اردو صحافت کے 200 سال جشن منائیں یا …..

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

 اردو صحافت کے 200سال مکمل ہونے کا جشن منایا جارہا ہے! ویسے ارتضیٰ کریم‘ این سی پی یو ایل کے ڈائرکٹر مقرر کئے گئے تھے تو 5سال پہلے ہی انہوں نے 200سالہ جشن کا آغاز کردیا تھا۔ خوشی اس بات کی ہے کہ ایک زبان جسے جانے کتنے آزمائشی اور کربناک مراحل سے گزرنا پڑا‘ مخالفین کی لاکھ کوششوں کے باوجود 200 سال سے نہ صرف زندہ ہے بلکہ اس کے مستقبل کے متعلق شکوک و شبہات کے اظہار کے باوجود کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگلی صدی تک یہ زبان باقی نہیں رہے گی۔ رہی بات اردو صحافت کی! تو 200 سال کی تکمیل جامِ جہاں نما کی تاریخ اشاعت کے لحاظ سے منائی جارہی ہے۔ جس کے ایڈیٹرس غیر مسلم سداسکھ لال اور ہری دت تھے۔ اس بنیاد پر بڑے فخر سے یہ کہا جارہا ہے کہ اردو کے پہلے اخبار کے ایڈیٹر غیر مسلم تھے۔ سوال یہ ہے کہ اردو سکھ لال اور ہری دت کی مادری زبان تھی یا ان کی مجبوری تھی؟ یقینا دو سال سال پہلے اردو کے عروج کا ابتدائی دور تھا۔ اور بیشتر غیر مسلم حضرات کی بول چال کی زبان اردو ہی تھی۔ مسلمان ہمیشہ ماضی میں کھوئے رہے‘ غیر مسلم حضرات کی نظر ہمیشہ حال اور مستقبل پر رہی۔ جب فارسی سرکاری زبان بنی تو مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم حضرات نے فارسی سیکھا، اس میں مہارت حاصل کی۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔ اردو نے فارسی کی جگہ لینی شروع کی تو انہوں نے اردو سیکھی اور اپنی مادری زبانوں کی چاہے وہ سنسکرت ہو یا ہندی‘ اس کی انہوں نے گھروں میں حفاظت کی۔ اس سے پہلے کہ ہم اردو صحافت کے 200 سال کا جائزہ لیں اور اردو صحافیوں کی حالت پر سرسری نظر ڈالیں‘ پہلے اس حقیقت کو تسلیم کرلیں کہ اردو صحافت سے وابستہ غیر مسلم حضرات کو جو عزت، مقبولیت، سماج میں مقام حاصل ہوا وہ اُن صحافیوں کو نہ مل سکا جن کی مادری زبان اردو ہے۔ چاہے منشی نول کشور ہوں‘ جنہوں نے نہ صرف مطبع نول کشور قائم کیا جو ایشیاء کا سب سے عظیم پرنٹنگ پریس بن گیا تھا بلکہ انہوں نے اودھ اخبار بھی نکالا تھا۔ ہندوستان، دیش اور ماہنامہ دیپک جیسے اردو اخبارات اور جرائد کے ایڈیٹر و پبلیشر لالہ دیناناتھ روزنامہ ”زمانہ“ کے ایڈیٹر منشی دیانارائن نگم، بیسویں صدی کے ایڈیٹر خوشتر گرامی، ہند سماچار جالندھر کے ایڈیٹر آنجہانی لالہ جگت نرائن جو دہشت گردی کے شکار ہوئے۔ ملاپ کے ایڈیٹر یدھ ویر جی، ہند سماچار اردو اور پنجاب کیسری کے وجئے کمار چوپڑا کے علاوہ اردو صحافت سے نام اور عزت کمانے والے مگر انگریزی صحافت سے دولت اور سیاسی اور سفارتی عہدے حاصل کرنے والے خشونت سنگھ، کلدیپ نیر کے علاوہ موہن چراغی، چندر سریواستو (حسن علی)، آر یو دکشٹ، نرہری (سیاست)، بلرام سنگھ (منصف)، اور بھی کئی نام ہیں‘ جن کی پہچان رہی۔ راموجی راؤ نے ETV اردو کی شروعات کی مگر تجارتی اعتبار سے خسارے کی وجہ سے اسے دوسرے انتظامیہ کے حوالے کردیا ویسے وہ ETV بھارت قائم کئے ہیں۔ سہارا گروپ کے سبروتو رائے نے روزنامہ سہارا اور مہندر موہن گپتا چیرمین جاگرن گروپ جس کے تحت انقلاب کے ملٹی ایڈیشن شائع ہورہے ہیں۔ اردو صحافت اور غیر مسلم ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ غیر مسلم انتطامیہ کے تحت قائم اردو صحافتی ادارے زیادہ معیاری ہیں۔ اور صحافیوں کا معاوضہ بھی بہتر ہے۔ حالانکہ غیر مسلم انتظامیہ کے تحت قائم اردو اخبارات کی پالیسی ہر مذہب کے ماننے والوں کے لئے یکساں نہیں ہے‘ غیر مسلم گروپ کے اردو اخبارات کو مسلمانوں کا ترجمان سمجھا جاتا ہے تو اسی گروپ کے ہندی اخبارات پڑھنے سے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ آخر ان کی کونسی پالیسی صحیح ہے۔ اردو اخبارات کی جس میں یہ مسلمانوں کے ترجمان بنتے ہیں یا ہندی اخبار کی پالیسی جس میں مسلمانوں سے دشمنی اور ان کے خلاف پروپگنڈہ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ اردو سے اگر واقعی محبت، ہمدردی ہوتی تو کلدیپ نیر، خشونت سنگھ جیسے عظیم صحافی اور ادیب انگریزی صحافت اختیار نہیں کرتے۔ اگرچہ کہ اردو سے انہیں دولت نہیں ملی مگر جو عزت، مقام حاصل ہوا وہ اردو ہی کے دین ہے۔ اس سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ اردو میں یا اردو کے لئے جب تک کام کیا یہ محض مجبوری تھی۔ اردو سے دوری اختیار کرنا ان کی دور اندیشی موقع پرستی یا اسے کچھ بھی نام دیا جاسکتا ہے۔ آج جو گروپس اردو اخبارات شائع کرتے ہیں کیا انہیں اس زبان کی ترویج و اشاعت سے کوئی ہمدردی ہے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ آر ایس ایس سے وابستہ گریش جویال نے تک ”پیغامِ مادر وطن“ اردو روزنامہ اور اردو ٹی وی چیانل کا آغاز کیا۔ کیا آر ایس ایس کو اردو سے محبت ہوسکتی ہے؟ اردو صحافت سے وابستگی اردو اخبارات نکالنے کا مقصد اردو دوالوں کی ذہن سازی، ان کے خیالات کی تبدیلی ہے۔ ہم اسے سیکولرزم، سیکولر کردار کا نام دیتے ہیں‘ اچھا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو کے لئے آج بہت سارا کام غیر مسلم حضرات ہی کررہے ہیں چاہے وہ ریختہ کی ویب سائٹ ہو‘ یا کچھ اور‘ یہ اور بات ہے کہ اردو کیلئے کام کرنے پر ریختہ کے بانی سنجو سراف کو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں اعزازی ڈاکٹریٹ بھی عطا کردی۔

