مدارس اسلامیہ کے سروے سے متعلق حقائق پر غور کریں اور ایک طرفہ فیصلہ نہ کریں!

مولانا محمد رحمانی مدنی

ہندوستان میں بڑے پیمانہ پرتعلیمی کارنامہ انجام دینے والے عالمی شہرت یافتہ ادارہ‘‘ابوالکلام آزاد اسلامک اویکننگ سنٹر، نئی دہلی کے صدر، اور سنٹر کے اعلیٰ تعلیمی واقامتی ادارہ جامعہ اسلامیہ سنابل کے رئیس نیز دہلی و بیرون دہلی لڑکوں اورلڑکیوں کے رہائشی وغیر رہائشی مدارس، مکاتب اور اسکولوں میں زیر تعلیم تقریباپانچ ہزار طلبہ وطالبات کے سرپرست مولانا عبدالحمید صاحب رحمانی رحمہ اللہ کے فرزند اور خلف الرشید مولانا محمد رحمانی سنابلی مدنی حفظہ اللہ نے یوپی کے مدارس اسلامیہ کا سروے اور اس وقت پورے ملک میں اس کے میڈیا ٹرائل اوربعض چینلوں پر غیر ضروری اورفضول بحث کے رد عمل میں مندرجہ ذیل پریس ریلیز جاری کی ہے اوراپیل کی ہے کہ اس طرح کے موضوعات کو زیادہ ہوا نہ دی جائے۔

مدار س اسلامیہ پر اتہامات کی حقیقت:

(۱) یوپی میں مدارس کے سروے اور آسام وغیرہ میں مدارس کے انہدام سے متعلق جو پالیسی اختیار کی جارہی ہے وہ یقینا بے چینی پیدا کرنے والی ہے ، بعض حضرات اس سروے کو بالکل ٹھیک اوردرست قرار دے رہے ہیں اوربعض اس کے خلاف ہیں جبکہ بعض افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے فوائد بھی ہیں اور نقصانات بھی ۔ اس سلسلہ میں واضح رہنا چاہیے کہ حکومت کا ایسے اقدامات سے اگر اصلاح کرنا مقصد ہے تو باقاعدہ پالیسی بنا کر گائیڈ لائن جاری کی جانی چاہیے اورانتباہ جاری کیا جانا چاہیے کہ ایک مدت میں مطلوبہ اصلاحات پر اگر مثبت اقدامات نہیں اُٹھائے گئے تو ملک اوراہل وطن کے مفاد کے مدنظر ایکشن لیا جاسکتا ہے ۔حکومت کا اس انداز سے اچانک صرف مدارس اسلامیہ کے لیے حرکت میں آجانا بے چینی کا باعث ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ مدارس اسلامیہ جن کے یہاں دستور اورنظام کی پاسداری نہیں ہے ان کی اصلاح خود مسلم قائدین کو آگے بڑھ کر کرنی چاہیے اور سخت اقدامات کرنے چاہیے اور ساتھ ہی حکومت کو دوسرے مذاہب کے تعلیمی اداروں کی اصلاح کے لیے بھی سروے اوردوسرے اقدامات کرنے چاہئیں کیوں کہ حکومت تمام مذاہب کا منتخب ڈھانچہ ہوتی ہے ۔ ایک بات یہ بھی ہمارے سامنے رہے کہ مدارس اسلامیہ جس پیغام کے نمائندہ ہیں اس پیغام کی پاکیزگی کا تقاضہ ہے کہ وہ زیادہ ذمہ داری اورامانت داری سے کام کریں۔

(۲) ہندوستان کے مدارس اسلامیہ کا پڑوسی ممالک کے بعض خاص ذھنیت کے افراد اوربعض ان مدارس سے قطعاً موازنہ نہیں کیا جانا چاہیے جن میں خوارج کی ذھنیت رکھنے والے بعض افراد کی جانب سے کبھی کچھ جذباتی اقدامات سامنے آتے ہیں، ہندوستان کے مدارس اسلامیہ سے متعلق پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ان میں ملک سے محبت اور ملک کی ترقی کا مکمل جذبہ موجود ہے ۔ یہ کسی بھی صورت میں شدت پسندی اورانتہا پسندی کے قریب بھی نہیں جاتے اورنہ ہی اس بات کا امکان ہے کہ ہندوستان کے ماحول میں ان میں کا کوئی بھی فرد انتہا پسندی (Extremism) کی طرف نکلے اورنہ ہی اس کا کوئی ثبوت پیش کیا جاسکتا ہے ۔ اگر کہیں ایک آد ایسے واقعات ثابت ہو بھی جائیں تو یہ کسی فرد اور شخص کا اپنا معاملہ ہوسکتا ہے جس کی بنیاد دین کی غلط تعبیر اورخوارج کے منہج سے متاثر ہونا ہوسکتا ہے ، مدارس اسلامیہ کا دستور اوروہاں دی جانے والی قرآن وسنت اورفہم صحابہ کی تعلیم اس کی کسی بھی قیمت پراجازت نہیں دے سکتے ۔اور یہ بھی واضح رہے کہ انتہا پسندی کی جانب نکل جانے کا یہ امکان دوسرے مذاہب کے افراد کے یہاں بھی موجود ہے اوراس کی بھی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

