ابوفہد، نئی دہلی
اردو متحدہ ہندوستان کی بڑی زبانوں میں سے ایک ہے، یہ کئی مقامی اور غیر ملکی زبانوں سے مل کر وجود میں آئی ہے۔یہ برصغیر کے باہر بھی دنیا کے بیشتر حصوں اور علاقوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔یونیسکو کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں بولی اور سمجھی جانے والی زبانوں میں چینی اور انگریزی کے بعداردو تیسری بڑی زبان ہے اور رابطے کی حیثیت سے دنیا کی دوسری بڑی زبان ۔پورے برصغیر اور دنیا کے دوسرے خطوں میں تقریبا۸۰ کروڑ سے زیادہ افراد اردو کو رابطے کی زبان کی حیثیت سے استعمال کرتے ہیں۔
اردو فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے ۔ مگر عربی کے بھی تمام فونٹس Fonts اس کے لئے استعمال میں لائے جاتے ہیں ۔اسے دیوناگری اور رومن رسم الخط میںبھی بڑی آسانی سے لکھا ،پڑھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔گرچہ بہت سارے لوگ اسے درست نہیں مانتے۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ دیونا گری یا رومن میں لکھنے سے زبان کا حسن ختم ہوجاتا ہے اور کئی لفظوں کا املا درست طریقے سے نہیں لکھا جاتا۔
اردو کی لفظیات میں مختلف زبانوں جیسے عربی، فارسی ،ہندی ، انگریزی، پرتگالی، اطالوی، چینی ، یونانی، سنسکرت اوردیگر مقامی بولیوں کے الفاظ شامل ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ الفاظ عربی اور فارسی کے پائے جاتے ہیں ۔اس زبان میں ایک بڑی صلاحیت یہ بھی ہے کہ یہ کسی بھی زبان کے کسی بھی لفظ کو بآسانی اخذ کرلیتی ہے۔ اور دنیا کی کسی بھی زبان کے کسی بھی تلفظ pronounciationکو درست طور پر ادا کرسکتی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کی بہت ساری زبانیں یہاں تک کہ انگریزی وعربی جیسی بڑی زبانیں بھی جب دوسری زبانوں کے الفاظ لیتی ہیں تو ان کی ہیت ہی بگاڑ دیتی ہیں، حروف بدل دیتی ہیں ، تلفظ اور صوت و آہنگ بھی کچھ کا کچھ کر دیتی ہیں۔ایسا کرنے سے کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ لفظ کا حسن ہی غارت ہوجاتا ہے۔لفظِ سندھ کے سندھ سےہند، ہندسے انڈیا اور انڈیا سے ہندوستان بننے تک کے پرپیچ سفر کی جوتاریخی کہانی ہے وہ اسی وجہ سے ہے کہ دنیا کی بہت ساری زبانیں دوسری زبانوں کی لفظیات و تلفظات کو من وعن قبول نہیں کرسکتیں ۔ اگر عربی اور انگریزی زبان میں یہ خاصیت ہوتی کہ وہ لفظوں کو من وعن قبول کرسکتیں تو شاید لفظ’سندھ‘ کو اتنے لمبے سفر سے نہ گزرنا پڑتا۔
اور خاص اسی لئے کہ اردو میں دیگر کئی زبانوں کے الفاظ بڑی تعداد میں شامل ہیں ،ایسا ہے کہ اردو زبان سیکھنے اور سمجھنے میں دیگر سب زبانوں کے مقابل سب سے زیادہ آسان اور سہل ہے۔خاص کروہ لوگ جن کی مادری زبان ہندی ،پنجابی، عربی اور فارسی ہے وہ اسے بہت ہی آسانی سے سیکھ اور سمجھ سکتے ہیں۔اردواپنی اسی وسعت و کشادگی کی وجہ سے لطیف سے لطیف تراحساسات وجذبا ت کے اظہار کے لیے بہت ہی موزوں ، زرخیز اور اہل زبان ہے۔اردو ایک زندہ زبان ہے اور تقریباً پوری دنیا میں اردو بولنے اور سمجھنے والے مل جاتے ہیں۔