 بحیثیت مجموعی جن غیر مسلم حضرات نے اردو اخبارات نکالے یا اردو صحافت سے وابستگی اختیار کی‘ وہ مسلم صحافیوں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب رہے۔ کیوں کہ اردو والے تو انہیں اپنا محسن مان کر ان کی عزت و احترام کرتے ہیں‘ اور غیر مسلم طبقات میں یہ اردو میں ان کے ا پنے نمائندہ ہیں۔ اردو صحافت کا 200 سالہ جشن مناتے ہوئے ہم بڑے فخر سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اردو کا پہلا اخبار نکلانے والے غیر مسلم تھے یعنی اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اردو صرف مسلمانوں کی ہی نہیں‘ غیر مسلم حضرات کی بھی زبان ہے اور اس پر ہم زیادہ زور دیتے ہیں‘ جانے کیوں؟ اگر سینہ ٹھوک کر یہ کہا جائے کہ اردو ہماری زبان ہے تو کیا نقصان ہوگا۔ آپ ملک کی آزادی سے پہلے سے بار بار یہ بات دہراتے رہے ہیں کہ اردو سب کی زبان ہے مگر کوئی ماننے تیار نہیں۔ اکثر اولاد جس طرح ضعیف والدین کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں‘ اردو والے بھی اپنی ماں کی زبان کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی روایت پر قائم ہے۔ جس طرح انگریزی مسلمانوں کی مادری زبان نہ ہونے کے باوجود بیشتر مسلمان انگریزی جانتے ہیں، بولتے ہیں۔ اُسی طرح ماحول کے لحاظ سے لوگوں نے اردو سیکھی‘ اُسے بول چال کی زبان بنائی۔ جس جس نے اردو سے نام، شہرت، عزت، دولت حاصل کی‘ جنہیں اردو والے اعزازات سے نوازتے ہیں ان پر فخر کرتے ہیں۔ کبھی مردم شماری کے خانہ میں اس بات کا جائزہ لیں کہ کیا اردو کے نام پر سب کچھ حاصل کرنے والوں نے اپنی مادری زبان کے خانہ میں اردو لکھوایا ہے۔ اردو کو تو آتنک وادیوں کی زبان، پڑوسی ملک کی زبان، جاہلوں کی زبان‘ جانے کیا کیا کہا جاتا ہے۔ یہ زبان سے تعصب کا ہی نتیجہ تو تھا کہ علامہ اقبال کا ترانہ ”سارے جہاں اسے اچھا ہندوستاں ہمارا“ قومی ترانہ نہ بن سکا۔ بہرحال اردو والے واقعی بھولے ہیں یا………

