ٹفن بم دھماکہ : بے قصوروں کی رہائی

محمد عمران
ہندوستان آزاد ہوا اور بدقسمتی سے ملک تقسیم ہوگیا۔سلطنت خداداد کے نام سے پاکستان بھی وجود میں آگیا ،اس موقع پر مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت نے پاکستان کا رخ ضرور کیا لیکن اس وقت جن مسلمانوں نے کسی بھی قیمت پر وطن عزیز کی خاک کو چھوڑنا گوا را نہیں کیاتھا اور اپنی بے پناہ اور لاثانی حب الوطنی کا ثبوت پیش کیا تھا آج سیاسی وسماجی سطح پر ان کو اپنے اسی وطن عزیز کی سرزمین پر دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کرنا اور ان کے ساتھ کسی بھی سطح پر امتیازی سلوک کرنا کسی بھی اعتبار سے مناسب نہیں ہے اور یہ یقینی طور پر ملک کے آئینی اور تہذیبی اصولوں کی خلاف ورزی بھی ہے۔حالانکہ آزادی کے بعد ہندوستان میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی دردناک تاریخ بہت ہی طویل ہے اوران میں سے ہرایک کااعادہ کرنا ممکن بھی نہیں ہے ۔لیکن یاد کیجئے،2002 میں گجرات میں انسانیت کو شرمسار کرنے والے مسلم کش فسادات ہوئے تھے اس کے بعد افسوسناک طریقے سے مسلمانوں کی ہی گرفتاریاں ہونے لگی تھیں، ان پر طرح طرح کے الزامات عائد کئے جانے لگے تھے،دہشت گردی کاعنوان ان پر چسپاں کردینے کیلئے بہت ہی سہل جان پڑنے لگاتھا ۔مسلمانوں کو زدوکوب کرنے کایہ نہایت ہی غیر اخلاقی حربہ حالانکہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد خوب مستعمل ہوگیا تھا لیکن گجرات فسادات کے بعد اس غیرہندوستانی رسم کو فروغ دینے کا چلن کچھ زیادہ ہی زور پکڑنے لگاتھا،اس وقت فرضی انکاؤنٹر کے ذریعے کئی مسلمان نوجوان ہلاک بھی کیے گئے تھے اور بڑی تعداد میں ان کی گرفتاریاں بھی عمل میں آئی تھیں۔اپنی زندگی کے قیمتی اوقات جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے گزار دینا تقریباً ان کا مقدر بننے لگا تھا۔ان میں سے رفتہ رفتہ معصوم ملزمین کو عدالتوں کے ذریعے باعزت رہائی بھی حاصل ہوئی ہے اور ان پر عائد کیے جانے والے الزامات کو عدالتوں کے ذریعے بے بنیاد بھی قرار دیاگیا ہے۔
موجودہ وقت میں عدالت کے ذریعے ایک بار پھر 2002 سے اپنی بے قصوری کی سزا کاٹ رہے چار مسلم نوجوانوں کو رہائی مل گئی ہے ۔یقینی طور یہ ایک خوش کن خبر ہے لیکن حیرت میں ڈالنے والی خبریہ بھی ہے کہ آخر پندرہ سالوں سے انہیں کس بات کی سزا دی جارہی تھی۔آج اتنے برسوں بعد ان کی غیرموجودگی میں ان کے خاندان اجڑ گئے ہیں اور بکھر گئے ہیں۔ان کی اپنی مشفق مائیں دنیاسے رخصت ہوگئی ہیں،ان کی بیویوں کے جنازوں کو غیروں نے ہی کندھا دیا ہے،ان کے بچوں کی نگرانی کرنے والی بہنیں بھی اللہ کوپیاری ہوگئی ہیں ،اوراب ان کے بچے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ،اپنے باپ کی زندگی میں بے سروسامانی اور یتیمی کی زندگی گزار رہے ہیں ،غور کیجئے آخر ان کاقصور ہی کیاہے؟
2002کے مسلم کش فسادات کے دوران احمد آباد کی میونسپل کارپوریشن کی بسوں میں ’ٹفن بم دھماکے‘ ہوئے تھے۔اس میں 13افراد معمولی طور پر زخمی ہوئے تھے۔2003 میں کل 21مبینہ ملزمین کوگرفتار کیا تھا اور ان پر پوٹابھی نافذ کردیاگیاتھا۔بعد میں ان میں سے چار کو رہائی بھی مل گئی تھی اور سترہ کے خلاف مقدمہ درج کرلیاگیاتھا۔2006میں پوٹا عدالت نے 17ملزمین میں سے 12کو بری کردیاتھا جبکہ مولوی محمدحنیف بھائی پیکٹ والا،حبیب شفیع حوا،کلیم حبیب کریمی اور انس راشد ماچس والا کو 10-10 سال کی سزا سنائی گئی تھی۔معاملہ ہائی کورٹ میں گیا تھااور وہاں مولوی احمد حسین کو رہائی مل گئی تھی جبکہ باقی چار ملزمین کی سزا میں اضافہ کرکے اس کو عمر قید میں تبدیل کردیاگیا تھا۔ 2011میں جمیعتہ العلماء نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کادروازہ کھٹکھٹایا جہاں سے گزشتہ دنوں ان چاروں ملزمین کوبھی بری قرار دے دیاگیا۔ایسے حالات میںآخر کاربات بھی وہی آتی ہے کہ آخروطن عزیز میں بے قصور مسلم جوانوں کو انصاف کے لئے زدوکوب کے اس طویل سفر سے کیوں گزرناپڑتا ہے؟
