مدارس میں اوپن اسکولنگ کی اجازت کب اور کس نہج پہ ہو؟

حمزہ شعیب

   مدارس کے نظام و نصابِ تعلیم پر جاری بحث کے دوران اتنا تو واضح ہو گیا ہے کہ بیشتر مدارس اب اوپن اسکولنگ کی اجازت دے دیں گے اور جو نہیں دیں گے ان کے بچے بھی چھپ چھپا کر امتحان دے ہی لیں گے مجبوراً انھیں بھی اجازت دینی پڑ جائے گی. اب سوال یہ ہے کہ اس کی اجازت کب اور کس نہج پر دی جائے کہ مدارس کا اصل مقصد فوت نہ ہونے پائے؟ تو آئیے مندرجہ ذیل چند گزارشات کی روشنی میں اس کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں.

1_ تمہیدیہ اور اولی سے ہی این سی ای آر ٹی (نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ) کی کتابیں شاملِ نصاب کر لی جائیں تاکہ بچوں میں واقعی دسویں بارہویں تک کی لیاقت پیدا ہو جائے۔

2_ اس امتحان کو عشوائی انداز میں رکھنے کے بجائے کسی ایک کلاس کے لیے خاص کر دیا جائے مثلاً: طالب علم ہر کلاس کے بجائے صرف ثانیہ ثانویہ/عربی پنجم میں دسویں اور اولی عالیہ/ہفتم میں بارہویں کرنے کا مجاز ہوں ؛ اس سے پہلے ہرگز نہیں. میری نظر میں اس کی چار بنیادی وجوہات ہیں:

(١) اگر کوئی طالب علم عربی پنجم/ ثانیہ ثانویہ کے سال دسویں کے امتحان میں کسی وجہ سے ناکام ہو جاتا ہے تو ان کے پاس ثالثہ ثانویہ/ ششم میں دوبارہ پاس ہونے کا پورا موقع ہے، اسی طرح اگر کوئی بارہویں میں ناکام ہوتا ہے تو بہ آسانی فضیلت سال آخر/دورہ میں پاس ہو سکتا ہے۔ إن شاء اللہ

(٢) ہفتم/ اولی عالیہ میں بارہویں کے امتحانات سے فارغ ہو کر فضیلت سال آخر/دورہ میں طلبہ کو یونیورسٹی کے انٹرنس اگزام کی تیاری کا اچھا خاصا وقت مل جائے گا اور خاص طور پر مدرسہ میں رہتے ہوئے جو گروپ اسٹڈی کا سنہری موقع ملے گا وہ کسی نعمت سے کم نہیں ہوگا۔

(٣) ثانیہ ثانویہ/ پنجم تک این سی ای آر ٹی کی کتابیں پڑھنے سے طالب علم کی بنیاد بھی مضبوط ہو جائے گی جس کی وجہ سے امتحان دیتے وقت مدرسہ کی بنیادی تعلیم پہ کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا. إن شاء اللہ

(٤) چوتھی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے سے طالب علم اخیر تک مدرسے سے جڑا رہے گا ورنہ عشوائی رکھنے میں مصیبت یہ آ سکتی ہے کہ طالب علم چہارم پنجم میں ہی دسویں بارہویں کر کے مدرسہ سے فرار اختیار کرنا چاہے گا ایسی صورت میں وہ حدیث، تفسیر، عقائد، فِرَق اور فقہی تفصیلات وغیرہ جیسے اہم موضوعات پڑھنے سے رہ جائے گا جس کی وجہ سے عوام الناس کے درمیان کم علمی کی بنا پر الٹی سیدھی بیان بازی اور فتویٰ بازی کر کے نت نئے کو مسائل جنم دے سکتا ہے اور یونیورسٹی میں بھی ہر باطل فکر سے بہت جلد متاثر ہو سکتا ہے.

