مرشد کمال
علی گڑھ کا ذکر آتے ہی یادوں کے نہ جانے کتنے چراغ روشن ہو اُٹھتے ہیں۔ ماضی کی خوشگوار یادیں باد صبا کے ٹھنڈے جھونکے کی مانند میرے وجود کو ترو تازہ کرجاتی ہیں۔ اور پھر دانش گاہ علیگڑھ سے دہائیوں پر محیط میرے رشتے کی پرت در پرت کھلتی چلی جاتی ہے۔ گرچہ میری باضابطہ تعلیم علی گڑھ میں تو نہ ہوسکی لیکن جامعہ میں داخلے سے پیشتر مہینوں مجھے علی گڑھ میں قیام کرنے کا اتفاق ہوا۔ پھر جب علیگڑھ کو خیرباد کہہ کر جامعہ میں داخل ہوا اُس کے بعد بھی تسلسل سے میرا علی گڑھ آنا جا نا ہوتا رہا۔ بلکہ جامعہ کے شروعاتی دنوں میں تقریباً ہفتے کی ہر شام علی گڑھ میں ہی گزرتی۔ اس کے بعد بھی جب تک دلی میں قیا م رہا علی گڑھ سے میرا یہ رشتہ برقرار رہا۔ علی گڑھ میں دوستوں کی ایک خلقت آباد تھی۔ جس میں ہم عمر اور ہم جماعت دوستوں کے علاوہ سینئرس مگر بے تکلف دوستوں کی ایک بڑی تعداد تھی۔ علی گڑھ سے طویل روابط کی وجہ سے میں مکمل طور پر یہا ں کی راہ ورسم، روایات اور تہذیب سے ہم آہنگ ہوچکا تھا۔ علی گڑھ کی نزاکت، زبان کی شائستگی، ذوق مزاح اور انداز تکلم نے تو روز اول سے مجھے اپنا گروید ہ کر لیا تھا۔ یہاں کی محفلیں لطیفوں،حکایتوں، روائتوں اور عشق و محبت کی داستانوں سے عبارت ہوتی تھیں اور یہی محفلیں مجھے کھینچ کر علی گڑھ تک لے آتی تھیں۔
علی گڑھ میں قیام کے دوران اور اس کے بعد بھی اس ادارے کی سہولیات سے میں جس قدر فیضیاب ہو ااور یہاں زندگی کے شب و روز سے جتنا کچھ میں نے حا صل کیا وہ میرے زندگی کا قیمتی سرمایہ ہے۔ میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کے میں اس عظیم قومی دانشگاہ کے فیض یافتگان میں شامل ہوں اور علی گڑھ کا ذکر دیگر فرزاندان علی گڑھ کی طرح میرے لیے بھی لیے سکون قلب اور راحت جاں کا سبب بنتا ہے۔ بقول شاعر۔
خوشہ چیں میں بھی تیرے فیضِ چمن زار کا ہوں
مجھ کو ملتا ہے تیرے ذکر مقدس سے سکوں
لیکن میں علی گڑھ کی تہذیب، اس کی روایات اور زبان و ادب کے ساتھ ساتھ علی گڑھ تحریک اور سرسید کے فلسفے کا بھی بڑا موئد ہوں۔ اس لیے علی گڑھ میرے نزدیک ایک تعلیمی ادار ہ محض کبھی نہیں رہا بلکہ میں اسے ایک فکر، فلسفہ اور سرسید کے انقلابی مشن کی تجربہ گاہ سمجھتا ہوں۔ علیگڑھ کی دلکش اور دلفریب عمارتوں میں ایک لُٹی پِٹی، بے سمت اور بے یار و مددگار قوم کی عہدِ رفتہ کی تاریخ پوشیدہ ہے۔ جو اِس کے محسن کے بلُند حوصلوں اورنیک عزائم کی داستان بیان کرتی ہے اور جو ہر لمحے ہمیں اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ جاگتی آنکھوں کے خواب کبھی مرتے نہیں ہیں اور نیت میں اخلاص ہو تو آسمانی مدد ضرور آتی ہے۔ علی گڑھ ہمیں یہ بھی بتا تاہے کہ آندھیوں میں بھی چراغ جلائے جاسکتے ہیں اور محنت کا کوئی متبادل نہیں ہوتا۔ علیگڑھ میں حکمت بھی ہے اور منطق بھی۔علی گڑھ یہ فن بھی سکھاتا ہے کہ خاردار جنگلوں سے دامن بچا کر کس طرح منزل ِ مقصود تک پہُنچاجاسکتا ہے اور حکمت اور تدبرکے سہارے تیز منجدھار اور خوفناک لہروں میں کس طرح قدم جمائے جا سکتے ہیں۔علی گڑھ کی تاریخ میں ہمارے لیے بڑا سبق ہے اور یہ مستقبل کے ہندستان میں ہمارے لیے مشعل را ہ بھی ہے۔
سرسید اور اُن کے رفقاء نے جن حالات میں علی گڑھ کی بنیاد رکھی اوراپنے خون جگر سے جس طرح اِس کی آبیاری کی وہ آج ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ سرسید کی تعلیمی تحریک مسلمانوں کو محض انگریزی حکومت کا تنحواہ دار ملازم بنانے کے لیے نہ تھی۔ بلکہ سرسید کی دُور رس آنکھیں مستقبل کے ہندستان میں مسلمانوں کے رول کا تعین کر رہی تھیں۔ سرسید علی گڑھ کوہندستانی مسلمانوں کا فکری اور نظریاتی مرکز بنانا چاہتے تھے جوہندستان میں مسلمانو ں کی عظمت رفتہ کی بحالی کی تحریک کی قیادت انجام دے سکے۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی سرگرمیا ں ہوں، سائنٹفک سوسائٹی کا قیام ہو یا پھر تہذیب الاخلاق جیسے ادبی اور اصلاحی جواہر پارے کا اجراء، سرسید کی یہ تمام کاوشیں دراصل ایک طویل مدتی اور کثیر جہتی انقلابی منصوبے کا حصہ تھیں۔لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ سرسید کے اُن عظیم مقاصد اور فلسفے کی سرسید اور اُن کے احباب کی موت کے بعد ہیئت ہی بدل گئی۔ اور بعد کے دنوں میں کسی نے سرسید کے مشن کی ازسر نو تفہیم کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اب علیگڑھ تحریک کے اثرات علی گڑھ تک سمٹ کر رہ گئے۔ سرسید کی تمام عمر کی جدوجہد اور جگر سوزی کا حاصل محض ڈگریوں کاحصول سمجھا جانے۔ فکر و نظر کی آزادی کا فقدان ہوا۔ مادیت اور شئیت پسندی نے عروج پایا۔ علی گڑھ کو قوم کا نظریاتی مرکزبنانے کا سرسید کا خواب ذہنوں سے رخصت ہوگیا۔ درس و تدریس نے پیشے کی شکل اختیار کرلی۔ اساتذہ شعبہ جاتی سیاست، کلب اور چائے خانوں کی خوش گپیوں سے محظوظ ہونے لگے۔ طلباء کی ذہن سازی اور کردار سازی سے اُنھیں کوئی سروکار نہ رہا۔ علیگڑھ تہذیب کے نام پر القاب وآداب، ظاہری نمائش اور مصنوئی چمک دمک کو فروغ حاصل ہوا۔ چرب زبانی، لفاظی اور مبالغہ آرائی کوحقیقت پسندی پر فوقیت حاصل ہوگئی۔ سنجیدہ محفلیں، علمی مباحثے اور فکرو تدبر کی مجلسیں اب ماضی کا قصہ ہوگئیں۔ طلباء کے اندر آرام طلبی اور سُست روی کا کلچر فروغ پانے لگا۔ صحت مند مسابقت اور اُس جنون کا شدید فقدان پا یا جانے لگا جو کسی ادارے کو ممتاز اور معیاری بناتا ہے۔