ٹرمپ سے اکھلیش تک ….


مشرّف عالم ذوقی
کبھی کبھی ٹرمپ جیسے سیاست دان حماقت ،نادانی اور مخالفت میں دو قدم آگے بڑھ کر ایسا رویہ اختیار کر جاتے ہیں ،جس سے ہمیں نقصان کی جگہ فائدہ ہو جاتا ہے .٩/١١ کے بعد عالمی سطح پر مسلمانوں کو لے کر جو طریق کار اختیار کیا گیا ،اسکا مقصد دہشت گردوں کا صفایا کم ، مسلمانوں کو حاشیہ پر ڈالنا اور انکی طاقت کو کم کرنا تھا .بش سے ابامہ تک یہ کاروبار آسانی سے پھلتا پھولتا رہا .امریکی صدور مسلمانوں کے خلاف ہی مورچہ کھولے رہے ،مگر بیانات میں تضاد صاف تھا .یعنی مارتے جاؤ اور ساتھ میں یہ بھی کہتے چلو کہ ہم مسلمانوں کے دشمن نہیں .بش کی مسلم پالیسی یہ تھی کہ انہوں نے افغانستان پر چڑھائی کردی۔ بے گناہ لوگوں کا قتل عام ہوا ۔ مسلم دشمنی کے عالمی دروازے کھول دیے اسلامی انتہاپسندوں اور جہادیوں کو امریکہ کا دشمن قرار دینے کے پیچھے مسلمانوں سے طاقت چھین لینے اور کمزور کرنے کی منصوبہ بند سازش کو دخل تھا .اس میں کامیابی تب ملی ،جب بے قصور صدام حسین اور قذافی کو مار ڈالا گیا .بعد میں امریکی جمہوریت اور سیکولرزم کے ٹھیکیدار اسکے لئے معافی طلب کرتے رہے ،لیکن ہوا یہ کہ مسلم ممالک کی جڑیں تک حل گین .امریکا کے خلاف بولنا اور کویی قدم اٹھانا تو دور رہا ،مسلم حکمراں اپنی اپنی جان بچانے میں لگ گئے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے .بش کے نقش قدم پر ہی اباما چلے — پالیسی وہی رہی ،لیکن مسلمانوں کو تسلی دینے کا عمل بھی پالیسی کا حصّہ رہا .ٹرمپ اس معاملے میں الگ ثابت ہوئے، صدر بننے سے پہلے ہی مسلمانوں کے خلاف مورچہ کھول دیا .صدر بن جانے کے بعد ٧ اسلامی ممالک کا ویزا رد کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا، لیکن اصل ڈرامہ اس کے بعد شروع ہوا ۔۔ ہندوستانی میڈیا اور امریکی میڈیا میں فرق ہے .عوامی فکر کا انداز بھی بھکتوں جیسا نہیں ہے . ٹرمپ کی پالیسی پر میڈیا نے تنقید کا رخ اپنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کی حمایت میں عوام اور میڈیا دونوں سامنے آ گئے، یہ مسلمانوں کو لے کر ہمدردی کی وہ لہر تھی جو ٩/١١ کے بعد پہلی بار دیکھی گیی .. کچھ امریکیوں نے اسلام مذھب اپنانے کی دھمکی دے ڈالی – کچھ نے احتجاج کے طور پر مذہبی شناخت کے خانے میں اسلام کا نام درج کیا، ایک امریکی کا اپنے پڑوسی پاکستانی کے بارے میں حال میں یہ بیان جاری ہوا کہ وہ ہمارا بھایی ہے .امریکی حکومت میرے بھائی کا کویی نقصان نہیں کر سکتی ، ٩/١١ کے بعد بننے والی مائی نیم از خان جیسی فلموں میں ایک خوفزدہ مسلمان کا چہرہ تھا ،جسے دنیا کو یہ بتانا ہوتا تھا کہ ہر مسلمان دہشت گرد نہیں ہے، اب ٹرمپ کی مسلم پالیسی کے خلاف یہی بات کہنے کے لئے امریکی میڈیا اور عوام سامنے ہے .یہ حقیقت ہے کہ ٹرمپ کی ہر مسلم مخالف کاروایی، مسلمانوں کے لئے ہمدردی کی لہر کے ساتھ پر زور حمایت بھی لے کر اے گی .اسکے اثرات دیگر مغربی ممالک پر بھی پڑینگے، مسلم دشمنی کی لہر میں ٹرمپ ہمارے لئے ایک ایسا تحفہ ثابت ہو رہے ہیں ،جہاں دنیا ایک بار پھر مختلف انداز میں مسلمانوں کے کردار اور اسلام کے امن پسند پیغامات پر غور کرنے لگی ہے۔
ہندوستانی صورت حال مختلف ہے، عوامی ذہن تیار کرنے میں سب سے بڑا کردار میڈیا کا ہوتا ہے، ہندستانی میڈیا حکومت کے تلوے چاٹتا ہوا مسلمانوں کے خلاف کھڑا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہو رہا ہے ،جب میڈیا کھلے عام مسلمان اور اسلام کے خلاف اشتعال انگیزی پیدا کرنے اور سازش بھڑکانے میں مصروف ہے .ایسا اسلئے ہے کہ یہ سب حکومت کے اشاروں پر ہو رہا ہے .اتر پردیش انتخابات میں بی جے پی نے مسلمانوں کو ایک بھی سیٹ دینا گوارا نہیں کیا .سماجوادی نے ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کو فریب میں مبتلا رکھا ہے .اگر آزادی کے بعد فرقہ وارانہ فسادات کا ایک پڑاؤ گودھرا تھا تو دوسرا پڑاؤ مظفر نگر .اگر مرکز ذمہ دار تھا تو مرکز سے کہیں زیادہ ذمے دار اکھلیش حکومت — فسادات ہوتے رہے اور ملائم اکھلیش سیفیی میں جشن مناتے رہے ، سیفیی کا جشن ختم ہوا تو متاثریں کی بستیوں کو اجاڑنے کے لئے بلڈوزر لے کر آ گئے — دادری میں بے گناہ اخلاق کا قتل ہوا تو آنسو پوچھنے تک نہیں اے – اخلاق کا قاتل مرا تو اسکی بیوی کو پچیس لاکھ کا معاوضہ دینے پہنچ گئے — کانگریس کی حکومت میں کویی بھی فیصلہ مسلمانوں کے نام نہیں آیا .یہ تمام پارٹیاں مسلمانوں کے معاملے میں ایک ہیں .ٹرمپ کھلے عام اپنی بات کر رہے ہیں اور ہمدردی لہر کا فائدہ مسلمانوں کو مل رہا ہے .لیکن یہ بات ہندوستان کے سیاسی پس منظر میں ممکن نہیں .میڈیا اور سوشل ویب سائٹ نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا جو ماحول تیار کیا ہے ،اس میں بھکتوں کا تعاون حاصل ہے ..ممکن ہے ٹرمپ لہر کا ا ثر یہاں بھی دکھائی دے ،لیکن فی الحال ایسا دکھایی نہیں دے رہا ہے۔

SHARE