اردو صحافی مجبور کیوں؟

 اردو اخبارات چاہے بڑے ہوں یا چھوٹے ان میں اِکا دُکا صحافی معاشی طور پر خوشحال ہیں۔ رپورٹرس اور مقامی خبروں کے صفحات کے ذمہ داروں کو کسی نہ کسی طرح سے اپنے مسائل حل کرنے کے لئے وسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ جبکہ بیشتر سب ایڈیٹرس اور نئے رپورٹرس کے حالات ناقابل بیان ہوتے ہیں۔ صحافیوں کے مسائل وہی ہیں جو عام آدمی کے مسائل ہیں‘ فرق اتنا ہے کہ صحافیوں کو دنیا سلام کرتی ہے‘ اور اپنے ہی گھر میں وہ اجنبی کی طرح رہتے ہیں‘ کیوں کہ بیشتر مسائل کی یکسوئی اور ضروریات کی تکمیل میں وہ ناکام رہتے ہیں۔ 95% صحافی کرائے کے گھر میں رہتے ہیں۔ جو تنخواہیں ملتی ہیں اگر وہ کرایہ دیتے ہیں تو کرانہ نہیں لاسکتے۔ کرانہ لائیں تو بچوں کی فیس کی ادائیگی مشکل ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ اپنی صحت پر بھی تو کچھ خرچ کرنا ہوتا ہے۔ اگر اردو صحافتی ادارے اپنے ملازمین کو رہنے کے لئے گھر، بچوں کی تعلیم اور ان کی صحت کی نگہداشت کے انتظامات کریں تو زیادہ تر مسائل حل ہوجاتے ہیں۔ اس کے لئے خاکسار نے جناب سید وقارالدین کو مرحوم ہونے سے پہلے کئی بات یہ تجویز پیش کی تھی کہ وہ ایک کامپلکس میں اپنے اسٹاف کے لئے فلیٹس تعمیر کروائیں اور ان سے ہر فلیٹ کی قیمت اقساط میں کرایہ کی شکل میں وصول کریں۔ 15-20سال میں اگر یہ ادائیگی ہوجاتی ہے تو آپ کا اسٹاف بھی بھٹک نہیں سکتا اور جب وہ ملازمت سے سبکدوش ہوتا ہے تو ایک ذاتی فلیٹ کا مالک ہوگا۔ اسی طرح اچھے معیاری اسکولس اور کالجس سے معاہدہ کرکے ملازمین کے بچوں کی تعلیم کی سہولتیں فراہم کریں‘ آدھی فیس ادارہ کی جانب سے ادا کی جائے مرحوم نے اس تجویز کو پسند کیا۔ عمل کا وعدہ بھی کیا‘ افسوس کہ یہ وعدہ پورا نہ ہوسکا۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔

اردو صحافت اپنو ں اور پرایوں کا رویہ

 مسلم قیادت اور سیاست کا اردو صحافت کے بغیر کوئی وجود ہی نہیں۔ اردو صحافت بالخصوص مسلم انتظامیہ کے تحت اداروں نے ہمیشہ مسلم قیادت‘ مسلم اداروں اور مسلم سیاست دانوں سے متعلق نرم رویہ اختیار کیا۔ان کی غلطیوں، کوتاہیوں کو نظر انداز کیا۔ ان کی خامیوں کی پردہ پوشی کرکے خوبیوں کو اُجاگر کیا۔ مگر یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اردو صحافت کو نہ تو مسلم قیادت اور نہ ہی مسلم سیاست سے کوئی پذیرائی ملتی ہے۔ میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ مسلم سیاستدان ہوں یا ملت کے اکابرین‘ اردو اخبارات کے مقابلہ میں انگلش اخبارات اور آج کل ٹی وی چیانلس کو زیادہ توجہ دیتے ہیں۔حالانکہ انگلش اخبارات میں 99% ان کے خلاف ہی چھپتا ہے۔ اس کے باوجود انہیں جس طرح اہمیت دی جاتی ہے‘ اور اردو صحافیوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ وہ تکلیف دہ ہے۔ انگلش اخبارات کے نمائندوں کو قائدین خصوصی چیمبرس میں یا سب کی نظروں سے بچاکر ملاقات کرتے ہیں۔ اردو صحافیوں کو تو بعض مقامات پر بیٹھنے کے لئے تک نہیں کہا جاتا اور نہ ہی بیٹھنے کے کوئی انتظامات ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر اردو صحافی کے ساتھ ایسا ہی رویہ اختیار کیا جاتا ہو‘ دوسری ریاستوں‘ شہروں کا تو مجھے انداز نہیں‘ حیدرآباد کی حد تک یہ مشاہدہ ہے کہ اردو اخبارات کے وہ صحافی جو اخبار کا مقامی خبروں کا صفحہ دیکھتے ہیں یا اپنے اثرات و رسوخ سے ان کی خبریں نمایاں شائع کرتے ہیں‘ ان کے ساتھ بہتر سلوک ہوتا ہے۔ یہ سلوک بھی اخبار کی پوزیشن کے لحاظ سے ہوتے ہیں۔ بعض اخبارات کے نام سن کر تو چہرہ پر ناگواری کے تاثرات بھی بھرتے ہیں۔

