تحریر: امجد حسین بن راشد حسین
متعلم: دارالعلوم دیوبند
موت و حیات کا کشمکش روز اول سے جاری ہے، ضابطہ حیات ہے جس کی آمد ہوئی، رفت بھی ہوگی، جس کی تشریف آوری ہوئی، اس کی رخصتی بھی ہوگی، روز کوئی نا کوئی اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے اور اپنے والدین سمیت اعزاء و اقارب کے لیے مسرت و شادمانی کا باعث بنتا ہے، اور روز کوئی نا کوئی اس دنیا سے آنکھ موند کر اپنی اولاد کو، دوست و احباب کو، رشتے داروں اور جان پہچان والوں کو روتا، بلکتا چھوڑ کر رب حقیقی سے ملاقات کے لیے سفر آخرت پر روانہ ہوجاتا ہے، لیکن بعض شخصیات، بعض ہستیاں اور بعض انسان ایسے ہوتے ہیں، جن کے رخصت ہونے کا غم سب کو ہوتا ہے، جن کی وداعی پر عام و خاص سب ہی آنسو بہاتے ہیں، جن کے اس دنیا سے چلے جانے پر بڑوں کو ایک فرماں بردار اور عزیز کی جدائی اور چھوٹوں کو ایک مشفق استاذ اور باپ کا سایہ سر سے اٹھ جانے کا احساس ہوتا ہے۔
آج بعد نماز عصر کمرہ پہنچا تو ایک رنجیدہ خاطر خبر سنی کہ حضرت الاستاذ مولانا سید نسیم اختر شاہ قیصر صاحب داعئی اجل کو لبیک کہہ گئے، اس خبر پر یقین کرنا میرے لیے مشکل ہی نا ممکن تھا کیوں کہ ابھی دو دن قبل جمعہ کو نو دس بجے تک غسل سے فارغ ہوکر حضرت الاستاذ کو میں نے کال ملائی، ریسیو کرتے ہی حضرت الاستاذ کا وہی بے تکلفانہ لہجہ کہ تم بھول ہی گئے، میں نے سراپا ندامت کے ساتھ آہستہ سے درِ دولت پر حاضری کی اجازت چاہی، مل گئی، میں حاضر خدمت ہوا تو حضرت نے فرمایا! بیٹھو، میں پائنتی میں بیٹھ گیا، ارشاد ہوا: پیر دبا دو، میں نے دبانا شروع کیا، حضرت الاستاذ کی ایک خاص بات یہ تھی کہ ان کی طرف سے کسی کام کا حکم ہوا اور وہ بے ڈھنگے طریقہ پر انجام دیا جارہا ہے تو انتہائی بے تکلفی سے فرماتے “ادھر آؤ بتاؤں کہ کیسے یہ کام ہوگا”، پیر دبانے کے وقت میرا بے ڈھنگا پن ظاہر ہوا حضرت نے فرمایا امجد! اپنا پیر دو اور خود اپنے ہاتھوں سے میرا پیر دباکر پیر دبانے کا طریقہ سکھایا اور کہا اب دباؤ، میں پیر دباتا رہا تقریباً پندرہ منٹ کے بعد ارشاد ہوا: اب جاؤ، میں واپس آگیا، اس سلسلہ کے بہت سے واقعات ہیں جو وہ خود کرکے بتاتے تھے۔گویا نہیں بلکہ واقعی اور قطعی وہ ایک بہترین مربی تھے۔
بھلا بتائیے! ایک شخص جن سے دو دن قبل آپ کی ملاقات ہوئی ہو، بالکل تندرست وصحیح سلامت ہو، ان کے کسی عمل اور کسی حرکت سے اس بات کا احساس نا ہو رہا ہو کہ دو دن بعد یہ شخص ہمیں الوداع کہہ سفر آخرت پر روانہ ہوجائے گا، کیسے یہ یقین ہوسکتا ہے؟ کہ وہ آج دو دن بعد اپنی جان قاصد اجل کے سپرد کرکے مالک کون و مکاں کے آغوش رحمت میں آرام فرمارہے ہیں۔
خیر! میں تیز تیز قدموں سے شاہ منزل کی طرف روانہ ہوا، وہاں پہنچتے ہی سارے شبہات رفع ہوگئے، شک یقین میں تبدیل ہوگیا، اور دل کو ماننا پڑا کہ حضرت الاستاذ اب اس دنیا میں نہیں رہے انا للہ و انا الیہ راجعون، یہ خبر ایسی پھیلی جیسے جنگل میں آگ، حضرت الاستاذ تقریباً دو مہینے سے کمر کے درد میں مبتلا تھے، اور مذکورہ ملاقات میں حضرت نے فرمایا تھا کہ صحت اب بہتری کی طرف مائل ہے، دعاؤں میں یاد رکھنا، میں وہیں کھڑا حضرت الاستاذ کے ساتھ یادگار لمحات میں گم تھا کہ جانشین خطیب الاسلام حضرت مولانا سفیان قاسمی صاحب مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند اور ان کے قابل فخر صاحبزادہ حضرت مولانا ڈاکٹر محمد شکیب قاسمی صاحب ڈایریکٹر حجۃ الاسلام اکیڈمی نائب مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند کی بغرض تعزیت تشریف آوری، چند لمحے ٹھہر کر میں واپس دارالعلوم آگیا۔
ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا
