اسمبلی انتخاب جیسے جیسے نزدیک آ رہے ہیں، وزیر اعظم نریندر مودی کے اتر پردیش دورے میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ویسے آج وہ اتراکھنڈ میں ہیں۔ یو پی میں اس مہینے بھی ان کے کئی پروگرام ہیں۔ 13 دسمبر سے وہ تین دن اپنے پارلیمانی حلقہ وارانسی میں رہیں گے۔ نئے بنے کاشی وشوناتھ کوریڈور کا اس دوران وہ افتتاح کریں گے۔ اس سے پہلے دسمبر کے پہلے ہفتہ میں وہ الٰہ آباد میں اجتماعی شادی تقریب میں شریک ہوں گے۔ وہ گورکھپور بھی جائیں گے جہاں وہ ایمس اور کھاد کارخانہ کا افتتاح کریں گے۔
وزیر اعظم مودی نے نوبر میں لکھنؤ کا دورہ کیا تھا جہاں انھوں نے ڈی جی پی کانفرنس میں حصہ لیا تھا۔ اس سے پہلے پوروانچل ایکسپریس وے کے افتتاح کے لیے وہ سلطان پور گئے تھے، جب کہ بندیل کھنڈ ایکسپریس وے کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے وہ جھانسی گئے تھے۔ ان سبھی سرکاری پروگراموں میں انھوں نے عوام کو بھی خطاب کیا اور اس میں سیاسی باتیں بھی ہوئیں۔ مودی غالباً پہلے وزیر اعظم ہیں جو اس ریاست کا ہر مہینے تین سے چار بار دورہ کر رہے ہیں جہاں انتخاب ہونے والے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اب یہ سوال اٹھنے لگا ہے کہ وزیر اعظم کے اس طرح کے دورے پر کتنا خرچ ہوتا ہے اور یہ خرچ کون اٹھاتا ہے۔ لکھنؤ میں محکمہ داخلہ کے ایک سینئر افسر کہتے ہیں کہ عموماً وزیر اعظم کے دورے پر ریاستی حکومت کے ایک کروڑ روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ بی جے پی اپنے حامیوں کو لانے لے جانے اور ان کے کھانا پانی پر 1 سے 1.5 کروڑ روپے خرچ کر دیتی ہے۔ وزیر اعظم کے کسی ریاست میں جانے پر ائیرکرافٹ اور دیگر متعلقہ خرچ اس میں شامل نہیں ہیں۔ وزیر اعظم کی سیکورٹی ایس پی جی کرتی ہے۔ ان کی ٹیم پر ہونے والا خرچ بھی مرکزی حکومت ہی برداشت کرتی ہے۔ یہ بھی تقریباً ایک کروڑ کا خرچ ہے۔ 22-2021 مالی سال میں ایس پی جی کا بجٹ 600 کروڑ روپے سے زیادہ تھا۔ آنے والے مہینوں میں یو پی سمیت پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہیں۔ ایسے میں ایس پی جی کا خرچ رواں مالی سال میں کچھ زیادہ ہی ہونے کا امکان ہے۔
ایک افسر نے بتایا کہ ”وزیر اعظم کے ہر بار کے دورے پر خرچ بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر ہوتا ہے۔ اگر وزیر اعظم کہیں ہیلی کاپٹر سے جاتے ہیں تو ہیلی پیڈ بنانا پڑتا ہے۔ ایسا اچانک حالات کے لیے بھی کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ویسے بھی ان کے سفر کے وقت کئی دیگر اہم ہستیاں بھی آتی ہیں، تو ایسے ہیلی پیڈ بنتے ہی ہیں۔ اگر عوامی جلسہ ہونا ہے تو پنڈال، کرسی، لائٹ، ساؤنڈ وغیرہ کا انتظام دیکھتے ہوئے بجٹ بنتا ہے۔ ان میں پولیس جوانوں کی تعیناتی، آس پاس کے اضلاع سے ان کے آنے جانے، ان پر ہونے والے اخراجات الگ ہیں۔ کئی محکموں کے افسران و ملازمین کو آس پاس کے اضلاع سے بھی بلایا جاتا ہے۔ اس پر بھی اسی قسم کا خرچ ہوتا ہے۔ اس بارے میں فوری اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے، حقیقی خرچ کا پتہ کچھ مہینے بعد ہی ہو پاتا ہے۔”
اس قسم کے سرکاری پروگرام میں اب ریلی بھی ہونے لگی ہے، تو اس میں بھیڑ جمع کرنے کا ذمہ بھی سرکاری نظام کا ہی ہو گیا ہے۔ اس میں بھی تقریباً ایک کروڑ روپے خرچ ہو جا رہے ہیں۔ سلطان پور ریلی کے لیے انتظامیہ کو آس پاس کے اضلاع سے بھی بسیں منگانی پڑیں۔ یہ کم از کم دو دن پہلے ایسی جگہوں پر کھڑی کر دی گئیں جہاں سے لوگوں کو ڈھو کر ریلی کی جگہ تک لایا جا سکے۔ یہ بسیں ریلی ختم ہونے کے ایک سے دو دنوں بعد واپس اپنی جگہ پر پہنچیں۔ اوسطاً ایک بس پر 5000 روپے بھی جوڑیں تو اس پر ہی تقریباً ایک کروڑ روپے خرچ ہو گئے۔ چار سے پانچ دن مختلف روٹوں پر عام لوگوں کو بسوں کی کمی سے جو پریشانی ہوئی، وہ الگ ہے۔ جو لوگ ان ریلیوں میں آتے ہیں، ان کے کھانے پینے کا انتظام بھی انتظامیہ ہی کرتا ہے۔ اگر ایک شخص پر کم از کم 100 روپے ہر شام کا بھی جوڑیں تو دو شام کا انتظام کرنے پر فی کس 200 روپے ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی کم از کم 50 لاکھ روپے ہو جاتے ہیں۔
اب آپ خود ہی جوڑ، گھٹاؤ، ضرب وغیرہ کر لیں کہ کتنا خرچ ہوا۔ یہ تو نظر آنے والے سرکاری خرچ کا اندازہ ہے۔ بڑے لیڈر سے لے کر افسر تک پر جو اضافی خرچ ہوتے ہیں، وہ الگ ہی ہیں۔
(بشکریہ قومی آواز)