تعمیرِ سیرت اور کردار سازی میں جمیل اختر شفیق کی تحریریں مؤثر: شکیل احمد قاسمی

” روشنی کا سفر ” کے رسمِ اجراء میں کئی ممتاز شخصیتوں کی ہوئی شرکت

پٹنہ: (پریس ریلیز) مشہور جواں سال شاعروادیب جمیل اختر شفیق کی فکری واخلاقی کہانیوں کا مجموعہ “روشنی کا سفر” فخرالدیں علی احمد میموریل کمیٹی اُترپردیش لکھنؤ (یوپی) کے مالی تعاون سے شائع ہوکر منظر عام پر آچکا ہے ،اس کا رسمِ اجراء پچھلے دنوں 25 دسمبر 2021 کو اقراء ہال شریف کالونی پٹنہ کے ایک پُروقار پروگرام میں ہوا جس میں ریاست کی کئ مقتدر شخصیات کے ہاتھوں عمل میں آیا، دونشستوں میں منعقد ہونے والے اس پروگرام کا آغاز ریاض اختر شفیق کی تلاوت کلام پاک سے ہوا، نظامت کا فریضہ جواں سال قلم کار نورالسلام ندوی اور ادیبِ اطفال انظار احمد صادق نے مشترکہ طور پر انجام دیا اور صدارت ممتاز عالمِ دین اور فاران فاؤنڈیشن انڈیا کے ڈائریکٹر پروفیسر شکیل احمد قاسمی نے فرمائی۔

اس موقع پر سبھوں شرکاء اور علمی شخصیات نے جمیل اختر شفیق کی تازہ تصنیف کے حوالے سے قیمتی خیالات کا اظہار کیا- ڈاکٹر اسلم جاوداں نے جمیل اختر شفیق کو صالح ادب کا ترجمان بتایا جبکہ اردو ڈائریکٹوریٹ پٹنہ کے سابق ڈائریکٹر امتیاز احمد کریمی نے جمیل اختر شفیق کی گونا گوں خوبیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا: شفیق صاحب کا پورا علمی سفر کسی بھی انسان کو تحریک عطا کرسکتا ہے، ان کی تازہ تصنیف کو تحسین بھری نظروں سے دیکھا جانا چاہیے-پروفیسر ابوبکر رضوی نے کہا:زبان وادب کے قحط کے اس دور میں جمیل اختر شفیق جیسے متحرک نوجوانوں کی سرگرمیاں دیکھتا ہوں تو آنکھوں کی چمک بڑھ جاتی ہے، میری نیک تمنائیں اور دعائیں ان کے ساتھ ہیں-آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبر مشہور عالمِ دین خورشید عالم مدنی نے کہا:آج جبکہ اخلاقی قدریں اپنی زندگی کی آخری سانسیں گِن رہی ہیں “روشنی کا سفر” جیسی تصنیف کو بہت عام کرنے کی ضرورت ہے، جمیل میرے بچین سے عزیز رہے ہیں میں نے بہت پہلے اس نوجوان کی آنکھوں میں جنون کی عبارت پڑھ لی تھی، آج اُنہیں اُڑان بھرتے دیکھتا ہوں تو آنکھوں کو ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے-فوری مترجم ائمہء حرم اسٹینٹ پروفیسر سعود بن عبدالعزیز، سعودی شیخ ثناءاللہ صادق تیمی نے کہا:میں جمیل اختر شفیق کی صحافت کے ابتدائ دنوں کا عینی شاہد ہوں انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے یہ ثابت کیا کہ ناکامیوں کی بھیڑ بھاڑ میں کامیابی کی راہیں کیسے متعین کی جاسکتی ہیں-مشہور شاعرو ادیب عطا عابدی نے ‘روشنی کا سفر” کو ہر گھر کی ضرورت بتایا-ڈاکٹر سراج اللہ تیمی نے جمیل اختر شفیق سے اپنے دیرینہ مراسم اور بھولی بسری کئ تاریخی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کی تازہ تصینیف پہ نیک خواہشات کا اظہار کیا-جواں سال قلمکار انظار احمد صادق نے جمیل اختر شفیق سے اپنے جذباتی لگاؤ کا ذکر کرتے ہوئے کہا:لوگ جمیل کی کہانیاں پڑھیں گے میں نے جمیل کو پڑھا ہے وہ انتہائ حساس اور نازک کلیجے کے مالک انسان ہیں انہیں سماجی ومعاشرتی مسائل کو کہانی کا روپ عطا کرنے کا خوب ہنر آتا ہے-ماہرِ تعلیم اور الحراء پبلک اسکول کے ڈائریکٹر انور احمد نے کہا:جمیل اختر شفیق کی کہانیاں پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ آج بھی مشرقی جذبوں امین باقی ہیں-الحراء کے پرنسپل سرفراز عالم نے اردو کے حوالے سے اپنے درد کا اظہار کرتے ہوئے جمیل اختر شفیق کی تازہ کاوش کو سراہا، صدرِ محفل پروفیسر شکیل احمد قاسمی نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا:میں نے پچھلے دس بارہ سالوں میں جمیل اختر شفیق کی سینکڑوں کہانیاں پڑھی ہیں، ابتدائ دنوں سے ہی مجھے یہ احساس ہوچلا تھا کہ اس نوجوان کے سینے میں جذبات واحساسات کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موجود ہے آج جب انہیں بلندیاں چڑھتے ہوئے دیکھتا ہوں تو روحانی مسرت ہوتی ہے انہوں نے مزید کہا کہ تعمیرِ سیرت اور کردار سازی میں جمیل اختر شفیق کی تحریریں بہت مؤثر ثابت ہوسکتی ہیں-بیچ میں سینئر صحافی یحیٰ فہیم کو ممتاز شخصیات کے ہاتھوں شال اوڑھاکر نوازا گیا، یحیٰ فہیم کے بارے میں جمیل اختر شفیق نے کہا:یحیٰ صاحب نے ہی میری سب سے پہلے کہانی کو اپنے ایڈیشن میں جگہ دی،جس وقت کہانی شائع ہوئی اس وقت مجھے اپنے مستقبل کا تو کچھ پتہ نہیں تھا لیکن میں نے دل ہی دل یہ عزم کیا تھا کہ اللہ نے اگر کل ہوکر مجھے کسی لائق بنایا تو میں یحیٰ بھائ کی ضرورت عزت افزائی کروں گا اور آج مجھے یہ شرف حاصل ہو رہا ہے اس کے لیے میں اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے ۔

