مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
(نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ)
ہریانہ کی منوہر لال کھٹرسرکار نے کُھلے میں نماز پڑھنے پر پابندی لگادی ہے ، انہوں نے کہا کہ’’کھلے میدان میں مسلمانوں کو نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے، جسے نماز پڑھنا ہے وہ اپنے گھر پر پڑھے‘‘ جن کھلے میدانوں میں پہلے مسلمانوں کو نماز جمعہ اد اکرنے کی اجازت دی گئی تھی اسے بھی منوہر لال کھٹر نے واپس لے لیاہے، ہریانہ کی دیکھا دیکھی بہار میں بھی فرقہ پرستوں نے کھلے میں نماز ادا کرنے کو ممنوع قرار دینے کا مطالبہ شروع کر دیا ہے، گوبہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے یہ کہہ کر اس آواز کو دبا دیا ہے کہ ’’ہماری نگاہ میں سبھی لوگ یکساں ہیں، سڑک پر نماز کو ایشو نہ بنائیں، کہیں کوئی پوجا کرتا ہے ، کہیں کوئی گاتا ہے‘‘ وزیر اعلیٰ کے اس بیان کے بعد یہ معاملہ بہار کی حد تک ختم ہو گیا ہے ، لیکن کب کس کو جوش آجائے اور اس راگ کو الاپنے لگے ، کہا نہیں جاسکتا ۔
وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اس مسئلے پر جو کچھ کہا ہے، اس میں بہت دم ہے، اس لیے کہ غیر مسلموں کے سارے تہوار سڑکوں پر اور کھلے میں ہی ہوتے ہیں، ظاہر ہے ان پر پابندی لگا نے کا دم خم حکومت میں نہیں ہے ، ہریانہ کی کھٹر سرکار میں بھی نہیں، وہ راون کو جلانے کا کام گھر میں نہیں کر سکتے ، میدان میں ہی جلایا جائے گا، رام لیلا کی ساری کہانی میدان میں ہی اسٹیج کی جاتی ہے، درگا پوجا کے سارے پنڈال سڑک کنارے ہی لگتے ہیں،چھٹھ کے موقع سے سڑک جام اور آمد ورفت کے راستوں کو بدلنا پڑتا ہے، ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے، ’’جگ‘‘ بھی کھلے میدان میں کیا جاتا ہے اور ہنومان چالیسہ کا پاٹھ کسی کے دروازے پر بھی ہو میلہ سڑکوں پر ہی لگتا ہے، احتجاج ، مظاہرے اور دھرنے کھلے میدان میں ہی ہوتے ہیں، سڑکوں کو جام کرکے اپنی بات منوائی جاتی ہے ، اس لیے وزیر اعلیٰ نے ’’ہماری نگاہ میں سبھی لوگ یکساں ہیں‘‘ کہہ کر یہی پیغام دینا چاہا ہے کہ پابندی صرف نمازوں پر نہیں لگے گی ، سب یکساں ہیں تو پابندی کا اطلاق بھی سب پر ہونا چاہیے۔
اگر یہ پابندی مسلمانوں نے قبول کر لیا تو اس کے دور رس اثرات ہوں گے، جمعہ کے بعد عیدین کی نماز کھلے میں پڑھنے پر پابندی لگے گی ، گاندھی میدان پٹنہ میں نماز ادا نہیں کی جا سکے گی، پھر کہا جائے گا جنازہ کی نماز بھی گھروں میں پڑھو ، ایک طویل سلسلہ چل پڑے گا، اس لیے اس مسئلہ پر خاموش رہنا مصلحت کے بھی خلاف ہے، اگر حکومت اس قسم کی کوئی پابندی لگاتی ہے تو اسے اس کا حل بھی پیش کرنا چاہیے، اس کا حل یہ ہے کہ اوقاف کی زمینوں کو غیر قانونی قبضہ سے واگذار کرکے مسلمانوں کے حوالہ کیا جائے تاکہ وہ ان زمینوں کا استعمال جمعہ اور عیدین وغیرہ نمازوں کی ادائیگی کے لیے کر سکیں، حکومت اوقاف کی زمینوں کے غیر قانونی قبضہ کو ختم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی، کیوں کہ بہت ساری زمینوں پر خود حکومت کی عالیشان عمارتیں کھڑی ہیں، اور ان کے وقف کی جائیدا ہونے کی وجہ سے کرایہ یا لیز کی رقم بھی ادا نہیں کی جا رہی ہے۔
ہندوستان صدیوں سے گنگا جمنی تہذیب کا مرکز رہا ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے آ رہے ہیں، ان کی عبادت کے اپنے اپنے طریقے ہیں، کسی کی عبادت میں کوئی رکاوٹ نہ ہو، یہاں کی روایت رہی ہے، اسی روایت کے نتیجے میں میدان میں پوجا بھی کی جا تی ہے اور حسب ضرورت نماز یں بھی پڑھی جاتی رہی ہیں، حالاں کہ مسلمان باجماعت نمازوں کے لئے مساجد جانا ضروری سمجھتا ہے، لیکن کسی موقع سے جماعت بڑی ہوجاتی ہے، تو وہ سڑکوں اور میدانوں میں پھیل جاتی ہے، بعض کمپنیوں میں مسلمان کام کرتے ہیں اور وہاں پر کوئی مسجد دور دور نہ ہو تو میدان کا استعمال نماز کی ادائیگی کے لیے کیا جاتا ہے، یہ مسلمانوں کا معمول نہیں ہے، وقتی ضرورت ہے اس پر واویلا مچانا یا پابندی لگانا ہندوستانی روایات کے خلاف ہے او ریہاں کی گنگا جمنی تہذیب کے بھگوا رنگ میں رنگنے کے مترادف بھی۔
منوہر لال کھٹر کو فوری طور سے اپنے اس حکم کوواپس لینا چاہیے تاکہ ہندوستان میں سبھی مذاہب کے احترام کی جو تابندہ روایت رہی ہے اس پر آنچ نہ آئے۔