حضرت الاستاذ سے مجھے شرف تلمذ حاصل ہے، میں نے دارالعلوم وقف میں ترجمہ قرآن پڑھا، مرکز نوائے قلم میں داخل ہوکر قلم پکڑنا اور چار حرف لکھنا سیکھا، مزید برآں مجھے حضرت سے خاص تعلق تھا اور میرے لیے انتہائی شفیق تھے، یہ بھی ان ہی کی خصوصیت تھی حضرت الاستاذ سے دو تین دفعہ جو بھی مل لیتا، اپنے حق میں انتہائی مہربان اور شفیق پاتا۔۔۔۔
حضرت الاستاذ مولانا سید نسیم اختر شاہ قیصر صاحبؒ مشہور زمانہ ادیب مولانا ازہر شاہ قیصر کے فرزند ارجمند، خاتم المحدثین حضرت علامہ سید انور شاہ کشمیری کے پوتے، فخرالمحدثین حضرت مولانا سید انظر شاہ کشمیری کے بھتیجے ہونے کے ساتھ ساتھ خانوادہ انوری کے چشم و چراغ، مشہور انشاء پرداز، بہترین خاکہ نگار، تقریباً دو درجن مقبول چھوٹی بڑی ادبی کتابوں کے مصنف، دارالعلوم وقف کے ہر دلعزیز استاذ، طلبۂ کے تئیں مشفق، اساتذہ کے محبوب نظر، دیوبند اور دیوبند کے باہر ادبی حلقوں میں ممتاز ادیب، دوستوں کے درمیان بے تکلف دوست، انتہائی فیاض، بے نیاز، چاپلوسی و تملق سے متنفر، نہایت سادہ مزاج، پرکشش و دلآویز شخصیت کے مالک، بے جا تکلفات سے پرہیز، تصنع و بناوٹ سے دوری اور بھی بہت سی خصوصیات و صفات کے حامل تھے۔
حضرت الاستاذ مولانا سید نسیم اختر شاہ قیصر کا اصل نام نسیم شاہ اور قلمی نام نسیم اختر شاہ قیصر تھا، پیدائش دیوبند میں 25 اگست 1960 میں ہوئی، تعلیم از اول تا آخر دارالعلوم دیوبند سے حاصل کی۔ ادیب، ادیب ماہر، ادیب کامل اور معلم اردو جامعہ اردو علی گڑھ سے کیا۔ عالم دینیات، ماہر دینیات، فاضل دینیات جامعہ دینیات دیوبند سے کیا۔ اسلامیہ انٹر کالج دیوبند سے عصری تعلیم حاصل کی، ایم، اے، اردو آگرہ یونیورسٹی آگرہ سے کیا۔
جنوری 1973ء میں مضمون نگاری کا آغاز کیا اور حین حیات 1300 سے زائد دینی، علمی، فکری، ادبی، تحقیقی، شخصی، سماجی اور سیاسی مضامین، پچاس سے زائد کتابوں پر آراء، تقاریظ اور تأثرات قلم بند فرمائے۔ ماہنامہ “طیب” دیوبند، پندرہ روزہ “اشاعت حق” دیوبند، پندرہ روزہ “ندائے دارالعلوم” دیوبند، پندرہ روزہ “دیوبند ٹائمز” دیوبند جیسے ادبی اور مقبول رسالوں کے مدیر رہے۔ روزنامہ “ہندوستان ایکسپریس” دہلی، روزنامہ “ہمارا سماج” دہلی، روزنامہ “خبریں” دہلی جیسے مشہور اخبارات میں کئی سالوں تک مستقل کئی سالوں تک کالم لکھا۔ آل انڈیا ریڈیو دہلی کی اردو مجلس اور سروس سے بھی آپ کی نشریات مقبول خاص و عام رہی۔ ملک کے طول و عرض میں منعقد ہونے والے مختلف علمی، دینی، ادبی اور تعلیمی سمیناروں میں شرکت فرمائی۔ آپ کی تصانیف کی تعداد تقریباً بائیس ہے جس نے علمی و ادبی حلقوں میں خوب داد و تحسین حاصل کی ہے جن میں اہم کتابیں: “حرفِ تابندہ، سیرت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، واقعات کے آئینے میں، میرے عہد کے لوگ، جانے پہچانے لوگ، خوشبو جیسے لوگ، اپنے لوگ، کیا ہوئے یہ لوگ، میرے عہد کا دار العلوم، اکابر کا اختصاصی پہلو، وہ قومیں جن پر عذاب آیا، اسلام اور ہمارے اعمال، خطبات شاہی، مقبول تقریریں، جانشین امام العصر، شیخ انظر، اوراق شناسی، دو گوہر آبدار، اعمال صالحہ، سید محمد ازہر شاہ قیصر، ایک ادیب، ایک صحافی” ہیں۔ آپ کے تین فرزند عبید انور شاہ، عزیر انور شاہ، خبیب انور شاہ کے علاوہ صاحبزادیاں بھی ہیں۔
گونا گوں خصوصیات کے حامل خاندانی روایتوں کے امین و پاسدار، قابل پسر کے قابل فخر فرزند حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر صاحب اپنی اولاد سمیت سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں موجود آپ سے فیض یافتہ طلبۂ کرام، متعلقین اور محبین کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیش کے لیے رخصت ہوگئے۔
اللہ رب العزت حضرت الاستاذ کی مغفرت کاملہ فرمائے، ان کی لغزشوں کو معاف فرما کر ابدی آرام عطاء فرمائے اور آپ کے پسماندگان سمیت تمام محبین کو صبر جمیل کے ساتھ ساتھ راحت و سکون عطاء فرمائے ۔۔۔۔
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا