رب العٰلمین کے غلام اور رحمت اللعٰلمین کے امتی تنگ دل اور تنگ ذہن نہیں ہوسکتے
عبدالغفار صدیقی
بھارت میں اسلام کی آمد کئی راستوں سے ہوئی ۔ ان میں تصوف، تجارت اورفوج قابل ذکر ہیں ۔ ملک میں صحابہ کرام کی آمد کے ثبوت بھی موجود ہیں ۔لیکن یہاں باقاعدہ اسلام کی تعلیم کا نظم کسی کی جانب سے نہیں کیا گیا۔ صوفیاء محبت و یگانگت سے دلوں کو موہ کرتے رہے ،بھارت آنے والے مسلمان تاجر اپنے حسن معاملہ سے دین کی اشاعت کا ذریعے بنے لیکن مسلمان بادشاہ اپنی حکومت کو وسعت دینے میں مصروف رہے۔خانقاہی نظام اور بعد میں مدارس کے ذریعے جس تعلیم کا نظم کیا گیا اس میں ایک طرف ذکر اللہ ہو تھا اور اور دوسری طرف فقہی اور مسلکی مناظرے تھے ،اسلام کا صحیح تصور اورقرآن و حدیث کی روشنی میں اسلام کی مکمل تعلیم کا کوئی اجتماعی نظم نہیں بن سکا، البتہ انفرادی طور پر کچھ کوششیں ہوتی رہی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اسلام کا ماخذ قرآن و حدیث کے بجائے فقہ ، بزرگوں کے واقعات اور علماءو ائمہ کی آراء قرار پایا۔ آج بھی کسی دارالعلوم سے فتویٰ معلوم کیجیے تو وہ قرآن و حدیث کے بجائے فقہی کتابوں کے حوالے سے سائل کا جواب دیں گے ۔ جب کہ انھیں فردوہ الی اللہ والرسول (نساء59) یعنی متنازعہ معاملات میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا تھا ۔اس کا نقصان یہ ہوا کہ بھارت میں اسلام ایک معمہ بن گیا ۔اسلام کی صحیح تعلیم سے اکثریت نا آشنا رہی اور برادران وطن کو اسلام میں کوئی جاذبیت نظر نہیں آئی ۔بلکہ وہ اسلام کو اپنے لیے خطرہ محسوس کرنے لگے۔
برادران وطن یعنی ہندوؤں کے تعلق سے قرآن و حدیث کی تعلیم کچھ او رہیں اور مسلمانوں کے علماء اور ائمہ کے فتاوے کچھ اور کہتے ہیں۔ مجھے ان کے فتووں کو پڑھ کر اور ان کی تقریریں سن کر افسوس ہوتا ہے کہ رب العٰلمین کی بندے اور رحمۃ اللعٰلمین کے امتی اس قدر تنگ دل کیسے ہوسکتے ہیں کہ وہ کسی غیر مسلم کی خوشی اور غم میں شرکت کو گناہ سمجھتے ہوں ،انھیں سلام کرنے سے ان کا دین خطرے میں آجاتا ہو، ان کی عیادت کرنے ، انھیں دعائیں دینے ، ان کی تعزیت کرنے اور ان کی تکریم کرنے سے وہ خدا کی رحمتوں سے دور ہوجاتے ہوں ۔ جو پروردگار اپنے جلیل القدر پیغمبر سیدنا ابراہیم ؑ کی دعا”اے میرے رب اسے (مکہ) امن کا شہر بنا دے اور اس کے رہنے و الوں میں سے جو کوئی اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے ان کو پھلوں سے رزق دے “ کے جواب میں ارشاد فرماتا ہے ” اور جو کافر ہوگا سو اسے بھی تھوڑا سا فائدہ پہنچاؤں گا پھر اسے دوزخ کے عذاب میں دھکیل دوں گا، اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔“ (البقرہ۔126) وہ اپنے ایمان لانے والے بندوں کو کیسے یہ تعلیم دے سکتا ہے کہ وہ صرف اپنے لیے خیر کی دعا مانگیں ۔ اکثر ہمارے علماءدعائیں مانگتے ہوئے سارے انسانوں کے بجائے صرف مسلمانوں کے لیے دعا کرتے نظر آتے ہیں ۔