 اشتہارات کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اشتہار دینے والے کو زیادہ سے زیادہ رسپانس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے اردو اخبارات کے ساتھ مشتہرین کا رویہ امتیازی ہوتا ہے۔ دوسری زبان کے اخبارات تو بزنس کیلئے کچھ بھی کرتے ہیں۔ نیم برہنہ لڑکیوں کو تک اشتہارات کیلئے بھیج دیتے ہیں اور زاہد خشک بھی اخلاقی مروت کا مجسمہ بن جاتے ہیں۔

 مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے اشتہارات‘ سرکولیشن کی بنیاد پر جاری ہوتے ہیں۔ مگر جب سے بی جے پی حکومت مرکز میں آئی ہے‘ تب سے الکٹرانک میڈیا کا راج ہے۔ اور تب ہی سے گودی میڈیا کی اصطلاح بھی شروع ہوئی۔ پرنٹ میڈیا پر نظر کرم نہ ہونے کے برابر ہے۔ اردو اخبارات کا پہلے بھی خدا ہی حافظ تھا اب بھی وہی حافظ ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کے اشتہارات سرکولیشن کی بنیاد پر ہی اردو اخبارات کو بھی جاری ہوتے ہیں۔ شہر سے کوئی ایک اخبارخوش نصیب ہوتا ہے۔ دوسرے اخبارات کو یہ اشتہارات نہیں ملتے۔ ظاہر ہے کہ اس کا اثر اخبار کی معیشت پر ہوتا ہے۔ تاہم جتنے بڑے اخبارات ہندوستان میں ہیں‘ ان کے مالکین کی مالی حالت بہت اچھی ہے۔ بعض نے تو بلیک کو وائٹ کرنے کیلئے بعض نے سماج میں مقام یا سیاسی عہدہ حاصل کرنے کی غرض سے اخبارات شروع کئے ہیں۔ اس لئے اگر وہ اپنے علاوہ اپنے اسٹاف کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچتے ہیں تو عملی طور پر بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ جو اخبارات چھوٹے ہیں‘ یعنی جن کی اشاعت کم ہے‘ انہیں سرکاری اور خانگی دونوں اشتہارات بھی کم ملتے ہیں بلکہ نہ ملنے کے برابر ہیں۔ ان کے مالکین کو اکریڈیٹیشن کارڈ اور دوسری سہولتیں مل جائیں‘ دہلی میں تلنگانہ یا آندھرا بھون میں رہنے کو جگہ مل جائے تاکہ وہ اپنے پیروکاری کرسکیں‘ یہی کافی ہے۔

 اردو صحافت کے بغیر نہ مسلم قیادت نہ ہی سیاست کا تصور ہے۔ افسوس کہ یہ دونوں ہی شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کا رویہ اردو صحافت کیساتھ جیسا ہونا چاہئے‘ ویسا نہیں ہوتا۔ حالانکہ اگر اردو صحافت انہیں نظر انداز کردے تو ان کا وجود ہی ختم ہوجائے۔

