خبر درخبر کی 500 ویں قسط 2016 میں ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ پیش آئے اہم واقعات کا سرسری جائزہ

شمس تبریز قاسمی

2016 مکمل ہوگیاہے ،2017 کے شب وروز میں ہم زندگی بسر کرنے لگے ہیں ، کامیاب زندگی گزارنے ،مستقبل کو تابناک بنانے اور ماضی کی کوتاہیوں سے سبق لینے کیلئے ماضی کو یادرکھنا اور تاریخ کو محفوظ رکھنا انتہائی ضروری ہوتاہے ۔
2016 میں عالمی سطح پر بہت ہی ناخوشگوار واقعات پیش آئے ،مسلم دنیا کو بھی بہت سے نشیب وفراز سے گزرنا پڑا،خاص طور پر سال کے اخیر میں عالمی سطح پر بہت زیادہ ہنگامہ بپا رہا،کیوں کہ ایک طرف امریکہ کے صدارتی انتخابات میں خلاف توقع شد ت پسندتاجر ڈونالڈ ٹرمپ کی فتح ہوئی تودوسری طرف امریکہ کے بعد روس کے ہاتھوں شام میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا،سقوط حلب کا افسوسناک واقعہ پیش آیا،برما کے مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ ٹوڑے گئے ،ان سب کے ساتھ عالم اسلام میں برق رفتاری کے ساتھ ترقی کرنے والے ملک ترکی کی معیشت کو زبردست دھچکا لگا اور اس کی تیز رفتاراقتصادی ترقی کا سلسلہ رک گیا ۔یہ سب افسوسنا ک اور 2016 کے انتہائی اہم واقعات ہیں ۔لیکن آج خبر درخبر کی اس 500 ویں قسط میں ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے کچھ اہم واقعات کا تذکرہ ہوگا ۔
2016 میں ہندوستانی مسلمانوں پر سب سے بڑا حملہ حکومت کی جانب سے کیا گیا اور گذشتہ سالوں کی بہ نسب اس مرتبہ براہ راست مسلمانوں کو ٹارگٹ بنانے کے بجائے اسلام کو نشانہ بنایا گیااور تین طلاق کا مسئلہ چھیڑ کر اسلام پر خوب طنز کیا گیا ،میڈیا نے ایک منظم منصوبہ بند ی کے تحت چند خواتین کو خرید کراسلام کے خلاف خو ب پیروپیگنڈہ کیا ،اسلام کو عورتوں کے ساتھ زیادتی کرنے والا،ان کے حقوق غصب کرنے والا،انہیں قیدی بناکر رکھنے والا مذہب بتایا،افسوس کی بات یہ رہی کہ ایسے لوگوں کا دفاع کرنے کیلئے ٹی وی چینلوں پر جانے والے اسکالروں اور علماء نے عام مسلمانوں کو بالکل مایوس کیا اور ٹھوس جواب دینے میں وہ ناکام رہے اور نہ ہی اپنی گفتگو میں اسلام کے اعلی مقاصد اور اسراررموز کو بیان کرسکے ۔
اس دوران حکومت اور میڈیا کے پیروپیگنڈے کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہواکہ تمام مذاہب اورمکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمان اتحاد کے بندھن میں بندھ گئے اور کانسٹی ٹیوشن کلب میں 13 اکتوبر 2016 میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بینر تلے جمع ہوکر سبھی رہنماؤں نے ہم آوازہوکر حکومت سے کہاکہ ہم سب ایک ہیں ،ہماری شریعت میں مداخلت کرنے کی کوئی کوشش نہ کرے ،اسلام کے علاوہ ہمارے لئے کوئی اور طریقہ راہ عمل کبھی بھی نہیں بن سکتا ہے ،اسلام کے نظام معاشرہ پر کسی بھی فرد کو انگلی اٹھانے کا کوئی حق نہیں ہے ۔یکساں سول کوڈ ناقابل قبول ہے ،ہندوستانی مسلمان اسے کبھی بھی قبول نہیں کرسکتے ہیں،تین طلاق مسلمانوں کا اندرنی معاملہ ہے ،حکومت او رعدلیہ کی دخل اندازقوانین کے خلاف ہے اورآئین ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔اس پریس کانفرنس کا پیغام بہت دورتک گیا ،حکومت نے مسلمانوں کی اس متحدہ طاقت کو محسوس کیا ،ارباب اقتدار کی جانب سے مسلسل ایسے بیانات آئے جس سے اندازہ ہواکہ حکومت اب اپنے موقف پر برقرار نہیں رہ سکتی ہے ،پہلی مرتبہ ٹی وی چینلوں پر مسلمانوں کی کسی بھی پریس کانفرنس کو لائیو دیکھاگیا ۔مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بھی کچھ فعالیت دکھائی اور عائلی مسائل کے حل کیلئے خواتین فری ہیلپ لائن نمبر کا آغاز کیا۔
