تم اور تمہارا مال تیرے والد کا ہے (أنت ومالك لأبيك)

محمد انعام الحق قاسمی

مملکت سعودی عرب، ریاض 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم اور تمہارا مال تمہارے باپ کا ہے)۔ ایک صحیح حدیث جسے جابر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے اور اسے ابن ماجہ نے سمرہ اور ابو مسعود رضی اللہ عنہما سےروایت کیا ہے اور اسے طبرانی نے الاوسط اور الصغیر میں بيان کیا ہے، اور بیہقی نے اسے دلائل النبوۃ میں روايت کیا ہے، اور ابن حجر اور البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

حدیث کی دوسری روایت یہ ہے: (تم اور تمہارا مال تمہارے والد کا ہے، تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی میں سے ہے، لہٰذا تمہاری اولاد جو کمائے اس میں سے کھاؤ)۔ اسے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ احمد، ابو داؤد اور ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے۔طبرانی اور بیہقی کی روایت کے مطابق اس حدیث میں ایک اثر انگیز قصہ ہے جسے المنکدر بن محمد بن المنکدر نے اپنے والد جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا:

“ایک صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، میرے والد نے میرا مال مجھ سےلے لیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی سے فرمایا: (جا اپنے باپ کو لے آ)۔ جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور فرمایا: اللہ عز وجل آپ کو سلام بھیجتا ہے اور آپ سے فرماتا ہے: اگر شیخ آپ کے پاس آئیں تو آپ اُن سے اس چیز کے بارے میں پوچھیں جو انہوں نے دل میں اپنے آپ سے کہا جسے اُن کے کانوں نے بھی نہیں سنا۔ جب شیخ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے فرمایا: تمہارا بیٹا کیوں تمہارے خلاف شکایت کررہاہے کہ تم اس کے پیسے [مال] لینا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: یا رسول اللہ آپ اس سے پوچھیں کہ کیا میں اسے سوائے اپنےاس کی پھوپھی یا خالہ کے اوپرخرچ کرتا ہوں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ارے! چھوڑو، ہمیں ذرا یہ بتاؤ کہ تم نے خود سے کیا کہا جسے تمہارے کانوں نے بھی نہیں سنا) شیخ نے کہا: خدا کی قسم، اے اللہ کے رسول، اللہ ہمیں آپ میں مزید یقین بڑھاتا رہتا ہے! میں نے اپنے آپ سے جو کچھ کہا جسے اب تک میرے کان بھی نہیں سن سکے ہیں. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کہو ! میں سنتا ہوں) اس نے عرض کیا کہ میں کہاہے:

” تم بہت چھوٹے تھے تجھے کھلا پلا کر جوان کیا اب تم ہٹھے کٹھے ہوگئے ہو تو تم میں بڑکپن اور تعلی آگئی ہے

جس رات تم بیماری میں مبتلا ہوجاتے تھے تمہاري دیکھ بھال کیلئے جاگتا اور اضطراب میں مبتلا رہتا تھا

گویا میں تیرے بغیرکچھ نہیں تھا اور میری آنکھیں تیرے بغیر بے چین رہتی تھیں ۔

تمہاری کوئی بھی پریشانی میری جان لے لیتی تھی جب کہ یہ حقیقت ہے کہ موت کا وقت مقرر ہے

جب تم مقصد برآوری کی عمر کو پہنچ چکے ہو اور مجھے تم سے کتنی امیدیں تھیں؟

تم بدلے میں سختی اور بدتمیزی پر اترآئے گویا تم ہی منعم اور فضل والے ہو

اگر تو نے میرے والد ہونے کا حق ادا نہ کیا، تو تو نے میرے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جیسا کہ پڑوسی کرتا ہے۔

اگرتو پڑوسی ہونے کا بھی حق ادا کرتا ، تو بھی اپنا مال مجھ پر خرچ کرنے پر بخل نہیں کرتا۔”

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکے بیٹے کی گریبان کو پکڑا اور فرمایا: تم اور تمہارا مال تمہارے باپ کا ہے۔

اس کو زمخشری نے “الکشاف” میں اثر انگیز کہانیوں کے ضمن میں ذکر کیا ہے، حالانکہ یہ محدثین کے نزدیک صحیح نہیں ہے، سعید بن المسیب نے ذکرکرتے ہوئے کہا ہےکہ: “نیک آدمی بری موت نہیں مرتا۔”

ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: میرے والدین بڑھاپے کو پہنچ گئے ہیں اور جو کچھ انہوں نے مجھے بچپن میں دیا تھا اسکے بدلے میں ان پر خرچ کرچکاہوں تو کیا میں نے ان کا حق ادا کردیا؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نہیں، وہ ایسا کرتے تھے اوروے یہ چاہتے تھے کہ تم پھولو پھلو، اور تم ایسا کرکے یہ چاہتے ہو کہ وہ مر جائیں)۔

زمخشری نے ذکر کیا ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ اس کا باپ اس کے مال میں سے لے رہا ہے، تو آپ نے اسے بلایا، تو ایک بوڑھا آدمی چھڑی پر ٹیکتے ہوئے آیا تو آپ نے پوچھا ، تو شیخ نے جواب دیا: وہ کمزور تھا اور میں قوی، اور وہ غریب تھا اور میں امیر، تواس وقت میں نے اسے اپنے مال میں سے کسی چیز سے نہیں روکا، اور آج میں کمزور ہوں اور وہ طاقتور، میں غریب ہوں اور وہ مالدار ہے تو وہ اپنے مال سے مجھ پرخرچ کرنے میں بخل کر رہا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رو پڑے اور فرمایا: کوئی پتھر یا آدمی ایسا نہیں جو یہ سنتا تو رونہ پڑتا۔ لڑکے سے دو مرتبہ فرمایا: “تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔” تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے)۔

ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے طواف میں ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ اپنی ماں کو اٹھائے ہوئے ہے اور کہہ رہا ہے: کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ میں نے اپنی ماں کا حق ادا کردیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ تم اپنی ماں کی ایک آہ کا بدلہ بھی نہیں چکاسکے ہو۔

ابن حجرنے بیان کیا ہے کہ جسے عبد اللہ بن المبارک نے البر و الصلہ کے باب میں اپنے سند سے روایت کیا ہے اور فرمایا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ بیت اللہ کا طواف کررہے تھے تو دیکھا کہ ایک آدمی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پوری حدیث بیان کی یہ صحیح سند ہے۔ بیہقی نے الشعب میں روایت کی ہے۔

بہتر ہے کہ ابن قدامہ کے ذریعہ اس حدیث سے فقہی مستنبط حکم کو نقل کردیا جائے: آپ نے فرمایا کہ باپ اپنی مرضی کے مطابق اپنے لڑکے کے مال سے جو چاہے لے سکتاہے۔ جو ملکیت لڑکے کے پاس ہے اس میں باپ کی ضرورت بھی شامل ہے ، چاہے بچہ جوان ہو یا بوڑھا، دو شرائط کے ساتھ:

[پہلا] بیٹے کے ساتھ ناانصافی نہ ہو یا نقصان نہ پہنچے، اور کوئی ایسی چیز نہ لے جسے اسکی ضرورت نہ ہو۔

(اور دوسرا) لڑکے سے رقم لے کر دوسرے کو نہ دے، جیسا کہ احمد نے اسماعیل بن سعید کی روایت میں بیان کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی رقم میں سے کچھ رقم بطور تحفہ کسی دوسرے لڑکے کو دینے سے منع کیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ مسروق نے اپنی بیٹی کی شادی میں دس ہزاردرہم جہیز میں دیا، پھر اس سے لے کر خدا کی راہ میں خرچ کر دیا، اور شوہر سے کہا: اپنی بیوی کیلئے سارا سامان مہیا کرکے دے۔

ابو حنیفہ، مالک اور شافعی رحمهم الله نے کہا: اسے اپنے بیٹے کے پیسے سے لینے کا حق نہیں ہے سوائے اس کے کہ جتنی اس کی ضرورت ہے. لیکن اسکے برعکس ہمارے پاس اسکی دلیل عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ سب سے پاک وہ چیز ہے جو کچھ تم نے اپنی کمائی میں سے کھایا اور تمہاری اولاد تمہاری کمائی ہے]۔” اسے سعید اور ترمذی نے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا: یہ حدیث حسن ہے۔

عمرو بن شعیب اپنےدادا کے واسطے اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: میرے والد نے میرے مال پر چڑھائی کردی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم اور تمہارا مال تمہارے باپ کا ہے)۔

