شاہد معین (دیوبند)
سعودی عرب میں تبلیغی جماعت پر پابندی کے بعد مملکت کے سرکاری مبلغین، خطیبوں اور اماموں نے تبلیغی جماعت کے خلاف شدو مد کے ساتھ ایک مہم چھیڑ دی ہے، گزشتہ جمعہ میں انہوں نے تبلیغی جماعت کو گمراہ اسلام سے منحرف اور مشرکانہ نظریات کا حامل قرار دیا، دیگر سنگین الزامات کے ساتھ ساتھ ان پر مسلکِ صوفیت اختیار کرنے کا بھی بے بنیاد الزام عائد کیا گیا، سرکاری خطبہء جمعہ میں سعودی شہریوں اور وہاں مقیم غیر ملکیوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ یہ تبلیغی جماعت پیش آمدہ دہشت گردی کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے، جس سے مملکت کو خطرہ لاحق ہے، سعودی شہریوں کو تبلیغی حلقہ کے امراء سے ملاقات کرنے، تعلق اور میل جول رکھنے سے باز رہنے اور ان کی باتوں کو سننے سے احتراز کرنے کی تلقین کی گئی کہ یہ امور ممانعت میں سے ہیں جس سے احتراز لازم ہے۔ یہ بات ملحوظِ خاطر رہے کہ سعودی عرب میں جمعہ کا خطبہ وزارت اسلامی و الأمور دعوت و ارشاد کی جانب سے خطیبوں اور اماموں کو ارسال کیا جاتا ہے، انہیں صرف ان تحریر شدہ خطبہ کو پڑھنا ہوتا ہے، یہ مساجد کے خطیب سرکاری ملازمین ہیں جن کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی جانب سے خطبہ دے سکیں، اس لئے مساجد کے خطیبوں اور اماموں کا موقف سعودی حکام کا موقف ہے، وہاں نہ تو علماء اور نہ ہی مساجد کے خطیبوں کو حقِ اظہارِ رائے کی آزادی ہے نہ علم و فقہ میں کسی اجتہاد کی، اور جس نے حق بات کہنے کی جرات کی وہ پابندِ سلاسل ہوجاتا ہے جیسا کہ ہزاروں علماء اور مبلغین نامعلوم قید خانوں میں اللہ کی رضا کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں، جہاں ہر سو سناٹا اور مکمل خاموشی ہے – حد درجہ افسوسناک امر یہ ہے کہ سعودی حکومت محمدِ عربی کی سر زمین پر انبیاء کے مشن پر گامزن دین کی دعوت دینے والی پُر امن جماعت کے خلاف نیز اپنے غلط پالیسیوں و موقف کو جواز فراہم کرنے کے لئے مساجد کے ممبر و محراب کا ناجائز استعمال کررہی ہے، خواہ ان کا یہ موقف قرآن و سنت اور مصالح امت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
کیا تبلیغی جماعت سعودی عرب میں اقتدار کی خواہش مند ہے؟
مصر میں جمہوری طریقے سے برسرِ اقتدار آنے والے اخوان المسلمین کو بزور طاقت سعودی حکام نے مع اپنے حواریوں کے اس بناء پر کچل دیا کہ وہ سعودی عرب میں بھی اقتدار کی تبدیلی کے خواہش مند تھے، پورے عرب میں اخوان پر دہشت گردی کے عنوان سے پابندی عائد کردی گئی کہ مبادا یہ ہمارے اقتدار کے لئے خطرہ نہ بن جائیں- لیکن سعودی حکام نے جماعتِ تبلیغ پر کس بنیاد پر اور کس الزام کے تحت پابندی عائد کی ؟ سعودی حکام کو تبلیغی جماعت سے کیا خطرہ لاحق ہے؟ جبکہ یہ تبلیغی جماعت سیاست سے بالکل دور ہے اور جسے اقتدار کی بھی بالکل خواہش نہیں، تبلیغی جماعت ایک دعوتی جماعت ہے جس کے ارکانوں کی سرگرمیاں گلیوں، دکانوں، عوامی مقامات اور مساجد تک محدود ہے اور جن کی توجہ لوگوں کو اسلام کی طرف بلانے پر مرکوز ہے – یہ جماعت صرف قرآن و سنت پر عمل کی تلقین کرتی ہے، حق اللہ و حقوق العباد پر کاربند رہنے اور فسق و فجور سے دور رہنے کا مطالبہ کرتی ہے اور خیر خواہانہ انداز میں نرم نصیحت کے ساتھ نماز قائم کرنے اور قرآن کی تلاوت کرنے کی دعوت دیتی ہے-