(۳) اس وقت مدارس اسلامیہ کے نصاب تعلیم کے خلاف بھی آواز اُٹھائی جارہی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملک کے تمام اہم مدارس جدید تعلیم سے ہم آہنگ ہیں اورجدید تعلیم کے ساتھ ساتھ ترجیحی طور پر شریعت اسلامیہ کے علوم کوپڑھاتے ہیں جوان کے قیام کا بنیادی مقصد ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اکثر مدارس اسلامیہ سے فراغت حاصل کرنےوالے طلبہ وطالبات مدارس کے معادلہ کی بنیادوں پر جب ملک کی نامور یونیورسٹیوں سے منسلک ہوتے ہیں تووہاں ان کا تعلیمی لحاظ سے بھی ممتاز مقام ہوتا ہے اور مدارس میں مذھب کی فطری تعلیم حاصل کرنے کی بنیاد پر اخلاقی مقام بھی دوسروں سے نمایاں اورممتاز ہوتا ہے جس کا سروے کرکے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

(۴) مدارس اسلامیہ سے متعلق ایک اعتراض یہ بھی اُٹھایا جارہا ہے کہ ان میں غیر مسلم ملازمت نہیں کرسکتے ، جبکہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مدارس میں غیر مسلموں کی ملازمت بہت کم تو ہوسکتی ہے لیکن ان میں جوبھی کام غیر مسلموں کے لیے ممکن اور مناسب ہیں وہ ان میں اپنے فرائض انجام دے سکتے ہیں اوراس کی بہت سی مثالیں بھی موجود ہیں ، جدید علوم کی تدریس کے لیے انہیں رکھا جاتا ہے ، دوسرے بعض کاموں کوبھی وہ انجام دیتے ہیں لیکن ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ مذھب کی بنیادپر جیسے ایک غیر مسلم مدارس کوترجیح نہیں دینا چاہتا ویسے ہی عموماً مسلمان بھی غیر مسلموں کے مذہبی تعلیمی اداروں میں ملازمت کوترجیح نہیں دینا چاہتے ، یہ انسان کا اپنا اختیار ہے ۔اور ملازمت کا یہ اوسط دونوں جانب یکساں بلکہ بیان کیے جانے کے برعکس ہی نظر آئے گا۔

مدارس اسلامیہ کی بعض خوبیاں اورکارنا مے:

 (۱) مدارس اسلامیہ کے کارناموں اوران کی خوبیوں پر اگرانصاف کے ساتھ روشنی ڈالی جائے تو سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ وطن عزیز کی آ زادی کی جنگ میں انہیں مدارس کے فارغین پیش پیش رہے۔ معروف مورخ تارا چند کے مطابق جنگ آزادی میں پانچ لاکھ سے زائد صرف علماء نے جام شہادت پیا، آخریہ علماء انہیں مدارس اسلامیہ ہی کے تو فارغ التحصیل تھے۔ انگریزوں کے خلاف سب سے پہلا جہاد کا فتویٰ میاں نذیرحسین محدث دہلوی رحمہ اللہ نے دیا ، جن کے اس وقت پوری دنیا میں بائس لاکھ شاگرد تھے اور یہ سب انہیں مدارس اسلامیہ سے منسلک تھے اور میاں صاحب کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد جنگ آزادی میں شہید کردی گئی ۔ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ تھے اور آج ہم جو تعلیمی پالیسیاں تیار کرنے والے ادارے اوربڑی بڑی یونیورسٹیاں دیکھ رہے ہیں یہ مولانا آزاد ہی کی کاوشوں کا ثمرہ ہے جس سے بلا تفریق مذہب ہرشخص بھر پور فائدہ اُٹھا رہا ہے ، یہ مولانا آزاد رحمہ اللہ اگر چہ کسی مدرسہ کے فارغ التحصیل نہیں تھے لیکن مدارس اسلامیہ کے نصاب کی تعلیم سے آراستہ اوراسی میدان کے شہسوار تھے، ابن رشد رحمہ اللہ جنہوں نے سرجری کے آلات ایجاد کیے اور ابن سینا جنہوں نے بے شمار وبائی اورخطرناک امراض کا علاج دریافت کیا وغیرہ وغیرہ بھی انہیں مدارس کے پروردہ تھے۔مدارس کے فارغین کے کارناموں کا تذکرہ کرنے کے لیے پورے دفاتر درکار ہیں اور آج بھی مدارس کے فارغین آئی اے ایس ، جے آرایف، آئی آئی ٹی اور دیگر اہم میدانوں میں نمایاں کامیابی کے ساتھ پہنچنے لگے ہیں۔

