گاندھی کے بھارت اور گوڈسے کے ہندواستھان میں تصادم

مولانا عبد الحمید نعمانی 

آج کی تاریخ میں گاندھی کے بھارت اور گوڈ سے کے ہندو راشٹر میں زبردست ٹکراؤ چل رہا ہے ، گوڈ سے بسااوقات حاوی ہوتا نظر آتا ہے ۔ لیکن گوڈ سے کے اثرات کو ختم کرنے کی کوشش تکثیری سماج کے حامل بھارت کے حق میں ہے ۔ گوڈسے اور دیگر برہمن وادیوں، کی راہ میں گاندھی جی اوران کا فکرو عمل بڑی رکاوٹ رہی ہے ، ان کی فرقہ پرستی اور مسلمانوں کو اول نمبر کا دشمن کہنے اور دلت تحریکات کے رخ کو موڑنے اور بے اثر کرنے کے پس پشت کئی طرح کے اسباب ہیں ، ان کا تاریخی ، سماجی اور سیاسی تناظر میں بہتر تجزیہ و مطالعہ کی ضرورت ہے ۔ اس سے حال کے فرقہ وارانہ کھیل کو سمجھنے میں بڑی مدد ملے گی ، آج کا بڑا معاملہ یہ نہیں ہے کہ گوڈ سے نے گاندھی کو مارا تھا بلکہ بڑاسوال یہ ہے کہ گوڈ سے نے گاندھی کو کیوں مارا تھا؟ اگر اصل سوال کا صحیح جواب مل جائے تو تقریباً تمام ہندو تو وادی گوڈسے کے ساتھ اور گاندھی کے خلاف اور الگ نظر آتے ہیں ، لیکن چالاکی اور منافقت یہ ہے کہ نام گاندھی کا لیا جا تا ہے اور کام گوڈ سے کا کیا جا رہا ہے ، اگر گوڈ سے کے عدالت اور دیگر مواقع پر دیے بیانات اور اعتراضات کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ گوڈ سے کے مسلمانوں کے متعلق اور گاندھی کے سلسلے کے تمام الزامات و اعتراضات وہی ہیں جو آر، ایس ایس ، بی ،جے پی اور دیگر ہندو تووادی عناصر عائد کرتے ہیں ، گوڈ سے اور ہندو تو وادی لوگوں کے طرز فکر و عمل میں کوئی زبادہ فرق و اختلاف نہیں ہے ، یتی نر سنہا نند جیسے انتہا پسند کم عقل کھلے عام گوڈ سے (ساورکر) کو اپنا آدرش مانتے ہیں ، لیکن جو آئین ہند کے سایہ میں اقتدار کا سکھ ،شکتی سے جڑے رہنا چاہتے ہیں وہ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرنے کے بجائے منافقت سے کام لیتے ہوئے گاندھی کے نام پر امن کو مسترد کرتے ہوئے گوڈ سے کی راہ پر سعادت مندی سے گامزن ہیں ، یہ سنگین معاملہ دیس کو کمزور کرنے اور غلط سمت میں لے جانے والا ہے ، رام ، ہنومان کے نام پر نفرت انگیز ماحول سازی سے کسی سیاسی پارٹی کو کچھ فوائد یقینا مل رہے ہیں ، لیکن بھارت اور اس کے تکثیری معاشرہ کا انہدام ، ناقابل تلافی اجتماعی نقصان ہے ، گاندھی کے بھارت اور گوڈ سے ، گولولکر کے “ہندواستھان” میں کھلا تضاد و تصادم ہے ، گاندھی جی نے تسلسل کے ساتھ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ہندو مسلم کے درمیان بہتر تعلقات پر مبنی اپنے خوابوں کے بھارت بنانے پر زور دیا ہے ، آزادی کے پہلے ، آزادی کے دوران اور آزادی کے بعد بھی انھوں نے رد عمل فرقہ پرستی اور کسی ایک فرقہ ، مذہب کا بھارت بنانے کی کوششوں کو غلط اوربُرے خواب سے تعبیر کیا ہے ۔اقلیتوں اور کمزورں کی حمایت و تائید، ان کے نزدیک ، خوشامد پسندی اور بے جا طرف داری نہیں بلکہ انصاف پسندی اور حق پر ستی کا ثبوت و اظہار ہے ،گاندھی جی نے اپنے سپنوں کے بھارت، فرقہ وارانہ اتحاد اور عدم تشدد پر بہت تفصیل سے لکھا بولا ہے ، اس حوالے سے گاندھی جی عالمی حیثیت اختیار کرچکے ہیں ، دنیا کے تمام ممالک کے سامنے اور وہاں سے بھارت میں آنے والی قابل ذکر شخصیات کے سامنے انھیں پیش کیا جاتا ہے ، آر، ایس ایس اور بی، جے پی کے لیے اس کے سوا کوئی متبادل نہیں ہے ، ساورکر ، گوڈ سے ، گولولکر میں سے کسی کو ابھی تک ملک کے تکثیری معاشرے اور دنیا کے سامنے لانے کی ہمت و جرات نہیں ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ بھارت کو گوڈ سے ، گولولکر کا “ہندواستھان” بنانے کی پوری پوری کوشش کی جارہی ہے ، گاندھی جی نے کہا ہے “ہم میں سے بعض خدائے رحیم کی بے حرمتی کر رہے ہیں اور مذہب کے نام پر وحشیانہ حرکات کے مرتکب ہور ہے ہیں ، میں جانتا ہوں کہ نہ تو قتل و خوں ریزی اور نہ برادر کشی, کسی مذہب کی حفاظت کرسکتی ہے ، جو مذہب ، مذہب کہے جانے کے قابل ہو گا ، اس کی حفاظت ، صرف پاکیزگی نفس ، انکساری اور بے خوفی سے ہی کی جاسکتی ہے ، کوئی سمجھوتا جو ان شرطوں سے آزاد ہو، محض ایک دفع۔ الوقتی ہوگا۔( ینگ انڈیا ۔ 16جون 1927)