کیا سعودی مفتی اعظم کے نزدیک تبلیغی جماعت گمراہ اور بدعت سے قریب تر ہے؟
تبلیغی جماعت پر پابندی کے اعلان کے دوسرے ہی دن سعودی عرب کے نابینا مفتی اعظم شيخ عبد العزيز بن عبد اللہ آل الشيخ نے یکے بعد دیگرے تبلیغی جماعت کے خلاف دو فتوے جاری کئے جس میں انہوں نے تبلیغی جماعت کو گمراہ، بدعتی اور تصوف کے راستے پر گامزن قرار دیا، یہ بغیر دلیل ایسے الزامات ہیں جو بےبنیاد اور غلط فہمی پر مبنی ہیں، بقیہ دیگر الزامات جیسے کہ یہ لوگ قرآن و سنت کو چھوڑ کر فضائل اعمال، حیاة الصحابة اور ریاض الصالحین کو اپنا مرجع سمجھتے ہیں اور اسی پر جمے رہتے ہیں، اپنے ساتھیوں کو غیر ملک میں مقیم امیر کے ہاتھوں بیعت ہونے کی دعوت دیتے ہیں، صوفیانہ طرزِ عمل کی زندگی گزارتے ہیں، بدعت کے مرتکب ہیں بنا بریں یہ کہ تبلیغی احباب کچھ مخصوص اعمال اختراع وضع کرکے اس پر کاربند ہیں مثلاً بیان کے بعد اجتماعی دعا کرنا اور اس پر مواظبت اختیار کرنا، مہینے میں ٣ دن، سال میں ٤٠ دن اور پوری عمر میں ایک مرتبہ ٩٠ دن کا چلہ لگانے کو لازم سمجھنا، شدت کے ساتھ چلہ لگانے کی ترغیب و ترھیب دینا، چلہ نہ لگانے والے کو حقیر، کمتر سمجھنا وغیرہ تو یہ سب ایسے معاملات ہیں جو محلِ نظر اور غور طلب ہیں اور جن کا حقیقی معنوں میں زمینی صورتحال پر کوئی تصور نہیں، اگرچہ مفتی اعظم کے اس بیان سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ تبلیغی أحباب علمِ فقہ حاصل نہیں کرتے اور نہ ہی کسی ذي علم اور فقیہ کی صحبت اختیار کرتے ہیں، مزید یہ کہ اگر ان کے ساتھ کوئی عالمِ دین یا علمِ فقہ کا جاننے والا ہو تو یہ لوگ نہ اس کی قدر کرتے ہیں اور نہ اس کو ترجیح دیتے ہیں، یہ لوگ صرف اپنے أُن ہم جماعت ساتھیوں کو ترجیح دیتے ہیں جنہوں نے چالیس دن یا تین مہینے جماعت میں چلہ کشی کی ہو، اگرچہ یہ واقعہ حقیقتِ حال اور سچائی کے قریب ہے لیکن دیگر الزامات بےبنیاد ہیں، مفتی اعظم کی طرف سے جاری کردہ فتویٰ میں ایسے الزامات ہیں کہ اگر ان کا بغور جائزہ لیا جائے تو ہمیں مساجد کے ممبر سے تبلیغی جماعت کے خلاف مہم چلانے کا کوئی جواز نہیں ملے گا، یہ الزامات صرف تبلیغی جماعت پر پابندی کو جواز فراہم کرنے کے لئے وضع کئے گئے ہیں، اگر تبلیغی جماعت میں خامیاں ہیں تو بھی سعودی حکام کا پابندی والا طرزِ عمل غلط ہے، قرآن و سنت کا اصول یہ ہے کہ غلطیوں کی اصلاح کی جائے، تبلیغی جماعت میں سعودی مفتیان کو اگر امورِ شریعت سے ہٹ کر کوئی خامیاں نظر نظر آرہی ہیں تو ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ پر عمل کرتے ہوئے اس کے تدارک اور ازالہ کی کوشش کی جائے، قرآن و سنت کے سمجھانے کا طرزِ عمل نرم اسلوب کے ساتھ نصیحت ہے، نہ کہ فوراً سے پیشتر کالعدم قرار دینے یا پابندی لگانے کا طرز عمل، یہ کونسا طریقہ ہے کہ بلا دلیل تبلیغی جماعت پر گمراہی اور انحراف کا فتویٰ لگائیں اور سعودی معاشرے میں انہیں ایک آنے والے خطرے کے طور پر پیش کریں، ہم تبلیغی احباب میں جزوی غلطیاں دیکھ سکتے ہیں، لیکن غلطیاں، کوتاہیاں انسان کے سرشت میں شامل ہے، جس کا ازالہ علماء و مفتیان کرام کے ذریعہ افہام و تفہیم ہے نہ کہ سرکاری خطیبوں کے ذریعہ منبر و محراب –