ہم اس بات پر فخر کریں کہ اسلام اخلاق کی تلوار سے پھیلا ،نبی اکرم ﷺ سارے انسانوں کی جانب رسول بن کر آئے ، وہ رحمۃ اللعٰلمین ہیں ۔لیکن ہم اپنے ہندو بھائیوں کے لیے اپنے دل میں کینہ کپٹ رکھیں، ان کی تباہی اور بربادی کے متمنی ہوں یہ کیسا اسلام ہے ،ہمارا نبی تو پتھر مارنے والوں کو دعائیں دے، کوڑا ڈالنے والے کی عیادت کرے،نفرت کرنے والوں کا بوجھ اٹھائے ،وہ غیر مسلموں کو اپنے دستر خوان پر بلائے ، خود بھی ان کی دعوت قبول کرے ، وہ ان کا جنازہ دیکھ کر کھڑا ہوجائے اور ساتھیوں کو بھی کھڑے ہونے کا حکم دے ،وہ پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتے وقت وضاحت کرے کہ چاہے وہ یہودی ہو یا نصرانی ،جو تحفہ اور ھدیہ دیتے وقت مذہب کی قید نہ لگائے ، بلکہ تھادوا تحابوا (تحائف کا لین دین کرو، محبت میں اضافہ ہوگا) کا عام حکم جاری کرے ۔ جو خود کسریٰ کے بھیجے ہوئے اور دوسرے غیر مسلم وفود کے لائے ہوئے تحائف قبول کرے ،جو فرمائے تصدقوا علیٰ اہل الادیان ”تمام اہل مذاہب پر صدقہ و خیرات کرو،“ جو غیرمسلم قیدیوں کو مسجد میں رکھے،ان سے مسلمانوں کو تعلیم دلوائے اور انھیں انسانی حقوق عطاکرے ،اس کے امتیوں کا حال یہ ہے کہ ان کی خوشی و غم میں شرکت اور ان کے تیوہاروں پر مبارکباد کا میسیج کرنے کو گناہ سمجھے ،لیکن عوام کا کیا قصور ہے ۔یہ تو آپ دارالعلوم کی ویب سائٹ پر فتاوے ملاحظہ کرکرسکتے ہیں ، مجھے معاف کیجیے گا ان فتاوں میں کہیں بھی کوئی دلیل قرآن و حدیث سے نہیں دی گئی ہے ۔
قرآن کریم میں وَلَقَد کَرَّمنَا بَنِیٓ اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی ہے (الاسراءآیت 70)کے حکم سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ آدم کی اولاد ہونے کے سبب سارے انسان قابل احترام ہیں ۔ ان کی عزت کرنا باعث ثواب اور ان کی توہین کرنا باعث عذاب ہے ،اس لیے کہ ان کی توہین اللہ کے حکم کی کھلی نافرمانی ہے ۔اسی آیت کے آخر میں یہ بھی فرمایا گیا” اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں فضیلت عطا کی۔“ یعنی انھیں دیگر مخلوقات پر فضیلت دی گئی ہے ۔ انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ حاصل ہے، البتہ مسلمان خیر امت ہیں ۔اس افضلیت کا تقاضا ہے کہ ہم انھیں دوسری مخلوقات سے بہتر سمجھیں، لیکن ہمارا رویہ ہے کہ ہم چائے ،دودھ اور کھانے میں مکھی ،مچھر گرجائے تو اسے کھالیتے ہیں ،بلی دودھ میں منھ ڈال دے تو ہم پی لیتے ہیں ،بہتے ہوئے دریا سے جنگلی جانور پانی پی لیں تب بھی وہ پانی پاک رہتا ہے لیکن غیرمسلم کا جھوٹا ناپاک سمجھا جاتا ہے ۔