ایک اور موقع پر گاندھی جی نے کہا تھا ,”جہاں تک مجھے معلوم ہے تقریباً135 مساجد توڑی گئی ہیں ، ان میں سے بعض کو مندر بنا لیا گیا ہے ۔ ایک مسجد کناٹ پلیس کے پاس ہے جو کسی کے نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی ہے ، اس پر ایک سہ رنگی جھنڈا اڑ رہا ہے ، اس میں ایک بت رکھ کر مندر بنایا گیا ہے ، میں مساجد کی ایسی تمام بے حرمتی کو ہندو دھرم پر ایک دھبہ سمجھتا ہوں”۔ (جریدہ ہریجن ،30نومبر 1947ء)

تمام ہندتووادی اس طرح کے معاملات میں گاندھی جی کے بر خلاف ، ناتھو رام گوڈسے کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں ،گرچہ سب کے سب گوڈسے کا نام نہیں لیتے ہیں ، ان میں سے بڑی تعداد آر ، ایس ایس اور بی ، جے پی میں شامل ہیں ، گاندھی کا نام لیتے ہیں،یہ محض اپنے غلط کاموں پر پردہ ڈالنے کے لیے ہے ۔ جب کہ کام اصلاًگوڈ سے کا کیا جاتا ہے ۔ آر، ایس ایس اور بی ، جے پی والوں میں اخلاقی جرات اور دیانت داری کی بڑی کمی ہے کہ وہ کھل کر گوڈ سے ، گولولکر ، ساورکر کا گاندھی جی کے مقابلے میں نام نہیں لیتے ہیں اور گاندھی سے خود کو جوڑکر پیش کر تے ہیں ، ان کا چرخہ ، چشمہ اور سابر متی آشرم پوری دنیا کو دکھایا جاتا ہے لیکن ان کے سپنوں کے بھارت کے بر خلاف “ہندواستھان” کی تشکیل کے لیے ہر ممکن طریقے استعمال کیے جارہے ہیں، اسلام اور مسلمانوں کو الگ کر کے جو بھارت بنانے کی راہ ہموار کی جارہی ہے ، اس کا گاندھی اور تکثیری معاشرے کے حامل سب کے بھارت سے کوئی تعلق نہیں ہے ، یہ کچھ مراٹھی فرقہ پرست برہمن وادیوں کی خواہشوں ، امنگوں کے مطابق شرمناک پیشوا راج کی واپسی اور اس میں پورے بھارت کو بدلنے کے کھیل کا حصہ ہے ، اس کھیل کی راہ میں گاندھی جی سب سے بڑی رکاوٹ ہے ، اس رکاوٹ کو دور کرنے کی کوششیں کئی سطحوں پر شروع کی گئیں ، پہلے تو ان کی حیثیت ختم کرنے اور اکثریت میں نفرت پھیلانے کی مہم کاآغاز کیا گیا ، اس سلسلے میں نہرو اور سیکولر سوچ کے دیگر لیڈروں کو نشانے پر رکھا گیا ، گاندھی جی کے سکریٹری پیارے لال نے “مہاتما گاندھی دی لاسٹ فیز” میں لکھا ہے کہ نوجوانوں کے ذہن کو تیار کرنے کے لیے گاندھی جی کے ساتھ نہرو اور دیگر کانگریسی لیڈروں کی تصویریں ان کے جوتوں میں رکھوائی جاتی تھیں ۔ (دیکھیں کتاب کی جلد دوم صفحہ914 مطبوعہ نوجیون پبلیشنگ ہاؤس احمد آباد 1958)

پھر اگلے قدم کے طور پر گاندھی جی کو قتل کر دیا گیا ۔ اس سے پہلے بھی کئی جان لیوا حملے کیے جا چکے تھے ، اگر گوڈ سے اور آج کے ہندو تو وادیوں کے الزامات دیکھیں تو دونوں میں بڑی مماثلت نظر آتی ہے ، اس صورت حال کو بدلنا تمام انصاف پسند اور اخوت و مساوات نواز ہندستانیوں کی ذمہ داری ہے ۔ اگر گاندھی کے سپنوں کے بھارت، سب کے بھارت کو گوڈ سے ، گولولکر کے ہندواستھان میں بدلنے سے نہیں روکا گیا تو ان لوگوں کے ہاتھوں بھارت یر غمال ہو کر بد صورت ہوجائے گا جن کا آزاد بھارت کی تعمیر و تشکیل میں کوئی حصہ نہیں رہا ہے ۔

nouman.aum@gmail.com

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com