خواتین بھی افتا کی تعلیم حاصل کریں
پٹنہ: (پریس ریلیز) آج یکم زوم ایپ پر”تعلیمی آغاز“کے عنوان سے ایک ویبنارمنعقدہواجس کی صدارت مولانا انیس الرحمن قاسمی قومی نائب صدرآل انڈیاملی کونسل وچیئرمین ابولکلام ریسرچ فاؤنڈیشن نے کی،انہوں نے اپنے خطاب میں فرمایاکہ علوم اسلامیہ میں کتاب اللہ،سنت رسول اللہ کے بعدفقہ اسلامی کی خاص اہمیت ہے،بنیادی طورپرفقہ میں کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ میں گہرے غوروفکرکے بعدمجتہدانہ نگاہ سے مسائل کااستنباط کیاجاتاہے۔عہدنبوی سے لے کرآج تک فقہ میں مہارت رکھنے والوں کی ایک معتدہ جماعت ہردورمیں رہی ہے۔اورعوام وخواص اپنے مسائل کے حل کے لیے ان کی طرف رجوع کرتے رہے ہیں۔صحابہ کرام میں کچھ افراداپنے فہم وفراست اورذکاوت وذہانت میں ممتازتھے اوروہ کتاب وسنت سے مسائل استنباط کرتے تھے۔ان کی تعداد130سے زیادہ تھی۔ان میں سے 9افرادایسے تھے جن سے بکثرت فتاویٰ منقول ہیں۔ان میں حضرت عمربن خطاب،حضرت علی ابن ابی طالب،حضرت عبداللہ بن مسعود،ام المومنین حضرت عائشہ،حضرت عبداللہ بن عباس،حضرت عبداللہ بن عمر،حضرت زیداورحضرت ابودرداء رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں۔جس طرح صحابہ میں مردحضرات فتوے دیتے تھے،اسی طرح خواتین بھی فتوے دیاکرتی تھیں۔ان میں خاص طورپرام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی عنہاکے فتاوی کثرت سے منقول ہیں جوہمارے لیے اسوہ ہیں۔اس لیے موجودہ دورمیں بھی خواتین کوآن لائن افتاکے درس سے فائدہ اٹھاناچاہئے،مفتی ارشدفاروقی صاحب بانی المعہدالعالی للدراسات الاسلامیۃ،دیوبندسے گزارش ہے کہ وہ آن لائن افتاکے کورس میں خواتین کی تعلیم کابھی انتظام کریں،تاکہ ایسی خواتین جوباضابطہ مستنددینی مدارس سے فضیلت کی ہوئی ہوں۔اورفقہ میں ان کوخاص مناسبت ہو۔وہ اس سے فائدہ اٹھاسکیں۔مولانا قاسمی نے اپنے صدارتی خطاب میں مزیدکہاکہ جب بھی کسی عالم یامفتی سے سوال ہوتو ضروری نہیں ہے کہ وہ فوراًجواب دے،بلکہ سوال کوصحیح طورپرسمجھ کراس کاجواب دے،اورجواب فوری طورپرمعلوم نہ ہوتوکتابوں کی طرف رجوع کریں اورپھرمسائل کوبتائیں۔خودحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ بعض ایسے سوالات بھی آپ سے کئے گئے جن کاجواب آ پ کو معلوم نہیں تھا۔ چنانچہ آپ نے توقف فرمایا،پھر فوراً جبریل امین علیہ السلام حاضر خدمت ہوئے آپ نے ان کے سامنے سوال پیش کرکے جواب طلب کیا،مگر روح الامینؑ بھی بول اٹھے کہ اس سوال کے جواب میں میراحال آپ جیسا ہی ہے اور پھر کہنے لگے ”آپ انتظار فرمائیں،میں ابھی رب ذوالجلال کی بارگا ہ سے جواب لیکر حاضرہوتاہوں‘۔
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک یہودی عالم خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو ا اوراس نے آپ سے پوچھا”أی البقاع خیر؟“کونساخطہئ ارض بہتر ہے؟یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے،اور فرمایا: میری یہ خاموشی اس وقت تک ہے جب تک روح الامین تشریف نہ لے آئیں، اتنے میں فوراًحضرت جبریلؑ خدمت اقد س میں حاضر ہوئے،آپ نے ان کے سامنے یہ سوال پیش کیااور دریافت کیا اس کا جواب کیادیا جائے؟حضرت جبرئیلؑ نے آپ کے سوال کے جواب میں عرض کیا: ”ما المسؤل عنھا بأعلم من السائل ولکن أسأل ربی تبارک وتعالیٰ“۔(۱)جس سے پوچھا جارہاہے وہ اس مسئلہ میں پوچھنے والے سے کچھ زیادہ نہیں جانتا لیکن میں پروردگار عالم بزرگ وبر ترسے پوچھتاہوں۔یہ کہہ کر حضرت جبرئیلؑ روانہ ہوگئے پھر تھوڑی دیربعد تشریف لے آئے اورکہنے لگے آج میں رب العزت سے اس قدر قریب ہواجتنا کبھی نہیں ہواتھا،آپ نے پوچھا اس کی نوعیت کیاتھی؟ کہا: میرے اور میرے رب کے درمیان صرف ستر ہزار نوری پردے پڑے ہوئے تھے، پھر جو سوال کیاگیا تھا اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا جواب نقل کیاکہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے:”شرالبقاع أسواقھا وخیرالبقاع مساجدھا“۔رواہ ابن حبان فی صحیحہ عن ابن عمررضی اللّٰہ عنہما (أیضاً)۔(۲)زمین کابدتر حصہ اس کے بازار ہیں اور بہترین حصہ اس کی مسجد یں۔
اس حدیث سے معلوم ہواکہ ہر سوال کا جواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معلو م نہیں ہوتا تھا لیکن جواب بحیثیت رسول آپ کے ذمہ ضروری تھالہذاآپ حضرت جبرئیل امینؑ کے ذریعہ جواب معلوم کرتے اورپھرسائل کوجواب مرحمت فرماتے۔مولاناقاسمی نے مفتی محمدارشدفاروقی اورطلبہ کومبارکبادپیش کی اوران سے کہاکہ پورے سال محنت سے افتاکی تعلیم حاصل کریں۔آج آن لائن تعلیم کے آغازکے موقع پراس ویبنارمیں مولانااشرف ڈوکرات، مولاناخالداعظمی،مفتی سعیدالرحمن فاروقی اور مولانا ولی اللہ مجیدقاسمی نے خطاب کیا اور افتااورآن لائن کے اوپرروشنی ڈالی، ان سب حضرات نے مفتی ارشدفاروقی صاحب مبارک بادبھی پیش کی۔