اردو صحافت اور کرپشن

 ہندوستان ہو یا پاکستان کرپشن ہر شعبے کا لازمی جز ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران پاکستان کے حامد میر سے لے کر کئی اور بڑے صحافیوں کے بارے میں سنا اور پڑھا ہے کہ یہ لفافہ کلچر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی لفافہ کلچر میڈیا کا ایک جز ہے۔ زی ٹی وی کا ایک نمائندہ تو تہاڑ میں کافی وقت گزار کر آچکا ہے۔ الکٹرانک میڈیا کو دیکھ کر ا ندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح سے کرپشن کا راج ہے۔ بدقسمتی سے اردو صحافت بھی اس سے اپنا دامن نہیں بچاسکی۔ کنفیوشس کا قول ہے کہ ”دنیا بڑے چوروں کو جھک کر سلام کرتی ہے‘ اور چھوٹے چوروں کو سزا دیتی ہے“۔ میڈیا کا معاملہ ایسا ہے‘ کوئی دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کا دامن بے داغ ہے۔ کرپشن کا انداز جداگانہ ہے۔ کسی کو عہدے مل جاتے ہیں۔ کسی کو ضرورت سے زیادہ اشتہارات جاری ہوجاتے ہیں۔ کسی کو پیڈ آرٹیکلس کا ٹھیکہ مل جاتا ہے۔ مختلف سفارتخانوں سے کس کو کیا ملتا ہے حاصل کرنے والے خوب جانتے ہیں۔ مالکین کو اگر کچھ ملتا ہے تو یہ خیر سگالی تحائف ہیں۔ ملازمین کو اگر کوئی کچھ دیتا ہے اور اس کا پتہ چل جاتا ہے تو اسے کرپشن کا نام دیا جاتا ہے۔ کوئی بھی فرد خاص طور پر اردو صحافی بنیادی طور پر کرپٹ نہیں ہوتا۔ کیوں کہ حالیہ عرصہ تک ان ہی لوگوں نے اس پیشہ کو اختیار کیا جن میں قربانیاں دے کر کچھ کرنے کا جذبہ تھا۔ اور ایسے بیشمار صحافی ہمارے درمیان موجود ہیں اور ہم سے رخصت بھی ہوگئے جنہوں نے ایمانداری، غربت اور فاقہ کشی کے ساتھ صحافتی خدمات انجام دیں۔ انسان غلط راستہ کب اختیار کرتا ہے جب ایمانداری سے وہ اپنی نہیں‘ بلکہ اپنے ارکان خاندان کی ضروریات کی تکمیل نہ کرسکے۔ ہندوستان کے بیشتر اردو صحافتی اداروں نے اپنے اسٹاف کا ہمیشہ ا ستحصال کیا ہے۔ جب بچاوت ویج بورڈ نے اخبارات کے انتظامیہ کو تنخواہوں کی شرح مقرر کرنے کی ہدایت دی تھی تب ایمانداری کا درس دینے والے، سسٹم کی بدعنوانیوں کو بے نقاب کرنے والے، ان ہی صحافتی ا داروں نے اپنے ضمیر کو کچل کر اپنے ملازمین کے ساتھ جو سلوک کیا دنیا میں خیر انہیں کوئی پوچھے گا نہیں‘ مگر خدا کے پاس تو اس کا جواب دینا ہوگا۔ شاید آج کی نسل کو یہ معلوم نہ ہو‘ ان اداروں نے کیا کیا تھا ویج بورڈ کے احکام کی تعمیل ضرور کی مگر کیسے‘ جو سینئر تھے۔ انہیں زبردستی ریٹائرمنٹ لینے کیلئے مجبور کیا گیا اور از سر نو ان کے تقررات کم تنخواہ پر کئے گئے۔ سب ایڈیٹر کو کلرک بنادیا گیا تاکہ مقررہ تنخواہیں نہ دی جاسکیں۔ آج بھی بیشتر اداروں کے ملازمین کنٹراکٹ لیبر ہیں۔ ان اداروں کے ملازمین کے بارے میں اگر انتظامیہ کو کوئی شکایت مل بھی جائے کہ وہ لفافہ کلچر سے تعلق رکھتے ہیں‘ تب بھی انتظامیہ ان کیخلاف اسلئے کاروائی نہیں کرسکتا کہ خود انہوں نے اپنے اسٹاف کے ساتھ کوئی دیانتداری نہیں کی۔ دوسروں کو بھلا ایمانداری کا درس کیسے دیا جاسکتا ہے۔

 لفافہ کلچر کا شخصی طور پر خلاف نہیں ہوں۔ جب آپ اخبارات کے مالکین کو خوش کرنے کے لئے اپنے فارم ہاؤس کے ”آم“ بطور تحفہ ان تک پہنچاتے ہیں۔ بیرونی ممالک کا دورہ کرکے آتے ہیں تو اپنے ماں باپ یا رشتہ داروں کو کوئی تحفہ دیں یا نہ دیں خوش کرنے کیلئے اخبار کے مالکین کو کبھی پرفیوم، کبھی کچھ، کبھی کچھ پیش کرتے ہیں۔ تو اگر اخبارات میں کام کرنے والے رپورٹر یا سب ایڈیٹر کو کوئی تحفہ چاہے کسی بھی شکل میں دیتا ہے تو اس پر اعتراض کیوں۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ ہر اخبار میں اِکا دُکا صحافی چاہے وہ رپورٹر ہو یا سب ایڈیٹر معاشی طور پر بہتر ہوں گے ورنہ اکثریت ان کی ہے جن کے گھروں میں اکثر چولہے جلتے ہیں تو ان لفافوں کی برکت سے۔ یہ مجبوری ہے! اگر سب کے تنخواہیں اتنی ہوں کہ گھریلو ضروریات کی تکمیل کسی طرح سے ہوجائے تو کوئی بھی غلط طریقے سے آمدنی کے ذرائع کا قائل نہیں ہوتا۔

 یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ کرونا بحران کے دوران ہمارے ملک کے بیشتر صحافتی اداروں نے نہ صرف اپنے اسٹاف کی ایک بڑی تعداد کو ہمیشہ کیلئے گھر پر بٹھادیا بلکہ جنہیں برقرار رکھا ان کی تنخواہوں میں بھی محض اس لئے کمی کردی کہ کرونا کا اثر اخبارات کے اشتہارات پر پڑا تھا۔ آمدنی کم ہوگئی تھی مگر ان میں سے بیشتر ایسے ادارے تھے جن کے پاس کئی دہائیوں سے کمائی ہوئی اتنی دولت ہے کہ اگلی دس پشتوں کے لئے کافی ہوگی۔ ایسے بحران میں جب ہر گھر میں علاج و معالجہ کے لئے پیسہ کی ضرورت تھی‘ جب مختلف این جی اوز ضرورت مندوں کو امداد فراہم کررہے تھے‘ صحافتی اداروں کا یہ رویہ ان کی سنگ دلی اور انسانیت سے دوری کی عکاسی کرتا ہے۔ میں نے اپنے کئی اردو صحافیوں کی ماؤں اور بیویوں کو اخبارات کے مالکین کو کوستے ہوئے سنا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ دل سے نکلی ہوئی یہ بددعائیں قبول نہ ہوں۔

 اپنے چالیس سالہ صحافتی کیریئر کے دوران میں نے اردو صحافت کے کئی ادوار دیکھے۔ میں نے بڑے بڑے صحافتی اداروں کے ایسے سب ایڈیٹرس، رپورٹرس اور اسٹاف ممبرس کے آخری وقت کو دیکھا ہے جنہوں نے اپنے خون جگر سے اِن اداروں کی آبیاری کی تھی‘ اپنے علاج و معالجہ کے لئے انہیں ترستے اور تڑپتے دیکھا۔ کوئی کینسر سے متاثر ہوا تو اس کے امداد کے لئے اخبارات میں اپیل شائع ہوئی۔ کسی کے گردے ناکارہ ہوگئے اور وہ اپیل کرتا کرتا لقمہ اجل ہوگیا۔ کسی نے اپنی بیٹی کی شادی کے لئے این جو اوز سے مدد مانگی اور کوئی اپنے بچوں کو فیس میں رعایت کے لئے اسکول انتظامیہ سے عاجزانہ لہجہ میں بات کرتا ہوا دیکھا گیا۔ جب بھی کوئی صحافی مجبوری سے ہی سہی‘ اپنی سطح سے نیچے اترنے کے لئے مجبور ہوتا ہے تو لگتا ہے کہ ہم بھی اسی کی جگہ پر موجود ہیں۔

اردو صحافت اور گروہ بندیاں 

 اردو صحافت کا منفی پہلو مختلف اخبارات کے مالکین کے درمیان گروہ بندیاں ہیں۔ اور یہ ہندوستان پاکستان میں عام ہیں۔ اگر کوئی فرد یا ادارہ کسی ایک اخبار کے ملک کے قریب ہوتا ہے تو دوسرے اخبارات میں اسے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اردو اخبارات ملی اتحاد کی بات کرتے ہیں‘ مگر اخبارات میں چھپنے والی خبریں ملی انتشار کا سبب بنتی ہیں۔ ہر بڑے آدمی کے اطراف کا خوشامد پسند حاشیہ آپسی اختلافات کو ہوا دیتا ہے۔ کیوں کہ اسی صلاحیت کی بناء پر وہ اخبارات کے مالکین کے قریب ہوتے ہیں‘ بلکہ وہ اخبار کی پالیسی پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایسے حضرات کو وقار صاحب کے آخری ایام سے سبق لینا چاہئے کہ کس طرح سے وقار صاحب مرحوم نے جن پر اعتماد کیا وہی انہیں قبر تک پہنچانے کے ذمہ دار بنے۔ بہرحال اخبارات کے مالکین کی اَنا ان کے آپسی اختلافات نے مسلم سماج کو بھی منتشر کیا ہے اور بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ مالکین کے اختلافات کا فائدہ ملازمین اٹھاتے ہیں اور جس کی خبر نہیں چھاپنی ہوتی ہے اسے مخالف گروپ کا قرار دیتے ہیں۔