نتیجہ یہ ہوا کہ علی گڑھ کالج کی اُٹھان جتنی شاندار تھی وہ برقرار نہ رہ سکی۔جو کالج حالی، شبلی، نذیر اورذکا ء اللہ کے زیر سایہ پروان چڑھا اور جس کی کوکھ سے محمد علی، شوکت علی، حکیم اجمل خاں اور ذاکر حسین جیسے عظیم قائدین ملت پیدا ہوئے وہ جلد ہی قحط الرجال کا شکار ہوگیا۔جنہوں نے مسجدوں اور مدرسوں کی چٹائیوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کی تھی اُن میں تو سرسید، محسن الملک اور وقارالملک جیسے مدبر اور منتظم پیدا ہوگئے، جو مغربی زبان وا دب سے تقریبا ناواقف تھے انھوں نے آب حیات، سخندانِ فارس اور مسد س حالی جیسی مایہ ناز کتابیں تصنیف کر ڈالیں۔ اُسکے برعکس وہ طلباء جنہوں نے کالج کی عالیشان عمارتوں میں یورپ کے بہترین اساتذہ سے تعلیم حاصل کی وہ محض اس قابل ہوپا ئے کے کسی دفتر کے کل پُرزے بن پائیں گزشتہ ڈیڑھ صدی میں علمی میدان میں کوئی ایساقابل ِ قد ر کارنامہ نہیں جو علی گڑھ میں انجام پایا ہو۔ کوئی تفسیر، کوئی فقہ، کوئی تاریخ، کوئی لٹریچرایسا نہیں جس کے بارے میں یہ فخرسے کہا جاسکے کہ یہ دانش گاہِ سرسید کی مرہونِ منت ہے۔جس جدید اُردو شاعری اور نثر نگاری کی پیدائش علی گڑھ میں ہوئی اور جہا ں سرسید نے تہذیب الاخلاق جیسا ادبی جواہر پارہ جاری کیا اُس علی گڑھ سے بہت توقع تھی کی اردو زبان و ادب کو یہ مزید پروان چڑھائے گا، لیکن صد افسوس کہ اردو تصنیف وتالیف میں بھی علی گڑھ کو کوئی قابل ذکر مقام حاصل نہ ہوسکا۔ جس علی گڑھ کے بارے میں رشید احمد صدیقی یہ فرماتے ہیں کہ ”اردو جاننا اور علی گڑھ سے واقف نہ ہونا بجائے خود کسی فتور کی علامت ہے، اردو کا نام علیگڑھ بھی ہے!” ا س علی گڑھ میں اردو کی مجموعی صورتحال بھی قابل ِ رحم ہے۔ طالب علموں کی ایک کثیر تعداد اردو رسم الخط سے نابلد ہے، شعر فہمی اور ادب شناسی تو بہت دور کی بات ہے۔ جس علی گڑھ کا قیام ہی انگریزی تعلیم کے حصول کے لیے ہوا تھا اورجس علی گڑھ کو انگریزی کے بہترین مغربی اساتذہ کی خدمات حاصل رہیں اور جس کے فارغ التحصیل ذاکر حسین جب انگریزی میں تقریریں کرتے تو لوگ دانتوں تلے انگلیا ں دبا لیتے، اُ س علی گڑھ میں روانی اور فصاحت کے ساتھ انگریزی بولنے والے خال خال ہی مل پائنگے۔
ہا ں! وقتاًفوقتاًکچھ نام چیں ہستیاں علی گڑھ میں ضرور پیدا ہوئیں جنھو ں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کالوہامنوایا اور کچھ حکومت کے آعلیٰ عہدوں پر فائز بھی ہوئیں، لیکن بقول سرسید قوم کو ایسے” تعلیم یافتوں ”سے کچھ مدد نہیں پہنچ سکی۔ اپنے مقصدِ وجود اور عظیم الشان ماضی سے انحراف کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کے عام تعلیمی اداروں کی طرح علی گڑھ یونیورسٹی بھی ڈگریوں کی ترسیل کا ذریعہ بن گئی۔ اساتذہ اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور اسے نئی پیڑھی تک منتقل کرنے کے بجائے شعبہ جاتی سیاست، ڈرائنگ روم کی تزئین کاری اور گل ِ داؤدی کے پودے لگانے میں مصروف ہوگئے۔ ایران کی قالین، عہد وسطیٰ کے فانوس اور ترکی کے فرنیچر کا تذکرہ بڑے فخریہ انداز میں ہونے لگا۔ مطالعہ کا شوق ختم ہوا تو الماریوں سے کتابیں غائب ہونے لگیں اور اس کی جگہ نوادرات نے لے لیں۔ درس و تدریس مشن کے بجائے ایک پیشہ ہوگیا جس کا بُرا اثر تعلیم کے معیار پر پڑنا فطری تھا۔اقربا ء پروری، سفارشی تقرری اور داخلوں میں نامزدگی کی روایت نے معیار ِتعلیم پر انتہائی بُر ا اثر ڈالا،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تعلیم کا معیار پستی کی جانب چل پڑا۔
لیکن علی گڑھ میں کوئی چیز اب بھی مجھے اپنی جانب کھینچتی ہے تو وہ علی گڑھ تحریک کی زریں تاریخ ہے جس کی معنویت میری نظر میں آج بھی برقرارہے- سرسید کا وہ خواب ہے جسے ابھی شرمندہ ء تعبیر ہونا باقی ہے۔احباب ِ سرسید کا وہ مشن ہے جو علی گڑھ کو علم و فن کے مرکز میں تبدیل کردینا چاہتا تھا۔علی گڑھ کی فضاؤں میں رچی بسی زبان و ادب کی وہ خوشبوئیں ہیں جو میرے دل و دماغ کو معطر کیئے دیتی ہیں – حالی، شبلی اور نذیر کے بینظیر کارناموں کی داستانیں ہیں جس نے اردو شاعری اور ادب میں نئے باب کا اضافہ کیا تھا۔ مولوی چراغ علی اور سید امیر علی جیسے پائے کے عالم دین اور مفسر قرآن کی چھاپ ہے جنھوں نے سخت ترین حالات میں اسلام پر چہار سو یلغار کا بھرپور دفاع کیا تھا- محسن الملک اور وقار الملک جیسے صاحب بصیرت اور مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خاں اور ڈاکٹر ذاکر حسین جیسے نابغہ ء روز گار ہستیوں کے نشانات ہیں جو میرا جذباتی رشتہ علی گڑھ سے ٹوٹنے نہیں دیتے۔
آج ایک بار پھر جب یوم سرسید کے موقع پر پوری یونیورسیٹی چراغاں کی جارہی ہوگی، سرسید ہاؤس قمقموں کی روشنیوں میں نہا رہا ہوگا، سرسید کیے مزار پر پھولوں کی بارش ہورہی ہوگی اور دوسری جانب بریانی اور قورمے کی د ل آویز خوشبوؤں کے دوران جب مقررین ” ایک ہاتھ میں قران اور دوسرے ہاتھ میں سائنس ”کا ورد کررہے ہونگے تومیرے ذہن کے منظر نامے پر ایک سوال یونہی ابھر آیا ہے کہ کیا اب بھی ارباب علی گڑھ میں اس عظیم قومی سرمائے کو سرسید کے خوابوں کا ادارہ بنانے کا خواب پایا جاتا ہے یا فکر سرسید کی بساط اب علی گڑھ سے لپیٹی جا چکی ہے؟
(مضمون نگار قلم کار، انڈیااسلامک کلچرل سینٹرکی مشرق وسطیٰ شاخ کے کنوینر اور جامعہ طلباء یونین کے سابق نائب صدر ہیں)