اردوکو ایک اور چیز بھی حسین بناتی ہے اور وہ ہے اس کے مختلف لہجے۔اردو اپنے دامن پر کئ لہجوں کی خوبصورتی بھی سجائے ہوئے ہے۔ لفظیاتی اور صوتیاتی ہر دو سطحوں پر اردو ہر سو ڈیڑھ سو کلومیٹر پر اپنا لہجہ بدل لیتی ہے ۔دکنی، پوروی اور بھوجپوری لہجے بہت مشہور ہیں۔کچھ لہجے ایسے بھی ہیں جن کا تعلق لفظیات سے کم اور صوتیات سے زیادہ ہے جیسے بھوپالی اور رامپوری لہجے۔ ہر علاقے کی اردومیں علاقائی زبان کا لہجہ اور لفظیات شامل ہوکر اردو پر جیسے رنگ وروغن کردیتے ہیں۔اور اردو ایک الگ ہی روپ میں جلوہ گرہوکر سامنے آتی ہے۔یوں تو ہر زبان میں مختلف لہجے اور قرأتیں ہوتی ہیں ، خود قرآن بھی سات قرأتوں میں نازل ہوا۔مگر خاص اس معاملے اردو کی شان ذرا ممتا ز ہے۔
اردو کے علاوہ کسی اورزبان جاننے والے کے لئے اس کی اپنی زبان کی معنویت اکہری ہوسکتی ہے بلکہ زیادہ تر ہوتی ہے مگر اردو زبان بولنے والے کے لیے اس کی اپنی زبان کی معنویت دہری ہے۔ ایک تو یہ کہ اردو اس کی مادری زبان ہے۔ اورما فی الضمیر کے اظہارکے لیے اور خاص طور پر احساسات وجذبات کے اظہار کےلیے مادری زبان ہی سب سے بہتر زبان ہوتی ہے۔یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ غیر ملکی زبان سیکھنے اور مہارت حاصل کرنے میں بنسبت مادری زبان کے زیادہ وقت، زیادہ محنت اور زیادہ مال صرف ہوتاہے اور پھر بھی وہ بات یا ملکہ پیدا نہیں ہوپاتا جو ایک سمجھدار اور ذہین آدمی اپنی مادری زبان میں، کم وقت، کم محنت اور بہت ہی کم خرچ کے ساتھ حاصل کرسکتا ہے ۔اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ تمام دنیا میں جتنے بھی بڑے بڑے مصنف، مؤلف، سیرت نگار، تاریخ نویس اور ادیب وشاعر گزرے ہیں ان سب نے اپنی مادری زبان کو ہی اظہارما فی الضمیر کے لیے چنا اور اختیار کیا ہے،بھلے ہی وہ دنیا کی کتنی بھی زبانیں کیوں نہ جانتے ہوں۔ایسے بہت کم لوگ ہیں جنہوںنے غیر مادری زبان کو ذریعۂ اظہار کے طورپر اختیار کیا اور تصنیف وتالیف اور تحقیق وتنقیدکے میدان میں کوئی بڑا کام کیا ۔اس لیے مادری زبان ہونے کے ناتے ہر اردو بولنے والے پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنی زبان کی وسیع پیمانے پر نشرواشاعت اور تعمیر و ترقی کے لیے تگ ودو کرے۔
دوسرے یہ کہ اگر بہ حسن اتفاق کسی اردو بولنے والےکا تعلق دین اسلام سے بھی ہے تو اس کے لئےاردو زبان کی دوسری معنویت یہ بھی ہے کہ اردو میں دین اسلام اور اسلامی تاریخ کا اتناذخیرہ موجودہ ہے کہ وہ خاص اس ناحیے سے عربی کے قائم مقام ہوگئ ہے ۔ اردو گرچہ قرآن وحدیث کی زبان نہیں ہے اور نہ ہی وہ جنت کی زبان ہے پھر بھی اس کی کم از کم اتنی حیثیت ضرور ہے اور یہ ہر طرح سے بڑی اور قابل قدر حیثیت ہے کہ اردو زبان دنیاکی کسی بھی دوسری زبان کے مقابلے میں قرآن وحدیث کی سب سے بڑی اور قابل اعتماد شارح ہے۔ اس لحاظ سے دنیا کی کوئی بھی دوسری زبان اس کی ہمسری نہیں کرسکتی، انگریزی اور فارسی بھی نہیں ۔اس لیے یہ کہنا بجا ہے کہ اردو زبان کم از کم ایک مسلمان کے لئے دہری معنویت کی حامل زبان ہے۔