اردو اخبارات‘ معاشرہ کی اصلاح اور بگاڑ کے ذمہ دار:

 بلاشبہ اردو صحافت نے مسلمانوں کا اپنے مذہب سے رشتہ جوڑے رکھا ہے۔ اکثر اردو اخبارات ہر روز قرآن اور حدیث شائع کرتے ہیں۔ جمعہ ایڈیشن کے ذریعہ مذہبی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں۔ مقدس راتیں ہوں یا ایام‘ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم ہو یا بزرگان دین کی ایام ولادت یا وفات کے موقع پر خصوصی شمارے شائع کئے جاتے ہیں۔ صحابہ کرام اور صحابیات رضی اللہ عنہم کی سیرت پاک شائع کرکے مسلم سماج کو ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ مگر انہی اخبارات میں فلم ایڈیشن کے نام پر مختلف اداکاروں کے درمیان تعلقات، اسکینڈلس، نیم برہنہ تصاویر، فلمی تبصروں کی اشاعت کی روایت افسوسناک ہے۔ یقینا فلمی خبریں پڑھنے والے قارئین کی تعداد زیادہ ہے مگر کیا اس کے لئے گناہ کی طرف راغب کرنا درست ہے؟ فلم دیکھنا، کسی اداکار یا اداکارہ کو پسند کرنا انفرادی یا ذاتی معاملہ ہے۔ اللہ چاہے تو معاف کرسکتا ہے مگر آپ کے تبصرے سے کئی لوگ فلم دیکھنے چلے جائیں‘ ان سب کے گناہ کیلئے آپ ذمہ دار ہوں گے۔ میرے اِن خیالات کا ہوسکتا ہے مذاق اڑایا جائے۔ میں مطمئن ہوں کہ میں نے اپنا فرض پورا کردیا۔

رہنمائے دکن سے درس عبرت

 رہنمائے دکن نے ایک صدی مکمل کی۔ اردو صحافت اس اخبار کے ذکر کے بغیر ادھوری رہ جاتی ہے۔ میں اس اخبار کا نمک خوار بھی ہوں اور آج جوبھی ہوں اسی کی بدولت ہوں۔ جناب سید وقارالدین بلاشبہ ایک اچھے انسان تھے۔ یقینا ملت اور فلسطین کا درد ان کے دل میں تھا۔ اتنا ہی درد اگر رہنمائے دکن کے اسٹاف کے لئے ہوتا تو شاید رہنمائے دکن ہندوستان میں نمبر ایک اخبار ہوتا۔ رہنمائے دکن کے موجودہ اسٹاف کے بیشتر ارکان گواہ ہیں کہ 2015ء میں جب وقار صاحب کے اصرار پر میں نے دوبارہ انچارج ایڈیٹر کی حیثیت سے وابستگی اختیار کی تھی تو خدمات کے آغاز سے پہلے وقار صاحب کی قیام گاہ پر موجودہ اسٹاف کے علاوہ مختلف اضلاع کے نمائندوں کی موجودگی میں‘ خاکسار نے ان سے یہی استدعا کی تھی کہ وہ اپنے اسٹاف کی تنخواہوں میں اضافہ کریں۔ اس کے علاوہ اس چند دن پہلے ہی وہ ایک بدترین حادثہ میں محفوظ رہ گئے تھے اس خوشی میں وہ کچھ رقم اپنے اسٹاف کو تقسیم کریں۔ وقار صاحب نے وعدہ کیا تھا مگر ان کے ساتھ سایہ کی طرح ساتھ رہنے والے دو حرام خوروں نے جو میر جعفر میر صادق ثابت ہوئے‘ وقار صاحب کو ایسا کرنے نہیں دیا۔ وقار صاحب رہنمائے دکن کے مستقبل کے تحفظ کے لئے پانچ کروڑ کے کارپس فنڈ سے ٹرسٹ بنانا چاہتے تھے۔ منصوبہ بندی کرتے رہ گئے‘ اور فرشتہ اجل انہیں اپنے ساتھ لے گیا۔ اردو صحافت کے 200 سال میں رہنمائے دکن کے 100سال مکمل ہوئے۔ اللہ کرے یہ ادارہ ہمیشہ قائم و دائم رہے۔ جناب وقارالدین صاحب نے فلسطین کیلئے کروڑوں روپئے خرچ کئے۔ آندھراپردیش میں سیلاب آیا 25لاکھ روپئے کا عطیہ دیا، کرونا بحران کے دوران میر جعفر میر صادق میں سے ایک نے ایک تنظیم کے نام پر پانچ لاکھ روپئے حاصل کئے۔ اور رہنمائے دکن کا اسٹاف کرونا بحران کے دوران ہر چیز کیلئے ترستا رہ گیا۔ اللہ رب العزت مغفرت فرمائے ایک شریف انسان کی جس کے اطراف ذلیل عناصر کا حاشیہ تھا۔