اب دیکھئے عدالت سے ایک نئے معاملے میں گجرات فسادات کے دوران ہونے والے گودھرا ٹرین آتشزدگی کے بعد کلول تعلقہ کے پلیاڈ گاؤں میں مبینہ طور پر فساد پھیلانے اور آتشزدگی کے مبینہ الزامات کی بنیاد پر اپنی بے قصوری کی سزا کاٹ رہے 26ملزمان کو عدالت سے 15سال بعد آخرکار رہائی مل گئی ہے۔اس بابت سپریم کورٹ نے گجرات کی حکومت کو نوٹس جاری کرکے اس سے کچھ سوالات بھی پوچھے ہیں ۔لیکن سوال اپنی جگہ ابھی بھی برقرار ہے کہ آخر بے قصوروں کو اتنی طویل مدت تک صعوبتوں سے کیوں گزرناپڑتاہے؟سزائیں کاٹتے ہوئے ، اپنی زندگی کے بیش قیمتی ایام جیل کی سلاخوں میں گزارنے کی اصل وجہ آخر کیاہوتی ہے؟ جبکہ فیصلہ دیتے ہوئے عدالتوں کے ذریعہ یہ واضح بھی کردیاجاتا ہے کہ متعلقہ معاملے میں متعلقہ ملزمین کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملے ہیں اور ثبوت کی عدم فراہمی پر ان کو رہائی بھی مل جاتی ہے،غور طلب بات ہے کہ آخر اس حقیقی فیصلے تک پہنچنے میں اتنی طویل مدت کیوں لگ جاتی ہے۔یہ سوال پھر ایک بار اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ ملزمین کواپنی اس رہائی پر کتنا خوش ہونا چاہئے جبکہ ان کی دنیا کے شب وروز کسی تاریکی کا حصہ بن چکے ہیں۔
یہی المیہ ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت زار کی علامت بھی بن گیا ہے۔یہاں بے قصور مسلمانوں کوبے خبری کے عالم میں گرفتار کرلیا جاتا ہے ،ان پر بے بنیاد لیکن سنگین الزامات عائد کردیے جاتے ہیں، ایک شریف النفس انسان کو دہشت گرداور ایک حقیقی محب وطن کو وطن کا غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔ اگر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ابتدا میں مدرسوں کو نشانہ بنایا گیاتھا،اسے دہشت گردی کا اڈہ کہا گیا تھا،اس کے بعد تومسلمانوں کی معیشت کو تباہ وبرباد کرکے انہیں کمزور کرنے کی فسادی سازشیں بھی ر چی گئیں، اس سے بھی جی نہیں بھرا تو تعلیم کے میدان میں اپنے قدم جمانے والے اور مستقبل کو سنوارنے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی فکر میں اپنے چین و آرام کو قربان کرنے والے پرعزم مسلم نوجوانوں کو اپنی متعصبانہ اور گھناؤنی منصوبہ بند ساشوں کا نشانہ بنایا گیا۔حالانکہ وقت تو اپنی رفتار سے بدلتا ہی رہا لیکن وقت کے اس پہیہ کے ساتھ شعوری طور پر انسانیت سوز نظریات میں کبھی بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ان کی متعصبانہ اور تفریق کی نظروں سے مسلمانوں کی معیشت،ان کے تعلیمی ادارے اور ان کے ہونہار نوجوان کبھی بھی اوجھل نہیں ہوسکے،اپنے اپنے دامنوں کو سمیٹتے رہنے کے فکر وعمل کے باوجود بھی مسلمانوں پر ظالمانہ اور متعصبانہ گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی۔ان کے مکانوں سے ان کے مکینوں کو چھینا جاتا رہا اورکثیر تعداد میں جیل خانے آباد ہوتے رہے،عدالتوں کا وقت بھی اپنے ضروری مقدمات کی جگہ ان بے بنیاد، اضافی اور غیر ضروری کاموں میں صرف ہوتا رہا ۔
غور کیجئے! جب عدالتیں ان مقدمات کو اپنے فیصلوں کے سانچے میں ڈھالتی ہیں اور پھر جب یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ ان مقدمات کی کوئی اصل تو سرے سے تھی ہی نہیں۔تو یہ لمحہ کتناافسوسناک ہوتا ہے بلاشبہ اس کا اندازہ نہیں لگایاجاسکتاہے۔ اورجب یہ بات سامنے آجاتی ہے تواس کے ساتھ ہی یقینی طور پر یہ بھی ظاہر ہوجاتا ہے کہ ہندوستان کی معتبر اور مصروف ترین عدالتوں کے ساتھ ہی مذکورہ معاملے میں نہ صرف مذکورہ اشخاص کے تمام متعلقین کو بلکہ پورے ہندوستان کو اپنے وقت کے زیاں سے زیادہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکا ہے۔یہاں غور طلب امر یہ بھی ہے کہ اگر واقعی مخلصانہ اور غیر متعصبانہ طور پر اصل مجرمین کی گرفتاری ہی عمل میں آرہی ہوتی ،اسی کو اپنا وطیرہ تسلیم کیاجاتا اورعدالتوں کو انہیں کیفرکردار تک پہنچانے کا بھرپور موقع مل رہاہوتا ،تو یقیناًہندوستان سے جرائم کا صفایا بھی ہوجاتا ،اورہمارا پیاراملک بھی ترقی کے منازل اپنی برق رفتاری سے طے کررہاہوتا ۔حالانکہ وقت ابھی بھی باقی ہے ،اگر آج بھی اس حقیقت کوتسلیم کرلیاجائے تو نہ صرف قومی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ہندوستان کی حیثیت مزید دوبالا ہوسکتی ہے ۔ لیکن تب انتہائی افسوس ہوتا ہے جب مسلمانوں کے تئیں کسی بھی سطح پر کوئی بھی نظریاتی تبدیلی رونما نہیں ہوپاتی ہے۔
ہندوستان کی موجودہ سیاسی و سماجی صورتحال پر نظاڈالیئے اور اور بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ غور کیجئے کیا مذکورہ چاروں بے قصور مسلمانوں کی رہائی کے بعد اب تمام بے قصور مسلمانوں کوقید خانوں سے با عزت بری کیے جانے کے فیصلے لے لیے جائیں گے؟اگر ایسا ہوجاتا ہے تو اس فیصلے کو ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اور اس کے آئینی اصولوں کی حصولیابی کے نظریے سے یقیناًایک اچھی علامت ہی سمجھا جائے گا۔یقینی طور پر ہم بھی یہی چاہیں گے کہ کاش ایسا ہوجائے۔لیکن افسوسناک حقیقت تو یہ ہے کہ آج کے ماحول میں ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔اگر حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ انکشاف ہوگا کہ آج کے ہندوستان میں اگر کہیں مسلمانوں کے لیے ہمدردی کے اقوال سننے کو ملتے ہیں تو وہ محض انتخابی نعروں اور جذباتی انتخابی تقریروں میں ہی ملتے ہیں ،اگر ان کی فلاح و بہبود ،ان کی خوشحالی ،ان کی تعلیم ا ور ان کی حفاظت کی باتیں کہیں پڑھنے کو ملتی بھی ہیں تو وہ خودساختہ سیکولر سیاسی جماعتوں کا انتخابی منشور ہی ہوتا ہے۔اگر عمل کی دنیا میں آئیں تو نتیجہ بڑی حد تک صفر سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ اگر یوں کہیں تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ نتیجہ اور بھی حیران کن طریقے سے کم سے کم تر کی جانب ہی گامزن ہوتا ہوا نظر آتاہے۔
ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی رفتار آج بھی اسی انداز میں جاری ہے،مسلمانوں کے لباس اور ان کے طور طریقوں سے لے کر ان کے پرسنل لاء تک پر حملے کیے جارہے ہیں۔ایسے میں حکومت اور ذمہ داران کے ساتھ ہی مسلمانوں کا بھی یہ فریضہ ہے کہ جمہوری ملک میں انتخابات کے ذریعے بہت ہی دیانت داری اور سمجھ داری کے ساتھ اپنے ووٹ کااستعمال کریں اور اس کو قیمتی بناتے ہوئے ایسے نمائندوں کا انتخاب کریں جو مسلمانوں کے ساتھ ہی ہندوستان کی حفاظت کو بھی یقینی بنانے میں زیادہ معاون بننے والا ہو۔

mohd1970imran@gmail.com