3_ عام طور پر nios کا امتحان سال کے دو اوقات میں ہوتا ہے (١) اپریل مئی میں اور (٢) اکتوبر نومبر میں، اہل مدارس کے لیے مناسب یہ ہے کہ طلبہ کا فارم اپریل مئی والے امتحان کے لیے بھرے کیوں کہ مدرسوں میں عموماً ششماہی امتحان کا وقت اکتوبر نومبر میں ہی ہوتا ہے اور اپریل مئی میں سالانہ چھٹی ہوتی ہے، لہذا اپریل مئی میں اوپن کا امتحان دینے سے مدرسے کی بنیادی تعلیم متاثر ہونے سے بچ جائے گی۔

(رمضان میں چونکہ طلبہ کی تراویح کا مسئلہ ہوتا ہے تو اس کا حل یہ ہے کہ جہاں تراویح پڑھانی ہو طالب علم وہیں سے اپنا فارم بھریں تاکہ امتحانی سینٹر قریب ہی میں پڑے بصورت دیگر مشکلات جھیل کر سینٹر بھی چینج کروا سکتے ہیں)

4_ فارم بھرنے سے کم از کم ایک آدھ ماہ قبل کسی ماہرِ تعلیم یا مختلف جامعات میں زیرِ تعلیم باخبر فارغین کے ذریعے طلبہ کی کاؤنسیلنگ کا اہتمام ضرور کیا جائے تاکہ طلبہ کو امتحان کی افادیت کی سمجھ اور سبجیکٹس کے متعلق بہتر رہنمائی حاصل ہو سکے. (تفصیل کے لیے اوپن اسکولنگ پر لکھا گیا مفصل مضمون میرے فیس بک ٹائم لائن پہ جاکر پڑھ سکتے ہیں)

5_ فارم بھرنے کا پروسیس تو واقعی بہت آسان ہے لیکن جن اداروں میں یہ نیا تجربہ ہونے جا رہا ہے ان سے گزارش ہے کہ بچوں کو کیفے والے لٹیروں کے حوالے کرنے کے بجائے ادارے کی جانب سے کسی پروفیشنل آدمی کو ہائر کرکے ٹریننگ لے لیں (مدرسوں میں پڑھانے والے ماسٹر حضرات یہ کارِ خیر بخوبی انجام دے سکتے ہیں) یا ڈائریکٹ اوپن اسکول کے اسٹاف سے رابطہ کرنے کی کوشش کریں، ممکن ہے آپ کے ادارے میں امتحان دینے والے طلبہ کی کثرت کو دیکھتے ہوئے وہ خود آکر تفصیلات سمجھا دیں کیوں کہ وہ بھی اپنے بورڈ کو پرموٹ کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں،ایسا ہونے پر طلبہ اور اساتذہ بہت سی پریشانیوں سے بچ جائیں گے۔ إن شاء اللہ

6_ بسا اوقات بعض اجباری (لازمی) مضمون میں بچے فیل ہو جاتے ہیں لہذا مدارس کو چاہیے کہ اُن سبجیکٹس میں پختگی کے لیے طلبہ کو پارٹ ٹائم میں الگ سے کوچنگ کی اجازت دے دیں. (ویسے جن اداروں میں دسویں تک NCERT کی کتابیں شاملِ نصاب ہوں گی وہاں کم سے کم دسویں تک اس کی نوبت کم ہی پڑے گی۔ ان شاء اللہ)

7_ اساتذۂ کرام پند و نصیحت اور لیکچر کے ذریعے طلبہ کو اِس جانب موٹیویٹ کریں اور ترجیحات کی جانب رہنمائی فرمائیں تاکہ طلبہ داخلِ نصاب نئے مضامین کو بوجھ سمجھنے کے بجائے انھیں متعینہ اوقات میں اسمارٹ اسٹڈی کے ذریعے دلچسپی لے کر پڑھیں، إن شاء اللہ اسمارٹ اسٹڈی کی یہ عادت مستقبل میں ان کے لیے بہت سود مند ثابت ہو گی۔

   ان چند گزارشات کے علاوہ ہر ادارہ اپنی سہولت کے حساب سے اپنی اسٹریٹجی تیار کر لیں تاکہ مستقبل میں کوئی دقت پیش نہ آئے۔

                ١٦/٠٩/٢٠٢٢

hamzashuaib0007@gmail.com

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com