غریبوں کے ’ خوابوں ‘ کو بلڈوزر سے مت اجاڑیے صاحب! بڑی محنت سے بنتے ہیں یہ آشیانے

بھرت ڈوگرا

شہروں کی جھگی جھونپڑی پالیسی پر جب بھی دلائل اور دانشمندی پر مبنی تحقیق ہوئی ہے، یہی بات سامنے رکھی گئی ہے کہ سلم بستیوں و جھونپڑ پٹیوں کو اجاڑا نہ جائے، بلکہ ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے اسی جگہ پر ترقیاتی کام کر یہاں رہنے لائق حالات پیدا کیے جائیں۔ پانی و صاف صفائی جیسی بنیادی ضرورتیں پورا کرنے کے ساتھ یہاں و آس پاس کے نزدیکی علاقے میں ہریالی کو بھی بڑھانا چاہیے۔

اسی طرح غیر رسمی اور چھوٹی سطح کے روزگاروں پر ہوئے مطالعوں نے بتایا ہے کہ چھوٹی دکانوں، ٹھیلیوں، کھوکوں، ریہڑیوں، ٹی اسٹال و ڈھابوں سے چلنے والے روزگاروں کی حفاظت ہونی چاہیے اور اس حفاظت کے موافق ہی پالیسیاں اختیار کی جانی چاہئیں۔ ویسے تو ایسی پالیسیاں عموماً سبھی وقت کے لیے ہونی چاہئیں، لیکن حال کے وقت میں ایسے غریب طبقہ کا ساتھ دینے والی پالیسیوں کی ضرورت تین اسباب کی بنا پر بڑھ گئی ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ کووڈ اور اس سے جڑے لاک ڈاؤن کے دور میں ویسے ہی لوگوں کی پریشانیاں بڑھی ہوئی ہیں۔ ساتھ ہی مہنگائی اور یوکرین جنگ کے بعد پیدا حالات نے غریبوں، مزدوروں و چھوٹے صنعت کاروں کی پریشانیوں کو مزید بڑھا دیا ہے۔

ظاہر ہے ان حالات میں شہروں و قصبوں میں رہائش یا ذریعہ معاش کے وسائل کی توڑ پھوڑ کی کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔ اس شدید گرمی میں تو یہ مزید نامناسب معلوم پڑتا ہے۔ اس کے باوجود ایسے دور میں ہی کچھ وقت پہلے چنڈی گڑھ میں ایک ہی دن میں تقریباً 5000 لوگوں کو بستی توڑ کر بے گھر کر دیا گیا، جب کہ وہ تقریباً 40 سال پہلے بسی بستی میں رہ رہے تھے۔

اسی وقت دہلی میں بھی کئی مقامات پر توڑ پھوڑ کی کارروائی شروع ہو گئی ہے۔ گزشتہ سال بھی گرمی کے دنوں میں بہت بڑی توڑ پھوڑ کی کارروائی فرید آباد میں ہوئی تھی۔ یہ وقت غریب طبقہ اور شہری ضرورت مندوں کی مدد کا ہے، ان کی پریشانیاں بڑھانے کا نہیں۔ کئی طرح کے مشکل حالات کے درمیان اپنی محبت و ہنر کی طاقت پر لوگوں نے اپنے روزگار بنائے ہوئے ہیں، وہ اپنے سر پر چھت کا کچھ انتظام کیا ہوا ہے۔ جو حکومت اس سے بہتر زندگی کا انتظام ان محنت کشوں کے لیے نہیں کر سکتی ہے، اسے کوئی حق نہیں ہے کہ اتنی پریشانی کے بعد لوگوں نے اپنے جو انتظام خود کیے ہیں، اسے وہ تہس نہس کرے۔

اس لیے جگہ جگہ بڑھ رہی، کئی شہروں کو برباد کر رہی توڑ پھوڑ کی کارروائیوں پر روک لگنی چاہیے۔ ہاں، اگر خاص حالات میں کسی تجاوزات کو ہٹانا بہت ضروری ہو جاتا ہے تو ایسے حالات میں پہلے مناسب اور منصفانہ باز آبادکاری کا انتظام سبھی متاثرہ اشخاص یا کنبوں کے لیے ہونا چاہیے اور اس کے بعد ہی تجاوزات ہٹانے کی کارروائی ہونی چاہیے۔

مختلف مطالعوں میں یہ سامنے آ رہا ہے کہ شہری بے روزگاروں کا مسئلہ سنگین ہو رہا ہے، اور مختلف شہروں میں بے گھر لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس لیے جب یہ مسائل پہلے ہی سنگین ہو رہے ہیں تو ان کی سنگینی کو بڑھانے والی کارروائی سے حکومت کو بچنا چاہیے۔ عموماً کئی مقامات پر دیکھا گیا ہے کہ جن لوگوں کے ذریعہ معاش کو تباہ کر کے انھیں بے روزگاری کی طرف دھکیلا جاتا ہے وہ کئی بار دھیرے دھیرے بے گھری کی حالت میں آ جاتے ہیں۔ دوسری طرف گھر ٹوٹنے سے لوگ بے گھر بنتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی اور برعکس موسم کے اس دور میں دنیا بھر میں یہ کہا جا رہا ہے کہ بے گھر لوگوں کے مسائل خصوصی طور پر زیادہ ہوں گے۔ ان حالات میں اگر حکومت لوگوں کو بے گھر بنانے کی کارروائی کرتی ہے تو یہ بہت نامناسب ہے اور اس پالیسی کو بدلنا چاہیے۔

(بشکریہ قومی آواز) 

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com