اور کہیں کہیں تو یہ بھی ہوتا ہے کہ اردو بولنے والے کے لیے اردو زبان کی دہری معنویت میں ایک اور معنویت بھی شامل ہوجاتی ہے۔اور وہ اس کی قومی معنویت ۔آپ جانتے ہیں کہ پڑوسی ملک میں اردو کو قومی زبان کا درجہ بھی حاصل ہے اور خود ہندوستان کی کئی ریاستوں میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے ۔توبہت سارے اردو زبان بولنے والوں کے لیے اردو کی معنویت مادری سے بڑھ کر قومی اور دینی معنویتوں تک وسیع ہوجاتی ہے۔
آج کی دنیامیں جب چھوٹی سے چھوٹی زبان کو بچانے اور محفوظ کرنے کی کوششیں علاقائی سطح سے لے کر عالمی سطح تک بھی جاری ہیں۔لوگ اپنی مادری زبان کو محفوظ کرنے اور اسے ترقی یافتہ زبان بنانے کے لیے انفرادی طورپر بھی کوششیں کررہے ہیں، اجتماعی طورپر بھی اور اگر انہیں ریاستی یا ملکی سطح پر اقتدار حاصل ہے تو سرکاری سطح پربھی ان کی کوششیں جاری ہیں ۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو اردو ہر طرح سے اس لائق ہے کہ اس کو وسعتیں اور ترقی دینے کی کوشش ہر سطح پر ہونی چاہئے۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کی تاریخ میں بہت سارے لوگ جن کی مادری زبان اردو ہے وہ اردوسے پہلو تہی کرتے ہیںخود بھی اردو نہیں سیکھنا چاہتے اور اپنے بچوں کو بھی اردو پڑھانا نہیں چاہتے ،یہاں تک کہ دوسری لنگویج کی حیثیت سے بھی نہیں۔ کیونکہ ان کا یہ خیال ہے کہ اردو پڑھنے سے وہ اور ان کے بچے بے روزگار ہوجائیں گے، وہ کوئی عالمی شناخت اور پہچان نہیں بناسکیں گے اوراس لائق نہیں ہوپائیں گے کہ عالمی زبانوں میں لکھے گئے ادب کو پڑھ اور سمجھ سکیں اور خاص کریہ کہ ان کے بچے سائنسی فکر ورجحان اور سائنس کی فتوحات کی اہمیت ووقعت سے بے بہرہ رہ جائیں گے۔ اس سوچ نے ملک کے بہت سارے لوگوں کو اردو سے نابلند بنا دیا ہے۔جو لوگ اس طرح کے خیالات رکھتے ہیں وہ حقیقت میں نہ صرف یہ کہ زبان کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ خودکوبھی نقصان پہنچارہے ہیں بلکہ اس سے بھی اور آگے بڑھ کر ملک و قوم کا بھی نقصان کررہے ہیں اور چونکہ زبان اپنے آپ میں محض ایک بولی اور چند حروف ،الفاظ اور صوت وآہنگ کا مجموعہ ہی نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک تہذیب اور ثقافت بھی ہوتی ہے اوراس اعتبار سے وہ اپنی تہذیب وثقافت کا بھی نقصان کررہے ہیں۔ حالانکہ مسلم گھرانوں میں پیدا ہونے والے وہ تمام بچے جو اسکولوں اوریونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں وہ صرف اور صرف ایک ماہ کی توجہ اور محنت سے ہی اردو پڑھنا لکھنا جان سکتے ہیں۔کیونکہ اردو میں جملے بنانے کا طریقہ اور قواعد ہندی سے ملتے جلتے ہیں۔ہندی اور اردو بولنے والے ایک ہی طرح کے ’’افعال‘‘Verbs استعمال کرتے ہیں، البتہ اسماء Nounsایک دوسرے سے مختلف ہیں، وہ بھی صرف وہی جو سنسکرت اور عربی وفارسی کی گہرائیوں سے نکال کر اردو میں داخل کئے گئے ہیں اور تاحال کئے جارہے ہیں۔ورنہ حقیقت تو یہی ہےکہ اردو اور ہندی میں صرف رسم الخط ہی کا فرق ہے۔دونوں زبانوں میں لاکھوں الفاظ مشترک ہیں۔ اس لئے ایک ہندی جاننے والے کو صرف دوکام کرنے ہیں، ایک تو اردو کے حروف تہجی اور مرکبات کی شناخت کرنی ہے، اور دوسرے کچھ اسماء یاد کرنے ہیں، جن میں سے زیادہ تر تو اسے یاد ہی ہوتے ہیں۔ تو ہمارے جو بچے اسکولوں میں ہندی اور انگریزی پڑھتے ہیں انہیں اردو جاننے کے لیے ایک ماہ سے زیادہ کاوقت درکار نہیں ہوگا۔