اور اس لیے کہ خدائے بزرگ و برتر نے لڑکے کو اس کے باپ کے لیے تحفہ بنایا اور فرمایا: “اور ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب عطا کیے” [الانعام: 84]۔

اور فرمایا: ’’اور ہم نے اسے یحییٰ عطا کیا‘‘ (الانبیاء: 90)۔

اور زکریا نے کہا: “مجھے اپنی طرف سے ایک ولی عطا کر” [آل عمران: 38]۔

اور ابراہیم نے کہا: “خدا کا شکر ہے جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا کیے” [ابراہیم: 39]۔

اور جو اسے تحفے کے طور پر دیا گیاہے، تو اسے جائز ہے کہ وہ اس کے پیسے میں سے لے لے وہ ایسا ہی ہے جیساکہ اس کا خادم ، اور سفیان بن عیینہ نے اپنے قول کی تائید میں اللہ تعالی کا ارشاد نقل کیا: “اور نہ خود تم پر کہ اپنے گھروں سے کھانا کھاؤ یا اپنے باپوں کے گھروں سے ” [النور: 61]۔پھر اس نے اولاد و بچوں کے علاوہ باقی تمام رشتہ داروں کے گھروں کا ذکر کیا، ان کے گھروں کو بیان نہیں کیا۔ کیونکہ وہ اس کے قول “تمہارے گھر” میں داخل ہیں۔ اور چونکہ ان کے بچوں کے گھر ان کے گھروں کی طرح ہیں، اس لیے اس نے ان کے بچوں کے گھروں کا ذکر نہیں کیا، کیونکہ ایک آدمی اپنے بیٹے کے پیسے پر بھروسہ کیے بغیر اس کی دیکھ بھال کرتا ہے، لہذا اسے اپنے مال کی طرح بچے کے مال میں تصرف کا حق حاصل ہے” ابن قدامہ کا حکم مستنبط مکمل ہوگیا۔

شریعت اسلامیہ میں والدین کا درجہ بلند ہے۔ باپ انسان کے وجود کا سبب ہے۔ باپ اور اس کی ماں وہ ہیں جنہوں نے اس کی دیکھ بھال کی اوراسے پالا پوسا اور پروان چڑھایا۔ اگر ماں باپ اس کی دیکھ بھال نہ کرتے، اسے نہ دودھ پلاتے، اسے پاک صاف نہ رکھتے اور اس کا علاج نہ کراتے تو وہ ضرور ہلاک ہو جاتا۔ کیونکہ وہ تمام مخلوقات میں سب سے کمزور پیدا ہوا تھا، تواِن دونوں نے اس کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا، اسے لازمی طور پر اس احسان کا بدلہ راستبازی اور فرمانبرداری سے دینا چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ نہیں ہے؟‘‘ (الرحمٰن: 60)۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :﴿ اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے بات ادب کے ساتھ کرنا ﴾ [الإسراء: 23-24].

اللہ تعالیٰ لڑکے کو اپنے والدین سے (اف) کہنے کو بھی حرام قرار دیا ہے۔اگر انہوں نے اسے کوئی معاملہ سونپا،تو اللہ تعالی نے اسے حکم دیا ہے کہ لڑکا انکے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کرے، اور اسے حکم دیا کہ وہ اس دنیا میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرے، اگرچہ وہ کافرہوں اور اسے شرک کی طرف بلائیں گے.

[اور اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک کرے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا۔ ہاں دنیا (کے کاموں) میں ان کا اچھی طرح ساتھ دینا اور جو شخص میری طرف رجوع لائے اس کے رستے پر چلنا پھر تم کو میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔ تو جو کام تم کرتے رہے میں سب سے تم کو آگاہ کروں گا] لقمان15)

الحمد للہ ہمارا اسلامی معاشرہ والدین پر مہربانی و حسن سلوک، ان کی دیکھ بھال اور فرمانبرداری میں دوسرے معاشروں سےامتیازی شان رکھتاہے، اور یہی چیز ہمیں دوسرے معاشروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اور ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جو اپنے والدین کی نافرمانی کرے گا وہ دنیا میں کامیاب نہیں ہو گا اور آخرت کا عذاب زیادہ سخت اور دیرپا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں حق پر ثابت قدم رکھے اور ہمیں اپنی رضا و خوشنودی کی توفیق عطا فرمائے۔

=====::=====

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com