جامع مسجد بنارس (گیان واپی)، حقیقت اور مفروضہ کہانی میں کشمکش

مولانا عبد الحمید نعمانی 

اکثریت میں طاقتور عناصر، اقتدار کا سہارا لے کر بڑی آسانی سے مفروضہ کہانی کو تاریخی حقیقت میں بدل دیتے ہیں، ایسا تاریخ میں بارہا ہوا اور آج بھی ہورہا ہے، اسے ملک کے مختلف حصوں میں کئی تاریخی معابد و ماثر پران کی موجودہ ہیت و صورت کے بر عکس دعوے و حملے کی شکل میں کھلی آنکھوں دیکھا جا سکتا ہے۔رام چندر، بھارت کا ایک ما قبل تاریخ کا معروف کردار ہے، جسے بیٹا، بھائی اور بہتر حکمراں کے طور رپر ایک آئیڈیل کی صورت میں سامنے رکھا جاتا رہا ہے۔ اسی طرح شیو، نیل کنٹھ کا معاملہ ہے، دونوں کو شر (راون) اور زہر سے سماج کو بچانے کے لیے علامتی کردار کے روپ میں دیکھا جاتا ہے، ایسے کرداروں کوکسی ایک فرقے کے دائرے میں اسیر کردینا، اعلی درجے کی بے دانشی ہے۔ شیو نگری کاشی اور رام نگری اجودھیا کا فرقہ وارانہ مقاصد و اغراض کے لیے استعمال، ان کے وجود اور پیش کردہ کردار کے بر خلاف معاملہ ہے، لیکن ایک اجارا دارانہ پست ذہنیت کے تحت ایسا ہو رہا ہے۔

رام جنم بھومی مندر کے متعلق فیصلے میں ایک بات تو بہت صاف ہے کہ مندر فریق کے دعوے کو مسترد اور عمل کو جرم قرار دیا گیا ہے اس حوالے سے تضاد اور فیصلے کا وزن، ہمیشہ سوال بنا رہے گا، بنارس کی جامع مسجد گیان واپی کے متعلق جس طرح معاملے کے مختلف پہلو سامنے آرہے ہیں ان سے بڑی حد تک صاف ہو گیا ہے کہ کچھ منصوبہ بند عمل جاری ہے۔ گزشتہ دنوں ورانسی ضلع جج نے فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ گیان واپی،شرنگارگوری کیس میں 1991ءعبادت گاہ قانون لاگو نہیں ہے اور ہندو فریق کی طرف سے دائرمقدمہ قابل سماعت ہے۔ لیکن حالیہ فیصلے میں ہندو فریق کی طرف سے مبینہ شیولنگ کی کاربن ڈیٹنگ جانچ کے مطالبے کو مسترد اور عرضی کو خارج کرتے ہوئے کہا ہے کہ شیولنگ کی کاربن ڈیٹنگ جانچ نہیں ہوگی اور مبینہ شیولنگ کو محفوظ رکھا جائے، آئندہ معاملہ کس رخ پر جائے گا اس کے متعلق حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، لیکن کثرت پرستی کے دباؤ میں جس طرح کی باتیں اور حالات سامنے آرہے ہیں، وہ کسی بھی آزاد اور برابری پر مبنی نظام حکومت اور جمہوری سماج کے لیے اچھی علامت نہیں ہے۔ کئی مسلم نام والے، ہندوتووادی اثرات کے تحت مسجد اور مسلمانوں کے بر خلاف وزن ڈالتے نظر آتے ہیں، جب کہ وہ یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ ملک میں اچھے دن ہیں، بنارس کی انجمن انتظامیہ مساجد کو شرنگار گوری کی پوجا ارچنا کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے باعزت سمجھوتا کرلینا چاہیے، مولانا آزاد ؒ سے رشتہ داری دکھانے والے ایک صاحب تو آن کیمرا یہ تک کہہ رہے ہیں کہ بنارس کی انجمن انتظامیہ مساجد نے غلطی کی ہے، لیکن ایسے شواہد و حقائق کی بنیاد پر اپنے دعوے کو صحیح ثابت نہیں کر پاتے ہیں، وہ یہ بھی نہیں بتاتے ہیں کہ شرنگار گوری پوجا کی جگہ تو مسجد سے باہر کے حصے میں ہے تو مسجد کے سروے کا مطلب و مقصد کیا ہے اور بات وضو خانہ تک کیسے پہنچی اور شرنگار گوری کی جگہ کس کی ملکیت اور پوجا کا سلسلہ اور نندی تنصیب کب اور کیسے ہوئی ہے۔ اس طرح کے سوالات کو نظر انداز کر کے ادھر ادھر کی باتیں کرنے والے عموماً تاریخ سے دور اور الگ ہوتے ہیں اور چالو قسم کی باتیں کر کے عملی صورت حال کی ان دیکھی کرتے ہیں، وہ گیان واپی محلے میں واقع مسجد کے تناظر میں سنی سنائی باتوں کے مد نظر، اورنگ زیب کا نام لیتے ہیں لیکن عصری بنیادی کتب تاریخ کا سرے سے سنجیدہ مطالعہ نہیں کیا ہے۔ وہ دیگر مسلم حکمراں اور مغلیہ عہد میں سرکاری مقاصد کے بر عکس سرگرمیوں کو روکنے کے لیے کچھ متعلقہ مندروں کے انہدام اور مندر توڑ کر اس کی جگہ مسجد کی تعمیر کے درمیان فرق نہیں کرتے ہیں، اورنگ زیب کے دور کی معاصر کتب تواریخ اس کے ذکر سے خالی ہے کہ اس نے کاشی (بنارس) میں مندر توڑ کر کسی مسجد کی تعمیر کی تھی، اس کے متعلق بہت بعد کے دنوں میں جاری پروپگینڈا، برٹس سامراج کی سامراجی شرارت پر مبنی ہے، جس کا حقیقت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ابھی تک کوئی بھی معتبر معاصر شہادت اس کے متعلق سامنے نہیں آئی ہے۔ مولانا وحید الدین خاں ؒ نے گرچہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد مشورہ دیا تھا کہ مسلمان اس کو بھول جائیں اور اپنے دعوے سے دست بردار ہوجائیں۔ اس حوالے سے ان کا شمار ہندوتووادی عناصر کی پسندیدہ شخصیات میں ہوتا ہے۔ تاہم مولانا وحید الدین خاں ؒ بھی جامع مسجد گیان واپی کے متعلق ہندوفریق کے دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں، انھوں نے اپنی معروف کتاب ”ہندوستانی مسلمان“ میں واضح الفاظ میں لکھاہے کہ تاریخ کی تصیح کانظریہ آج عالمی سطح پر رد کیا جا چکا ہے، اس قسم کا نظریہ در حقیقت مذہبی تعذیب کے اس دور کو نئے نام کے ساتھ واپس لانا ہے جس کو موجودہ زمانہ میں صرف دور وحشت کی چیز سمجھاجاتا ہے، یہ نظریہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے فناٹسزم ہے نہ کہ فی الواقع تاریخ کی تصیح، ناگپور کے ایک بودھ دانشور ڈاکٹر ویمل کیرتی نے بجا طور پر کہا ہے کہ جو ہندو صاحبان آج تاریخ کی تصحیح کی بات کرتے ہیں کیا وہ اپنے اس نظریہ کو تاریخ میں پیچھے تک لے جائیں گے، کیا وہ اس کے لیے تیارہیں کہ خود ان کے ساتھ وہی کیا جائے جو وہ دوسروں کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں، کیوں کہ یہ ہندوصاحبان جس چیز کا الزام اورنگ زیب کو دے رہے ہیں وہ اس سے زیادہ بڑے پیمانے پر خود انھوں نے بھی انڈیا کے بودھوں کے ساتھ کیا تھا، یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی میں بھارت کے براہمنوں نے اس وقت کے راجاؤں کی مددسے بودھوں کے خلاف سخت تعذیبی اقدامات کیے انھوں نے بودھ عبادت خانے توڑ ڈالے اور ان کی جگہ ہندو مندر بنادیا۔