اگر ہندوستان کے تمام سرکاری اور پرائیویٹ اسکول صرف اتنا بھی کرلیں کہ وہ اپنے مسلم وغیر مسلم طلبہ کو اردو کے حروف تہجی اور مرکبات سے واقف کرادیں تب بھی آپ دیکھیں گے کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ کرشمہ وجود پذیر ہوجائے گاکہ ملک میں جتنے لوگ اردو بولنے والے ہوں گے تقریبا وہ سب اردو پڑھنے اور لکھنے والے بھی ہوں گے۔جبکہ آج کی صورت حال بہت مختلف ہے۔ آج ملک میں جتنے لوگ اردو بول سکتے ہیں ان میں سے صرف دو تین فیصد ہی ایسے ہوں گے جو اردو پڑھ بھی سکتے ہیں ، لکھنا تو بہت دور کی بات ہے۔اسی لیے کئی لوگ اردو کو دیونا گری اور رومن رسم الخط میں لکھنے کی وکالت کرتے ہیں ۔ کیونکہ برصغیر کے زیادہ تر افراد خواہ ان کی زبان کوئی بھی ہوبیشتراردو الفاظ کے معنیٰ تو جانتے ہیں مگران کی صورت نہیں پہچانتے۔اور جب اردو کاکوئی لفظ دیوناگری یا رومن میں لکھا جاتا ہے تووہ اس کے معانی تک آسانی سے پہنچ جاتے ہیں۔’’ اچھا ! چلو، اب چلتے ہیں‘‘ اگر اس جملے کو رومن یا دیونا گری میں لکھا جائے تو بیشتر ہندوستانی اس کے معنیٰ آسانی سے سمجھ لیں گے جبکہ فارسی رسم الخط میں اسے سمجھنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہی ہوگی۔خود مسلمانوں میں بھی پانچ میں سے صرف ایک یا دو ہی اسے پڑھ پائیں گے۔کیونکہ لوگ بولنا تو اپنے محلے اور اسکول سے سیکھ لیتے ہیں جبکہ پڑھنا وہ کہیں بھی نہیں سیکھ پاتے، نہ اسکول میں اور نہ ہی گھر اور محلے میں ۔یہ لفظ کو اور لفظ کے معنٰی کو جانتے ہیں مگر اس کی فارسی صورت کویعنی رسم الخط کو نہیں جانتے۔
میرا تعلق یوپی میں ضلع رام پور کے ایک دیہات سے ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ دیہات میں بڑے بڑے خاندان ہوتے ہیں اور دور دور تک رشتہ داریاں ہوتی ہیں۔ اگر میں اپنے قریب اوردور کے تمام رشتہ داروں کی ایک لسٹ تیار کروں تو ان کی تعداد دس بارہ ہزارتک تو یقیناً پہنچ جائے گی ۔یہ سب زمیندارکاشت کار ہیں،یعنی ان کے پاس کم یا زیادہ خود کی زمینیں ہیں اور یہ خود ہی ان میں کاشتکاری کرتے ہیں۔چھوٹے موٹے کام خود ہی کرلیتے ہیں البتہ بوائی، نرائی اورپھرکٹائی کے وقت مزدوروں کا سہارا لیتے ہیں۔ان میں سے زیادہ تر خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے ناخواندہ ہیںبلکہ سیکڑوں تو انگوٹھا چھاپ بھی ہیں۔باقی وہ ہیں جواپنے علاقائی اسکولوں سے آٹھ دس کلاس تک پڑھ کر ڈراپ آؤٹ کرگئے ہیں، ان کا تعلق نئی پیڑھی سے ہے۔ ان میں دس بیس مدارس کے فارغ ہیں اور شاید دو چار وہ ہیں جنہوں نے گریجویشن کرلیا ہے۔اور ان سب کا تعلق بھی موجودہ نئی جنریشن سے ہے۔اگلی کئی پشتوں میں تو نہ کوئی عالم ہے اور نہ کوئی گریجویٹ ، بس چند حافظ ہیں اور ایک دوماسٹریا منشی ٹائپ حضرات۔