اردو صحافت کا دوسوسال کا جشن کا مقصد

 اردو صحافت نے 200 سال مکمل کرلئے۔ اللہ کا شکر ہے‘ خوشی کی بات ہے۔ ویسے اردو کا پہلا اخبار نکالنے کا اعزاز ہندوستان کے پہلے مجاہد اور شہید آزادی ٹیپو سلطان رحمۃ اللہ علیہ کو ملتا ہے جنہوں نے 1794ء میں ایک سرکاری فرمان جاری کیا تھا کہ ایک سرکاری پریس قائم کیا جائے۔ عربی حروف میں ٹائپ کی چھپائی ہو۔ اس پریس سے اردو زبان کا اخبار جاری کیا جائے جس کا نام ”فوجی اخبار“ رکھا جائے۔ اگرچہ کہ یہ اخبار ان کی فوج تک محدود تھا۔ یہ وہ دور تھا جب سرکاری زبان فارسی تھی‘ اردو کی ابتداء تھی مگر ٹیپو سلطان شہید کی دوربین نگاہوں نے یہ بھانپ لیا تھا کہ آنے والا دور اردو کا ہوگا۔ اس فوجی ہفتہ وار اخبار میں فوج کی نقل و حرکت، افسروں کے تعین، تبادلے کے اطلاعات درج ہوتی تھیں۔ فوج کے متعلق احکامات بھی شائع کئے جاتے تھے۔ پانچ سال تک پابندی سے شائع ہوتا رہا۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریزوں نے پریس اور فوجی اخبار کی تمام فائلوں کو ضبط کرلیا اور اُسے آگ لگادی۔ جامِ جہاں نما کو اردو کے اولین اخبار کی سند دی جاتی ہے جس پر اس وقت کے چیف سکریٹری ولیم ورڈ وتھ ویلے نے خفیہ فائل تیار کی تھی جس میں اس اخبار پر کنٹرول اور سنسرشپ کی ہدایت تھی۔ اسی اخبار کی وجہ سے 1823ء میں پہلا پریس ایکٹ رائج ہوا تھا۔ دو سو برس کے دوران اردو صحافت نے ترقی کی۔ دوسری زبان کے اخبارات کے شانہ بشانہ ٹکنالوجی کا استعمال کیا جارہا ہے۔ آن لائن ایڈیشنس شائع ہورہے ہیں۔ ہر ایک کی اپنی ویب سائٹ ہے‘ سوشیل میڈیا پر ان اردو اخبارات کو پوسٹ کیا جاتا ہے۔ اردو کی نئی بستیوں میں ان کا رواج عام ہونے لگا ہے۔ ان سب کے باوجود بیشتر اردو اخبارات کے ملازمین کی معاشی حالت بہتر نہیں ہے۔ اردو صحافت کے 200 سال کا جشن منانا اچھا ہے مگر اس جشن کے موقع پر سنجیدگی سے اردو صحافت اور صحافیوں کے حالات کا جائزہ لینا زیادہ ضروری ہے۔ مختلف اداروں کی جانب سے لاکھوں روپئے خرچ کئے جارہے ہیں۔ اچھا ہوتا کہ اس جشن کے موقع پر کسمپرسی کے شکار اردو صحافیوں کی مالی امداد کی جائے۔ جو واقعی صحافی ہیں وہ ایوارڈس کے محتاج نہیں ہیں۔ جو ایوارڈ دے رہے ہیں‘ ان کا قدر، وقار بلند ہورہا ہے۔ صحافی تو ہر حال میں صحافی ہیں۔ ایوارڈ دو یا نہ دو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ مومنٹوز شال، گلپوشی اپنی جگہ وہی پیسہ ہندوستان بھر کے مستحق صحافیوں کو مالی امداد کے طور پر خرچ کیا جائے۔ ورنہ جشن کے نام پر چندے اکٹھا کرکے شخصی شہرت حاصل کرنے والے بہت ہیں۔ اس سے نہ تو اردو صحافت اور نہ ہی اردو صحافیوں کو کوئی فائدہ پہنچنے والا ہے۔ میری اس تحریر کا مقصد کسی کی دل آزادی، کسی پر تنقید ہرگز نہیں ہے۔ جو حقائق ہیں‘ میرے اپنے جو مشاہدات و تجربات ہیں‘ اس کی روشنی میں میں نے یہ باتیں لکھی ہیں۔

کاٹ دینا زباں میری‘ سچ تو مگر کہنے دو

چپ رہا تو میرا احساس بھی مجھے کوسے گا

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com