(۲) مدارس اسلامیہ کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ یہ ان علاقوں میں تعلیم کے فروغ پر کام کرنے کی تاریخ رکھتے ہیں جن علاقوں میں سرے سے تعلیمی سسٹم قائم ہی نہیں ہے، کھلے میدان میں ، درختوں کے نیچے اور ٹوٹی پھوٹی عمارتوں میں آج بھی یہ مدارس اپنے فرائض انجام دیتے ہیں اورجہاں مسلمانوں کے پاس امکانات ہیں وہاں شاندار انتظامات ، جدید دور کے تقاضوں کی تکمیل اور بہترین سسٹم اور اچھی تنخواہوں کے ساتھ بھی یہ مدارس اپنی پوری صلاحیت قوم کے نونہالوں پر صرف کرکے ماہرفن طلبہ کی کھیپ تیار کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ کم وسائل اورتنگی کے باوجود اورتعلیم کو تجارت بنائے بغیرقوم کے نونہالوں کے لیے اپنے کارنامے انجام دینے والےمدارس اسلامیہ کے علاوہ تعلیمی ادارے کم ہی نظر آئیں گے۔

(۳) مدارس اسلامیہ کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں غریب اورنادار بچوں کے لیے رہائش اور کھانے پینے کا انتظام اورحتی المقدور تمام ضروریات کا انتظام کرکے طلبہ وطالبات کو اس حدتک تعلیم فراہم کرادی جاتی ہے کہ ان کے لیے اعلیٰ تعلیم کا راستہ کھل جائے، اگر چہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مدارس اسلامیہ میں بڑے گھرانوں اورمالداروں کے بچے بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن غریب طلبہ کا یہ ا یک تنہا مرکز ہوتا ہے اگر مفت یا ہلکی پھلکی رمزی فیس کے عوض تعلیم کا انتظام یہ مدارس نہ کریں تو بہت سے مسلم بچے تعلیم سے بالکل ہی محروم رہ جائیں گے۔

(۴) برصغیر میں ایک عرصہ تک خواتین کی تعلیم کا رواج نہیں تھا، اقامتی درس گاہیں تو تقریبا مفقود تھیں، مدارس اسلامیہ نے خواتین میں بھی تعلیم کا شوق پیدا کرنے کا ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے اور اب معیاری اقامتی درسگاہیں بچیوں کی تعلیم کے لیے سرگرم عمل ہیں اوربچھڑے ہوئے علاقوں کی ایک بڑی تعداد ان میں زیر تعلیم بھی ہے اور فراغت کے بعد ان کے قابل قدر اثرات بھی ہیں۔

ارباب مدارس اور قائدین ملت سےایک ضروری اپیل:

ملک میں اس طرح کا اتار چڑھاؤ کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ پیدا ہوتا رہا ہے لیکن اب میڈیا کی صورت حال غیر اخلاقی شکل اختیار کرگئی جس کی وجہ سے اس طرح کے مسائل زیادہ اچھال دیے جاتے ہیں ، ایسے حالات اورتناظرات میں مدارس اسلامیہ کے ذمہ دارن کی کوشش ہونی چاہیے کہ اپنے سسٹم پر نظر ثانی کرکے اسے سدھارنے کی کوشش کریں، اللہ رب العالمین نے بھی ہمیں مصائب کے وقت اپنے کردار پر نظر ثانی کرنے کا حکم بار بار دیا ہے ۔ اسی طرح ہماری ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ مدارس کے سسٹم کوملکی دستور سے ہم آہنگ کریں، حساب وکتاب اورجائیداد کوبھی ملکی نظام کے تحت صاف ستھرا رکھیں، مدارس میں ہر اعتبار سے قرآ ن مجید ، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورمنہج صحابہ کی پیروکاری اورپاسداری کی جائے کیوں کہ یہی رب کائنات کی نصرت کا ذریعہ ہے ، اپنے ماتحتوں کا مکمل حق ادا کریں کیوں کہ ظلم کبھی پنپتا نہیں ہے بلکہ لے ڈوبتا ہے ، طلبہ وطالبات کی خالص اسلامی تربیت پرتوجہ دی جائے کیوں کہ یہی ہمارا رسرمایہ ہیں۔

 اور ایک اہم چیز یہ ہے کہ لیگل پالیسی کومضبوط بنائیں اور اگر پالیسی کی تابعداری اور انصاف کے ساتھ حکومت یا کوئی سرکاری محکمہ کوئی سروے یا انکوائری کرنا چاہے تو ان کا ہر ممکنہ تعاون بھی کریں۔ اور قائدین ملت سے یہ اپیل ہے کہ تمام امور اور مسائل میں سنجیدہ فیصلے لیں، آپسی اتحاد بنانے کی کوشش کریں، سرسے سر جوڑ کر بیٹھیں اورپیش آنے والے قضیوں میں فوراً جذباتی نہ ہوجائیں اورنہ ہی جلد بازی میں اپنے قضیوں کو عدالتوں میں لے جائیں بلکہ پہلے بات چیت کرکے مسائل کا حل تلاش کریں اور ضرورت محسوس کریں تو وزیر اعلیٰ، وز یر داخلہ، وزیر اعظم اور صدر جمہوریہ تک میمورنڈم کے ذریعہ بات چیت کرکے مسائل کا حل نکالنے کی کوشش کریں اور اگر کہیں بھی مسئلہ کا حل نہ نکلے تو مضبوطی کے ساتھ عدالتوں میں قضیہ کی پیروی کریں۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com