شعری نشست کی صدارت کا فریضہ مشہور ،بزرگ شاعر ناشاد اورنگ آبادی نے انجام دیا اس موقع پر ریاست کے قد آور شعراء نے دیر رات تک اپنے کلام سے سامعین کو مستفید کیا چند منتخب اشعار درج ذیل ہیں ۔

ناشاد میرے نام سے حیرت زدہ ہیں لوگ

شہر غزل میں میں نے بھی اک گھر بنا لیا

       ناشاد اورنگ آبادی

سنتے ہیں شاداب ہے موسم

اپنی زباں تو سوکھ گئ ہے

        احسن راشد

اس قدر حالات میں بگڑے ہوئے

بچ نکلنے کی کوئی صورت نہیں

            خالد عبادی

اجالا مانگے کا کوئی لےکے اچھل رہا ہے بہر سو ایسے

ہمارے شمس و قمر ہیں حیراں ستارے سہمے پڑے ہوئے ہیں

           عطا عابدی

افسر بنا تو باپ کی پہچان کھوگئ

اس کو بلندیوں نے کہاں تک گِرادیا

           ساگر تیمی

روز گھُٹ گھٹ کے یہ جینا کوئ جینا ہے شفیق

زندگی ایسی جیو تم کہ زمانہ ڈھونڈے

            جمیل اختر شفیق

دکھاتے ہو راہیں پسینے بہاکر

یہاں ایسا کوئی بھی رہبر نہیں ہے

         معین گرریڈھوی

حصولِ علم سے ہی شخصیت سنورتی ہے

بغیر اس کے ہے بےمعنیٰ زندگی کا سفر

ہر ایک سمت اندھیروں کا ہے یہاں پہرا

بہت ضروری ہے ایسے میں روشنی کا سفر

        وارث اسلام پوری

ایک بار جو حافظ بنا نورانی ہوگیا

سینے میں جو آیا تو پھر قرآن رہ گیا

         ڈاکٹر نصر عالم نصر

بزدلی چھین لیا کرتی ہے ہمت دل سے

چوٹ کھاکر بھی مرے یار جِیا جاتا ہے

            کلیم ثاقب

راستے جب کبھی دشوار ہوا کرتے ہیں

عزمِ محکم سے سبھی یار ہوا کرتے ہیں

         تحسین روزی

آزاد، انتشار، اذیت، جفا، گھٹن

ان سب کے درمیاں بھی ملی زندگی مجھے

           طلعت پروین

ہے جسکی عنایت سے مرا قلب منور

سورج بھی نہیں چاند کا ٹکڑا بھی نہیں ہے

زاہد سے وہ پردہ بھی نہیں کرتا ہے لیکن

بے پردہ کبھی سامنے آتا بھی نہیں ہے

          ڈاکٹر جمشید زاہد

منصف اگر ہیں آپ تو انصاف شرط ہے

اپنا ہے کون کون پرایا نہ دیکھئے

             یاور راشد

ان کے علاوہ مزید جن شخصیات نے شرکت کی ان میں شہاب اختر شفیق، مولانا اختر اقبال سلفی،پرویز احمد ،صدیق کریمی وغیرہ کے اسماء خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com