کچھ وقفے کے بعد 2016 میں ایک مرتبہ پھر ہندوستانی مسلمانوں کو فرضی انکاؤنٹر کے عذاب سے دوچار کیا گیا اور دہشت گردی کے الزام میں گرفتار آٹھ مسلمان جو بھوپال کی سینٹرل جیل میں قیدتھے انہیں ایک انکاؤنٹر میں ماردیاگیا ،31 اکتوبر 2016 کو سیمی سے تعلق رکھنے کے الزام میں گرفتار ایسے مسلمانوں کو قتل کردیاگیا جن کی رہائی کے دن قریب آچکے تھے اور ہائی کورٹ میں پولس اور ایجنسیاں ان پر الزام ثابت کرنے میں ناکام ہوچکی تھیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں اکثر انکاؤنٹر فرضی ہوتے ہیں لیکن یہ ایسا انکاؤنٹر تھا جس کے فرضی ہونے کیلئے سرے سے کوئی ثبوت درکار نہیں تھے ،جہاں پر قتل کیا گیاتھا وہاں کی متعدد ویڈیو منظر عام پر آئی جس سے صاف ہوگیاتھا ان مسلم قیدیوں کا قتل کیا گیا ہے ،کیوں کہ اس انکاؤنٹر کی کہانی کچھ یوں لکھی گئی تھی’’ بھوپال کی جیل سے صبح تین بجے آٹھ قیدیوں نے اسٹیل کی پلیٹ سے ایک گارڈ کا قتل کیا ،لکڑی کی چابھی سے تالا کھولا ،40 میٹر کی دیوار پھاند کر وہ باہر نکل گئے ،پھر کچھ دیر میں پولس کو پتہ چلا اور وہ تما م ایک ساتھ ایک پہاڑی کے قریب گرفتار ہوگئے جہاں پولس انہیں گولیاں ماردی ،اس اعتراف کے ساتھ ان کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا،وہ پولس پر کوئی فائرنگ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے‘‘۔
2016 کے واقعات میں ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب کا مسئلہ بھی سرفہرست ہے جنہیں میڈیاٹرائل کے ذریعہ دہشت گرد بنادیا گیا اور دھیر دھیرے ان پر شکنجہ کس دیا گیا ،واقعہ کی ابتداء بنگلہ دیش سے ہوئی،وہاں دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ایک شخص نے ڈاکٹر ذائکر نائک کے فیس بک پیج کو لائک کررکھاتھا ،جسے وہاں کے ایک اخبار نے یہ لکھ دیا کہ ذاکر نائک سے متاثر ہوکر اس نے دہشت گردانہ قدم اٹھایاتھا ،اس کے بعد ہندوستانی میڈیانے ایک پیروپیگنڈہ شروع کردیا اور بغیر کسی ثبوت کے امن پسند مبلغ ڈاکٹر ذاکرنائک کا رشتہ دہشت گردتنظیموں سے جوڑدیا،تعجب خیز بات یہ رہی کہ حکومت نے کسی تحقیق کے بغیر محض میڈیا پر یقین کرکے ذاکر نائک کے خلاف ایف آئی آر درج کرلیا،پہلے ان کی تنظیم کے غیر ملکی چندہ پر پابندی لگادی اور اس کے بعد اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن پر ہی پابندی عائد کردی،ڈاکٹر ذاکر نائک کے مسئلے میں خاص بات یہ رہی ہے کہ ہندوستان کے اکثر مسلمانوں نے کھل کر حمایت کی اور نظریاتی اختلافات کے باوجو د حکومت کے اس اقدام کی شدید مذمت کی،البتہ ایک دو مسلک سے وابستہ شخصیات نے ایسے موقع پر بھی اپنے اختلافات کو فراموش نہیں کیا۔