اس کے بعد مولانا خاں ؒ نے دی ہندو گروپ کے ہفت روزہ فرنٹ لائن (“29/جنوری 1992ء) میں وینکٹیش راما کرشنن کی رپورٹ دی ہے، جسے انھوں نے بنارس جا کر معاملے کی پوری تحقیق کے بعد تیار کی تھی۔ رپورٹ میں تمام تر امور کا جائزہ لیتے ہوئے واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ اجودھیا کی طرح متھرا اور بنارس میں بھی تنازعہ کی بنیاد حقیقت پر مبنی نہیں ہے، وہ صرف افسانہ پر مبنی ہے۔

As at Ayodhya, The Disputes, at mathura and Varansi have their basis in Myths,

آگے راماکرشنن نے یہ بھی لکھا ہے کہ ہندو توکے علمبردار یہ کہتے ہیں کہ مسجد کو ایک مندر توڑ کر بنایا گیا تھا، مگر اس دعوے کے حق میں ان کے پاس کوئی واضح ثبوت موجود نہیں ہے، مزید یہ کہ مہنت لوگوں کے بیانات میں بھی یکسانیت نہیں ہے، کچھ مہنت کہتے ہیں کہ اصل وشو ناتھ مندر وشیشور گنج میں تھا، یہ مقام گیان واپی مسجد سے دو کلو میٹر دور ہے، موجودہ وشو ناتھ مندر کو اندور کی مہارانی اہلیا بائی ہولکر نے 1777ءمیں بنوایا تھا، اس سے اچھی طرح حقیقت اور مفروضہ کہانی کے درمیان فرق واضح ہوجاتا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلے میں تمام طرح کے شواہد کو حاصل و جمع کیا جائے اور مفروضہ کہانی کو تاریخ بننے سے روکا جائے۔

noumani.aum@gmail.com

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com