مسلم سوسائٹی میںغیر مسلموں کو سلام کرنے پر بھی پابندی ہے ۔ جب کہ قرآن میں صاف صاف تعلیم دی گئی ہے ۔اور جب تمہیں کوئی سلام کرے تو تم اس سے بہترسلام کرو یا اس جیسا ہی کہو، بے شک اللہ ہر چیز کا حساب کرنے والا ہے۔ (نساء86) اس آیت میں سلام کرنے والے کو بہتر جواب دینے کی تلقین کی گئی ہے ۔ ہمارے معاشرے میںغیر مسلموں کو دعادینے پر پابندی ہے جب کہ سیرت رسول میں کئی واقعات ہیں جن میں آپ نے غیر مسلموں کے لیے دعا فرمائی ۔ کوڑا ڈالنے والی خاتون کی جب آپ نے عیادت فرمائی تھی تو کیا اسے بددعائیں دی تھیں؟ اگر آپ ایسا کرتے تو وہ کیوں آپ کی غلامی قبول کرتی ؟ اس کے علاوہ احمد بن حنبل ؒ نے اپنی مسند میں لکھا ہے کہ ”حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا رسالت مآب ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا، وہ بیمار ہوا تو آپ ﷺ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ اسی طرح آپ ﷺ بنو نجار کے ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے جو غیر مسلم تھا۔“ اب ظاہر ہے ان کی عیادت کے وقت آپ نے دعائے شفا اور رحمت کے سوا کیا دیا ہوگا ۔ اگر آپ لوگوں کو بدعائیں دیتے تو آپ کو قرآن تمام جہانوں کے لیے رحمت کیوں قرار دیتا۔اور مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ ”حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے پینے کی کوئی چیز طلب کی تو اس نے وہ پیش کی تو آپ ﷺ نے اسے دُعا دی کہ” اللہ تعالیٰ تمہیں حسین و جمیل رکھے“ چنانچہ مرتے وقت تک اس کے بال سیاہ رہے۔
معاف کیجیے گا اللہ کے دین اوراس وقت جس دین پر ہم عمل پیرا ہیں اس میں زمین اور آسمان کا فرق ہے ۔ہمیں اسلام کی صحیح تعلیم کی روشنی میں زندگی گزارنا چاہئے ،ہمارے علماء کو چاہئے کہ دینی سوالوں کے جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں دیں ۔نہ کہ اپنی لکھی ہوئی کتابوں سے ، عوام کو بھی ان سے سیرت رسول سے دلیل مانگنا چاہئے، ان کی اس بات سے مطمئن نہ ہوجانا چاہئے کہ یہ کتابیں بھی قرآن و حدیث سے لکھی گئی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کی سیرت اور آپ کی تعلیمات زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کرتی ہیں ،وقت کے پیغمبر کا ایک عمل بھی اس باب میں رہنما ہوتا ہے جس کی روشنی میں آگے کے معاملات طے کیے جاسکتے ہیں ۔ جن امور میں اسلام نے عمومیت رکھی ہے ان امور کو مسلمانوں کے ساتھ مخصوص مت کیجیے ۔ جب اللہ اپنی بنائی چیزیں سب کے لیے عام رکھتا ہے ،جب رسول کو ساری انسانیت کے لیے رسول بنایا جاتا ہے تو ہم کون ہیں جو اسلام کے فیض اور اپنی مہربانیوں سے دوسروں کو مستفید ہونے سے روکیں۔ میں آپ سے یہ نہیں کہتا کہ آپ غیرمسلموں کی خوشی و غم میں شرکت کرتے وقت اپنا مقام بھول جائیں، آپ داعی ہیں ، آپ کو دعوت دینے کے کسی بھی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