حماد غزالی
رب ذوالجلال جوکائنات ارض وسما کا خالق ومالک اور ناصرہے، اس نےاس دنیائےرنگ و بو میں بے شمار مخلوقات تخلیق کی ہیں؛ لیکن جو افضلیت حضرت انسان کو عطاکی یقینا وہ بے مثال ہے، اس نے انسان کواپناخلیفہ مقررکیا، آسمان و زمین کاوجود بھی انسان ہی کےلیے ہواـ اس میں موجو اشیاء انسان کے ہی مفادکےلیے پیدافرمائیں، اس نے اپنی سب سےاچھی کتاب قرآن کریم اور سب سےمکرم نبی حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ وسلم کومبعوث فرمایا، اس نے اخلاقیات کی بھی تعلیم دی، اس نےایک دوسرےکی مددونصرت کی بھی فضیلت واہمیت بتائی، ایک دوسرے کا اکرام کرنے کی بھی تاکید کی،ایثار وقربانی کی تشریح وتوضیح بھی بتلائی کہ “اپنی ضرورت وحاجت پر دوسروں کی ضرورت کو ترجیح دو”، جودوسخاکی حقیقت بھی بیان کی کہ اللہ کی راہ میں مسکینوں، یتیموں، بیواؤں، حاجت مندوں کےمابین حددرجہ خرچ کرناـ اخلاق فاضلہ میں جود و سخا کو سب سےاعلی وافضل صفت قرار دیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس کوئی چیزہوتی توسائل کودےدیتے ـ اگرنہ ہوتی توغمخواری کےلہجےمیں تسلی دیکر معذرت کرلیتے اور اس سے وعدہ کرلیتےکہ آیندہ کچھ آئے گا تو اس میں سے تم کو دیا جائے گا ـ
حضرت انس رضی اللہ عنہ سےمروی ہےکہ ایک موقع پرایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس حاضرہوا اور کہاکہ اس وادی میں جو بکریوں کاریوڑہےمجھےدےدیجیے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےبلاتأمل اس شخص کوعطاکردیا، وہ شخص اپنی قوم میں پہنچ کرکہنے لگا لوگو! اسلام قبول کرلو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسےفیاض ہیں کہ تم کو اپنی محتاجی وافلاس کا کوئی امدیشہ نہ ہوگا ـ ایک روایت میں ہےکہ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس ایک سائل آیا،اس وقت ایک کھجور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس تھی، آپ نےاسے عطاکردی ـ وہ کہنےلگا اللہ کےرسول سے ایک کھجور؟ اس پرآپ صلی علیہ وسلم ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاکوپیغام بھیجاکہ وہ چالیس درہم جوتیرےپاس پڑےہیں، میرپاس بھیج دوانہوں نےوہ درہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبھیجے تو وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےسائل کودےدیا ـ
جودوسخاکی ترغیب کےساتھ ساتھ ساتھ اسکے طریقہ کار کی طرف بھی توجہ دلائی کہ دینےوالاایسےطور پردےکہ لینےوالے کو توہین وحقارت محسوس نہ، مزیدیہ کہ کوئی شخص ناموری اورواہ واہی کےلیے بھی یہ عمل انجام نہ دےـ نہیں تواس کاانجام کچھ اورہوگا، ان تمام ترغیبات و ترہیبات اور اسکے طریقہ کار کے آشکارا ہونے کے باوجود ان احکامات کی پامالی حددرجہ ہورہی ہے جوکہ ایک المیہ سے کم نہیں، ہندوستان اور دیگرملکوں کی رفاہی تنظمیں،غریبوں، یتیموں، بیواؤں اور