کی بجائے مشترکات کو بنیاد بنایا گیا اور اور اسلام میں اقلیتوں کے حقوق کو متعدد جگہوں پر بیان کیا گیا ہے اور محسنِ انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ میں بہت سارے اقوال و افعال ایسے ملتے ہیں جن اقلیتوں کے حقوق کو بیان کیا گیا ہے, اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر زور دیا گیا اور اقلیتوں کے ساتھ زیادتی کرنے سے باز رکھنے کے لیے تنبیہات کی گئی ہیں تاکہ اسلامی اصولوں پر عملدرآمد ہو اور کوئی بھی مسلمان اقلیتوں پر ظلم و زیادتی اور جبر نہ کرے,چنانچہ ایک مسلمان نے ایک اہل کتاب کو قتل کردیا اور وہ مقدمہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فیصلہ کے لیے آیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’میں اہل ذمہ کا حق ادا کرنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہوں” آپ نے قاتل کے بارے میں قتل کا حکم دیا اور اسے قتل کردیاگیا,آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ مسلمانوں کو اقلیتوں کے حقوق کے لیے متنبہ کیا کہ ’’جس کسی نے کسی اقلیتی (ذمی)کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔ حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک پھیلی ہوئی ہے‘‘۔(بخاری)
غیر مسلموں کے جووفود باہر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتے اُن کی میزبانی ہمیشہ آپ خود فرماتے۔چنانچہ جب مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حبشہ کے عیسائیوں کا وفد آیا تو آپ نے انہیں مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور اُن کی مہمان نوازی خود اپنے ذمے لی اور فرمایا:’’یہ لوگ ہمارے ساتھیوں کے لیے ممتاز ومنفرد حیثیت رکھتے ہیں اِس لیے میں نے پسند کیا کہ میں بذات خود اِن کی تعظیم و تکریم او رمہمان نوازی کروں‘‘ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر ہر دور میں ہر مسلم ممالک میں اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ حاصل رہا۔اقلیتوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حُسن سلوک اور برتاؤ عزت و احترام پر مبنی تھا چنانچہ ایک جنگ میں آپ کا حلیف ایک یہودی جب مرنے لگا تو لوگوں نے اُس سے پوچھا کہ تیری جائیداد کا وارث کون ہوگا تواُس یہودی نے کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) میرے جائیداد کے وارث ہوں گے اسلام میں اقلیتوں سے حسن سلوک کا یہ اقلیت کی طرف سے اعتراف تھا۔
ہر اسلامی عہد میں “تعزیرات اور دیوانی” دونوں میں مسلمان اور غیرمسلم اقلیت کا درجہ مساوی تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان دائمی ہے کہ غیرمسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے ، آپ کی اِس تعلیم پر عملدرآمد کے بے شمار نظائر دورِ خلافت راشدہ میں بھی ملتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مسلمان کر پکڑ کرلایا گیا جس نے ایک غیرمسلم کو قتل کردیاتھا پورا ثبوت موجود تھا اِس لیے حضرت علی نے قصاص میں اس مسلمان کو قتل کاحکم دیا۔ قاتل کے ورثاء نے مقتول کے بھائی کو معاوضہ دے کرمعاف کرنے پر راضی کرلیا۔ حضرت علی کو جب اِس کا علم ہوا تو آپ نے اسے فرمایا ’’شاید ان لوگوں نے تمھیں ڈرا دھمکا کرتجھ سے کہلوایا ہے‘‘ اُس نے کہا نہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ قتل کئے جانے سے میر ابھائی تو واپس نہیں آئے گا،اب یہ اس کی دیت مجھے دے رہے ہیں جوپسماندگان کی کسی حد تک کفایت کرے گی اِس لیے میں اپنی مرضی سے کسی دباؤ کے بغیر معافی دے رہاہوں۔ حضرت علی نے فرمایا اچھا تمہاری مرضی تم زیادہ بہتر سمجھتے ہو لیکن بہرحال اسلامی حکومت کا اصول یہی ہے کہ ’’جو ہماری غیر مسلم رعایا میں سے ہے اُس کا خون اور ہمارا خون برابر ہے اور اُس کی دیت ہماری دیت ہی کی طرح ہے,حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک شخص نے حیرہ کے ذمی کوقتل کردیا اس پر آپ نے حکم دیا کہ قاتل کو مقتول کے حوالے کیاجائے اگر وہ چاہیں تو قتل کردیں چاہیں تو معاف کردیں۔ چنانچہ وہ مقتول کے وارثوں کو دے دیا گیا اوراُنہوں نے اسے قتل کردیا‘‘ یہ بھی واضح رہے کہ اسلام اللہ کی توحید اور اللہ کی بندگی و عبادت کی دعوت دیتا ہے لیکن دوسرے مذاہب کے لوگوں پر اپنے عقائد بدلنے اور اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالنا نہ کسی جبرواکراہ سے کام لیتا ہے۔ دعوت حق اور جبر و ظلم بالکل الگ حقیقتیں ہیں اور اسلام نے ہر اس طریقے سے منع کردیا ہے جن سے کسی فریق کی مذہبی آزادی متاثر ہوتی ہے۔دین میں کوئی زبردستی نہیں ہر فرد کو قانون کے دائرہ کار میں رہ کر اپنے مذہب پر قائم رہنے کی آزادی ہے۔
….. جاری ہے۔
رابطہ : 919004225786+ Hazratsahab.92@gmail.com