کیا تبلیغی جماعت کا دہشت گردی سے کوئی تعلق ہے؟
یہ الزام بھی بےبنیاد ہے کہ تبلیغی جماعت کے ارکان اپنی کم علمی کی وجہ سے مستقبل میں شدت پسندوں کی جماعت سے متاثر ہوکر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوسکتے ہیں، تبلیغی جماعت کو “خاموش انقلاب” سے تعبیر کرنا بھی درست نہیں ہے، سعودی عرب کے بیشتر سرکاری حکام تبلیغی جماعت کو اخوان المسلمین کے مانند ایک تحریک و نظریہ کے طور پر دیکھتے ہیں، حالانکہ دونوں کے نظریات میں تضاد و تفاوت ہے، اخوان المسلمین کے بعد تبلیغی جماعت کو بھی سعودی حکومت اپنے اقتدار کے لئے خطرہ سمجھنے لگی ہے، پابندی کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہی ہے کہ سعودی حکومت تبلیغی جماعت سے خطرہ محسوس کرتی ہے، ورنہ تبلیغی جماعت کو دہشت گردی سے متصف کرنا سمجھ سے بالاتر ہے-
ستّر سال قبل ہندوستان کے میوات میں مولانا محمد الیاس کاندھلوی کی طرف سے قائم کردہ تبلیغی جماعت اپنے قیام کے بعد سے آج تک پُرامن طریقے سے نبوی مشن کی طرف گامزن ہے، برصغیر کے بعد یہ تحریک اقوام عالم میں پھیل گئی، تمام ممالک میں اس پُرامن تبلیغی جماعت کا خیرمقدم کیا جاتا ہے، ہم نے کبھی نہیں سنا کہ تبلیغی جماعت کے کسی ارکان نے کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہو، یا وہاں سیاسی سرگرمیوں میں حصّہ لیا ہو، یا مُسلح بغاوت کی ہو، یا کسی ہیڈ کوارٹر یا سفارتخانہ پر حملہ کیا ہو، یا کسی کالعدم یا ممنوع تنظیم سے وابستگی رکھی ہو، یا کوئی تبلیغی رکن ایک ملک سے دوسرے ملک منشیات اسمگلنگ کرتے ہوئے پکڑا گیا ہو، جس تبلیغی جماعت کا ایک رکن بھی اپنے قیام کے بعد سے آج تک کسی بھی طرح کے غیر قانونی کام میں ملوث نہیں پایا گیا، تو اس جماعت کو کیونکر دہشت گردی سے متصف کیا جاسکتا ہے؟- دنیائے عالم کے سامنے تبلیغی جماعت کو ایک نظیر کے طور پر پیش کیا جانا چاہئے، چہ جائے کہ انہیں دہشت گردی سے متہم کرکے بلیک لسٹ کیا جائے- پوری دنیا میں کوئی ایسی تنظیم نہیں جس کے ارکان یا منتظمین پر کوئی بدنما دھبہ نہ ہو لیکن یہ واحد ایسی جماعت ہے جو اپنی ابتداء سے آج تک بےداغ اور اجلی ہے-
تبلیغی جماعت کے ارکان سادہ مزاج اور مہربان ہوتے ہیں ان کی دین سے محبت، لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی خواہش، ان کے سینے کی وسعت، اور ان کے اخلاق کی عظمت بلاشبہ دل کو گرویدہ کرنے والی ہیں، جو بھی ان سے ملتا ہے متاثر ہوتا ہے-
ہم مانتے ہیں کہ ان میں دیگر جماعتوں کی طرح کچھ خامیاں بھی ہیں، لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ ہم ان کی خامیوں کو بہترین نصیحت کے ذریعہ دور کرسکتے ہیں –
سعودی عرب میں مغربی تہذیب کا عروج، دینی سرگرمیوں کے دروازے بند