جو چیزیں انہیں آپس میں مربوط رکھتی ہیں ، ان میں ایک تو ’ذات‘ ہے، دوسرے کاشتکاری اور تیسرے اردو زبان۔یہ سب اردو میں بات کرتے ہیں مگر اردوپڑھنا صرف وہی جانتے ہیں جنہوں نے مدرسوں میں پڑھا ہے، اب خواہ انہوں نے تعلیم مکمل کی ہو یا ادھوری چھوڑ دی ہو۔ ان کے علاوہ سو میں دو چارہی ہوں گے جو اردو پڑھ بھی سکتے ہیں، لکھنا تو شاید ہی کوئی جانتا ہو۔اسی لیے شادی کارڈ ہندی میں چھاپے جاتے ہیں۔ اگر یہ سب لوگ صرف اور صرف ایک دو ماہ کی محنت سے اردو رسم الخط سے واقفیت حاصل کرلیتے تو آج یہ سب اسی طرح اردو لکھتے پڑھتے جس طرح اردو بولتے ہیں۔جہاں تک مسلمانوں کی بات ہے تو ان کے لئے تو اردو رسم الخط سیکھنا اور بھی آسان ہے۔ تقریبا سبھی مسلمان قرآن پڑھتے ہیں ، اگر وہ’’ یسرنا القرآن ‘‘ پڑھتے وقت ہی اردو کی ابجد سے کسی نہ کسی حدتک واقفیت حاصل کر لیتے ۔تو ان کے لیے بس اتنا کرنا رہ جاتا ہے کہ وہ اردو الفاظ کی مرکب صورتوں کی پہچان کرلیں۔مگر بات یہ ہے کہ یہاں بھی حیرت ہمارا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ جب انہوں نے قرآن کو ہجے کرکے پڑھنا سیکھ لیا ہے اور اس کے مرکب الفاظ کو پہچان لیا ہے تو پھر اردو کے مرکب الفاظ پہچاننے میں کیا دشواری رہ جاتی ہے۔اردو اور قرآن کے رسم الخط میں بس فونٹ ہی کا تو فرق ہے۔میرے خیال میں دشواری بس یہی رہ جاتی ہے کہ اردو کی طرف بالکل دھیان ہی نہیں دیا گیا۔اگر یہ لوگ یسرنا القرآن اور قرآن پڑھتے وقت اردو کی ایک دو کتابیں پڑھ لیتے تو آج یہ اردو لکھنے اورپڑھنے والے ہوتے۔میں نہیں کہتا کہ اس طرح یہ اردو کے استاد بن جاتے۔ لیکن کم از کم اتنا تو ہوتا کہ اردو کے حوالے سے اندھے بہرے تو نہ ہوتے۔جس طرح یہ ٹوٹی پھوٹی ہندی جانتے ہیں اسی طرح ٹوٹی پھوٹی اردو بھی جانتے ہوتے۔
آج بازار میں بہت سارے انسٹی ٹیوٹ کھلے ہوئے ہیں جو انگریزی، فرانسیسی،عربی اور دیگر غیر ملکی زبانیں نوّے دنوں میں سکھانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ دعویداری صریح جھوٹ پر مبنی ہے۔ ان اداروں میں عام طور پر وہی نوجوان جاتے ہیں جو پہلے سے انگریزی یا متعلقہ زبان جسے وہ سیکھنا چاہتے ہیں تھوڑی بہت ضرور جانتے ہیں اور وہ بھی نوے دن یعنی تین ماہ میں زبان نہیں سیکھ پاتے ۔ ان اداروں سے صرف انہی نوجوانوں کا فائدہ ہوتا ہے جو پہلے ہی سے متعلقہ زبان اچھی طرح جانتے تھے اورانہیں بس تھوڑی بہت بولنے یا لکھنے کی مشق کرنے کی ضرورت تھی۔ یہ ایک صریح جھوٹ ہے کہ کوئی آدمی صرف تین ماہ میں غیر ملکی زبان سیکھ سکتا ہےاور وہ بھی اس وقت جب وہ متعلقہ زبان کی ابجد سے بھی واقفیت نہ رکھتا ہو۔جبکہ دوسری طرف اس میں سوفیصد سچائی ہے کہ ایشیائے کوچک کا کوئی بھی فر د اتنی ہی مدت میں بلکہ اس سے بھی کم مدت میں اردو زبان بہت آسانی سے سیکھ سکتا ہے اور نہ صرف بولنا سیکھ سکتا ہے بلکہ پڑھنا اور لکھنا بھی سیکھ سکتا ہے۔
اب جو زبان اتنی آسانی اور اتنی کم مدت میں سیکھی اور سکھائی جاسکتی ہےاگر ہم خود اور ہمارے بچے اسے بھی سیکھنے اور جاننے کی کوشش نہ کریں تو یہ تو بڑے خسارے کی بات ہوگی۔