مسکینوں کاحوالہ دےکر خطیر رقم وصول کرتی ہیں، لیکن صحیح مصرف میں ان رقومات کا استعمال نہیں ہوتاہے، بہت سی تنظیمیں موسم سرما کے موقع پر دوچار دس ایسے لحاف یاکمبل تقسیم کرتی ہیں، جوایک چادرکی ٹھنڈدورکرنےمیں بھی ناکام رہتےہیں، بہت سی جگہوں پردسیوں سال پرانے استعمال شدہ لحاف اور دیگر سردی کےکپڑے تقسیم کیے جاتےہیں اور قابل استعمال اشیاکوالماریوں میں محفوظ کردیاجاتاہے، عموما واہ واہی اوراخبارات کی سرخیوں پرقابض ہونےکی خاطریہ عمل انجام دیتےہیں، جب بھی کوئی تنظیم یاپارٹی کچھ تقسیم کرتی ہے تو اس کامعیارپہلےسےطےشدہ ہوتاہے کہ اس کی تعداد کیاہوگی؟کتنےافرادکوعطیات دیےجائیں گے خاکہ کچھ اورہوتاہے؛ لیکن اعلان عمومی ہوتاہے جس سےبہت سے حاجت مندوں کی دل شکنی ہوتی ہے ـ بھیڑجمع ہوتی ہے لائن لگواتے ہیں اور اخبارات کےنمانئدے، و دیگر سرکردہ لیڈران وغیرہ کےلیے اسٹیج سجتاہے، وہ اپنی خدمات کی تفصیلات بیان کرتےہیں اور حاجت مند لائن میں لگےہوتے ہیں، تقسیم کے وقت توکسی کےحصہ میں وہ بوسیدہ کمبل آتاہے اور کسی کےحصہ میں کچھ بھی نہیں، اس طرح سےغریبوں کی غربت وحاجت کابھونڈامذاق اڑایاجاتاہے، جولوگ لائنوں میں کھڑے کرواتے ہیں خدانہ کرے انہیں ایسی صورت پیش آئے لیکن وہ اگریہ سوچ لیں کہ اگر ان معصوموں کی جگہ آج ہم لائن میں ہوتے تو ہمارے دل پرکیاگزرتی؟ حضورنےتوکہاکہ ایک دوسرے کی عزت و تکریم کرو لیکن یہاں معاملہ برعکس نظر آتا ہے کہ جب بھی کچھ معمولی اشیا تقسیم کی جاتی ہیں تو تقسیم شدہ اشیاسے زیادہ اس کی تشہیر اور غریبوں کی توہین کے لیے اسباب وذرائع کااستعمال کرتے ہیں، اخبارات اور ٹی وی پرنشرکرکےاپنی بڑائی اور غریبوں کی برائی عام کرتےہیں، جب بھی فلاحی ادارے امدادی کیمپ لگاتےہیں تویہ دیکھنےکوملتاہے کہ مددتوسو لوگوں کی جاتی ہے؛ لیکن تشہیر اصل تعداد سے زیادہ کی ہوتی ہے ـ اور ان امدادلینےوالوں کی غربت کاگواہزاروں لوگوں بناتےہیں ـ حضورنےفرمایاکہ جب تم صدقہ کروتو ایسےکروکہ ایک ہاتھ سےدوتودوسرے ہاتھ کواس کاعلم نہ ہو، اس حدیث کو تقریبا دل سےبھلادیاگیاہے جبکہ ہمیشہ یہ پیش نظررہناچاہیے کہ غریبوں کی مدداصل ہےنہ کہ اخبارات کے ذریعہ اپنی تشہیر اور تجارت کافروغ ـ اسی طرح سے اجتماعی شادیوں کاحال ہےکہ شادی کی خوشیاں انتطام کارہی چھین لیتےہیں، اجتماعی شادیاں ہوتی ہیں تو بڑےمنتظم اورسرمایہ دار رونق اسٹیج ہوتےہیں اور شادی کے جوڑے نیچے بیٹھتے ہیں، افسوس کہ ایسےموقع پروہ اپنی مجبوری کی بناشادی توکرتےہیں؛ لیکن شرم سے سرجھکاہوتاہے ـ
کاش! ذمہ داران اس پرغورکرتےاور آیندہ ان کےگھروالوں کوخرچ دےدیتے پھروہ اپنےاندازمیں اپنی خوشیاں مناتے، اگرایساکیاجائےگاتوعزت نفس بھی محفوظ رہےگی، واہ واہی اور دکھاوے کا وبال بھی جاتارہےگا اور حضرت عمر رض کی سنت بھی زندہ ہوجائے گی۔
(مضمون نگار ماہ نامہ نقوش حبیب ممبئی کے مدیر تحریر ہیں)