سعودی عرب مغربی تہذیب کی طرف گامزن ہے، سعودی معاشرے میں بتدریج بےحیائی کا عنصر شامل ہوتا جارہا ہے، وہاں خاموشی سے فحاشی کا رجحان بڑھتا چلا جارہا ہے، شرمناک عریانیت کے مناظر اور غیر اخلاقی اعمال کسی بھی پروگرام میں دیکھنے کو مل جاتے ہیں، وہاں کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز غیر اخلاقی اقدار کو فروغ دینے میں مشغول ہیں، سعودی عرب کے مقدس مقامات مشہور فلم انڈسٹری شخصیات، فنکاروں، گلوکاروں، اداکاروں، اور یہودی و نصاریٰ کی آماجگاہ بن چکے ہیں، فحاشیت کو فروغ دینے والوں کو وہاں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، ہزاروں کے جمِ غفیر میں ان کا استقبال کیا جاتا ہے، جبکہ اسلامی اقدار کے حامل لوگوں کے لئے وہاں کوئی جگہ نہیں ہے، سعودی نظام پر محمد بن سلمان کے اثر و رسوخ حاصل ہونے کے بعد یہود و نصاریٰ کو وہاں ہر طرح کی آزادی حاصل ہو گئی ہے، وہ سعودی عرب میں غیر محسوس طریقے سے اخلاقی و سماجی نظام کو درہم برہم کررہے ہیں، عرب تہذیب کو مسخ کررہے ہیں، معاشرے کی سلامتی وہ استحکام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کررہے ہیں، ہمیں حیرت ہے کہ سعودی عرب اسلامی معاشرے کے خلاف ان خطرناک مہمات کو نظر انداز کر رہا ہے، جبکہ حق گو علماء، اسلامی اقدار کی حامل جماعتیں جوکہ اسلام، اخلاقیات کی دعوت دیتی ہیں کے خلاف یک طرفہ جنگ لڑ رہا ہے- بد قسمتی سے اسلامی تہذیب کو مسخ کرنے والے گروہ کے معاملے میں سعودی حکام نہ صرف یہ کہ خاموش ہیں بلکہ پسِ پردہ ان کے ہمنوا ہیں ان سے ہم آہنگ ہیں، جبکہ اسلام اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ وہاں اجنبی ہے، وہاں سیکولرز اور لبرلز الکٹرانک میڈیا پر بیٹھ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں، سنّت رسول اللہ پر سوال اٹھاتے ہیں، لیکن اس معاملہ میں وہاں کے سرکاری مفتیان، مبلغین خاموش رہتے ہیں، ان کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرتے اور مذہبی جماعتوں کے خلاف بےبنیاد پروپیگنڈہ کرتے ہیں جس سے ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ آخر سعودی عرب کس طرف جارہا ہے؟
مرکزی اداروں کا اقدام لائقِ ستائش
تبلیغی جماعت پر پابندی کے بعد ملک کے مختلف دینی و مرکزی اداروں نے سعودی حکومت سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا یہ خوش آئند قدم ہے لیکن یہ مطالبہ کافی نہیں ہے، میری گزارش ہے کہ ہمارے مرکزی ادارے سعودی حکام سے وفود کے سلسلے میں تبادلہ خیال کریں اور تبلیغی جماعت سے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ کریں، جو الزامات وہاں کے مفتیان کرام نے تبلیغی جماعت پر لگائے اس کا قرآن و سنت سے ثابت ہونے کا مدلل جواب دیں اور ان سے سوال کریں کہ اگر تبلیغی جماعت گمراہ ہے تو کس بنا پر گمراہ ہے، بدعتی ہیں تو کس بنا پر، منحرف ہیں تو کن وجوہات کی بناء پر؟ اگر ممکن ہوسکے تو تبلیغی أمراء جوکہ عرب ممالک میں فعال ہیں اپنے طریقہ کار میں تبدیلی لائیں- اس سے قبل کہ پورے جزیرہ العرب میں تبلیغی جماعت پر قدغن لگے ہمیں افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرلینا چاہیے، بدقسمتی سے اگر جزیرة العرب میں پابندی لگی تو دنیا کے مختلف حصوں میں تبلیغی جماعت کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے- اور جو سعودی عرب میں حق گو علماء ہیں وہ سعودی حکام کو اس امر سے باز رہنے کی تلقین کریں، ان کی غلط پالیسیوں پر انہیں متنبہ کریں، اگر تبلیغی جماعت سعودی عرب میں پابندی کا سامنا کرتی ہے تو تبلیغی احباب کے سامنے خدا کی زمین بہت وسیع ہے، سعودی علماء محمد بن سلمان کو نصیحت کرتے رہیں اس سے قبل کہ وہ ہلاکت کی وادیوں میں جا پڑے ۔