2016 کے اختتام پر ایک اورواقعہ پیش آگیا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ،ہوایوں کہ دنیا کی سب سے پرامن تحریک تبلیغی جماعت کی شوری کے رکن مولانا سعدکاندھلوی کے صاحب امت مسلمہ کے متفقہ موقف کے خلاف نظریات کی دارالعلوم دیوبند نے گرفت کی اور اس کی تردید میں ایک تحریر جاری کرکے مسلمانوں کو درست راستہ بتایالیکن یہ بات بہت زیادہ پھیل کر گروہی شکل میں تبدیل ہوگئی اور اب تک سوشل میڈیا پر دوطرفہ بحث ومباحثہ جاری ہے ،نہ تو مولانا سعد صاحب رجوع کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی ان کے ماننانے والے اسے تسلیم کررہے ہیں،نتیجتا سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپاہے۔
2016 ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان مسلکی منافرت کو ختم کرنے اور اتحاد کا پیغام دینے کیلئے بطور خاص یا درکھا جائے گا ،کیوں کہ اس سال پہلی مرتبہ فراخدلی کے ساتھ د و مذہب کے رہنماؤں نے ایک دوسرے کے یہاں کا دورہ کیا اور مسلکی عصبیت سے نکل کر متحدہونے کا پیغام دیا ،نواسہ اعلی حضرت مولانا توقیر رضا خان نے دیوبند کا سفر کیا اور دارالعلوم دیوبند ،مہتمم مفتی ابولقاسم نعمانی صاحب اور دیگر ذمہ داروں نے پرتپاک استقبال کیا ،دوسری جانب اتحاد کو آگے بڑھاتے ہوئے مولانا محمود مدنی صاحب نے جمعیت کا اجلاس عام اجمیر شریف میں منعقد کیا اور بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے بیشتر علماء کو انہوں نے جمعیت کے پروگرام کا حصہ بنایا اس کے ساتھ انہوں نے ایک نعتیہ مشاعرہ کا بھی انعقاد کرایا۔
2016 مجموعی طور پر ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ یہاں کی عوام کیلئے بھی دردناک ثابت ہوا اور سال کے اخیر میں نوٹ بندی کے فیصلے نے تو پریشانی کی تمام حدیں پارکردی،8 نومبر کو وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ اعلان کردیاکہ کل سے 1000 اور 500 کے نوٹ نہیں چلیں گے ،اس کی حیثیت کاغذ کے ایک ٹکر ے کی ہوگی ،انہوں نے کہاکہ اس سے بلیک منی واپس آئے گی ،دہشت گرد ی کم ہوگی،کرپشن کا خاتمہ ہوگا لیکن پچاس دن مکمل ہونے کے بعد پریشانیوں کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں ہوااور تمام دعوی ہمیشہ کے طرح اس فیصلے کے پس پردہ بھی بے بنیاد ثابت ہوئے ،البتہ اس فیصلہ کی بنا پر سینکڑوں لوگوں کی موت ہوئی ،متوسط اور چھوٹے تاجروں کا کام چوپٹ ہوگیا ،ہندوستانی کی جی ڈی پی کم ہوگئی ،اقتصادی ترقی رک گئی ،روپے کی قیمت کم ہوگئی اور یوں یہ اقتصادی ایمرجنسی دردناک عذاب ثابت ہوئی ۔
2017 کی شروعات ہوچکی ہے ،نئے سال میں ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں اور بارگاہ ایزدی میں دعا گو ہیں کہ آنے والا ہر پل ہمارے اور آپ کیلئے خوشیاں لائے ،امت مسلمہ کیلئے پرمن رہے اور عالم اسلام خوب ترقی کرے۔
یہ خبر درخبر کی 500 قسط تھی جو آج مکمل ہورہی ہے ،انشاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا اور اگلی قسطیں بھی اس انداز میں آتی رہیں گی ،خبردر خبر کو پڑھنے والے ،اس کالم میں دلچسپی رکھنے اور فیس بک پر اس کا پیج لائک کرنے والے تمام احباب ،قارئین اور محبین کے ہم شکر گزار ہیں۔
شکریہ شکریہ
stqasmi@gmail.com

SHARE