مولانا سید محمد عثمان غنی کے اصلاحی اداریے جریدہ ’ امارت ‘ کے حوالے سے

مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی

مولانا سیدمحمد عثمان غنی امارت شرعیہ کے سابق ناظم، جمعیۃ علماء بہار کے سابق صدر وناظم، مولانا عبیداللہ سندھی کی تنظیم ــــ ’’ جمعیۃ الانصار ‘‘ کے سرگرم رکن اور امارت شرعیہ کے ترجمان جریدہ ’’ امارت ‘‘ و ’’ نقیب ‘‘ کے سابق مدیر تھے۔ وہ علوم دینیہ اور مختلف علوم و فنون میں غیرمعمولی صلاحیت کے حامل تھے، وہ زمانۂ طالب علمی ہی میں مجاہد انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی سے قریب ہوئے اور ان کے ساتھ مل کر ملک کی سیاست و تحریک آزادی میں سرگرم حصہ لیا۔ انہوں نے جمعیۃ الانصار کے اجلاس موئتمر الانصارلئے جم کر کام کیا۔ اس اجلاس کو کامیاب بنانے کے لئے سرگرمی سے کام کیا ، یہ اجلاس ۱۹۱۱ء میں مراد آباد اور ۱۹۱۲ء میں میرٹھ میں منعقد ہوا تھا۔

جمعیت الانصار دارالعلوم دیوبند کی ایک تنظیم تھی، جس کو حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے قائم کیا تھا۔ جمعیت الانصار کے قیام کے سلسلے میں ڈاکٹر اقبال حسن خان تحریر کرتے ہیں:

’’ شیخ الہند کی کارگزاریوں کے غائر مطالبہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ نے اپنے ذہن میں انقلاب کا جو نقشہ تیار کیا تھا اور اس کے لئے جوطریقہ اختیار کیا، وہ اپنے بزرگوں مولانا محمد قاسم صاحب، حضرت حاجی امداد اللہ صاحبؒ اور مولانا گنگوہیؒ کے طرز پر تھا، یعنی قوم کی مذہبی بنیادیں اس قدر استوار ومستحکم کردی جائیں کہ ہر وہ چیزجو دوسری راہوں سے آئے اس کے یہاں ناقابل قبول ٹھہرے۔ نیز مذہبی بنیادوں پر کام کرنے کا ایک مقصود یہ بھی تھا کہ عوام میں صحیح دینی روح پھونک کر انہیں متحد کیا جائے تاکہ جب وقت آپڑے، وہ بلاپس وپیش میدان کارزار میں دوڑ آئیں۔ شیخ الہندؒ کی کوششوں کا جو بھی مرتب طور پر مطالعہ کرے گا ہمیں یقین ہے کہ اسی نتیجہ پر پہنچے گا۔”

          دارالعلوم کا دائرہ وسیع ہورہا تھا، اور ان کے طلبہ وفارغین کی تعدادمیں دن بہ دن اضافہ ہورہاتھا، اس لئے ان کو متحد کرکے ان سے کام لینا ضروری تھا، اس لئے حضرت شیخ الہند نے ۱۹۰۹ء میں جمعیت الانصار کے نام سے ایک وسیع تنظیم کی بنیاد ڈالی۔

 مولانا عبیداللہ سندھیؒ ایک عبقری و انقلابی ذہن کے حامل تھے، یہ حضرت شیخ الہندؒ کے ذہن وفکر کے زیادہ قریب تھے اور پروگرام کو اچھی طرح کامیاب بناسکتے تھے، اس لئے حضرت شیخ الہند نے نظامت کے لئے حضرت عبیداللہ سندھی کو منتخب فرمایا، اسی جلسہ میں یہ طے ہوا کہ جمعیت الانصار کا پہلا اجلاس مراد آباد میں ہوگا۔ جمعیت الانصار کا پہلا عظیم الشان اجلاس مراد آباد میں ۱۵؍۱۶؍اور۱۷؍ اپریل ۱۹۱۸ء کو منعقد ہوا۔

شیخ الہندؒ کی سرپرستی مولانا سندھی کی نظامت میں جمعیت الانصار نے کافی ترقی کی ،جو بالواسطہ خود دارالعلوم دیوبند کی شہرت اور ترقی کا ذریعہ بنی۔ ملک کے مختلف حصوں میں فارغین دارالعلوم دیوبند اور تمام مسلمانوں نے اس تحریک کی کارگزاریوں سے دلچسپی لینا شروع کیا۔ اس کے جلسہ علمیہ کا انعقاد بھی مراد آباد میں ہوا، اس کا نام مئوتمرالانصار تھا۔ مئوتمر الانصار کے پہلے اجلاس کےسلسلے میں مولانا حبیب الرحمٰن مدیر رسالہ القاسم تحریر کرتے ہیں۔

’’مؤتمر الانصار کا یہ پہلا اجلاس جو مراد آباد میں ہوا، اس میں مجموعی اندازہ کے مطابق شرکاء کی تعداد تقریباً دس ہزار تھی۔ تین دن تک یہ عظیم الشان اجلاس جاری رہا۔ اس میں مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا احمد حسن امروہوی اور مولانا شبیر احمد عثمانی وغیرہ کی متعدد مفید اور کارآمد تقریروں کے علاوہ بعض دوسرے علماء نے بھی حاضرین کو اپنے وعظ و ارشادات سے مستفید فرمایا۔‘‘

اس طرح طویل عرصہ تک مولانا عبیداللہ سندھی ؒکی صحبت میں رہے ، ان کے ساتھ مل کر کام کیا ،اکابر علماء سے ملنے اور ان کے ساتھ وقت گزارا ، اس طرح ان حضرات کی صحبت اور تربیت نے مولانا عثمان غنی کو بھی بے باک اور جری بنادیا۔ ساتھ ہی ان میں دینی فکر اور اصلاحی جذبہ بھی پروان چڑھا ،اور وہ مفکر اور مصلح کی حیثیت سے بھی ابھر کر سامنے آئے ، اور طالب علمی کے زمانہ ہی سے ان کی صلاحیتیں مختلف جہات میں نمایاں ہونے لگیں۔

جب وہ دار العلوم دیوبند سے فراغت کے بعد بہار واپس آئے تو مولانا عبیداللہ سندھی کا ساتھ چھوٹا، مگر یہاں ان کی ملاقات ایک دوسری انقلابی اور بڑی سماجی و اصلاحی شخصیت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ سے ہوگئی۔ وہ نوجوان ، بے باک وجری اور پُرجوش فکر سے بھرپور اور ملت کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ رکھنے والے مولانا سے بہت متاثر ہوئے۔ پھر جب ۱۹؍ شوال ۱۳۳۹ھ مطابق ۱۹۲۰ء میں امارت شرعیہ کا قیام عمل میں آیا ،تو انہیں امارت شرعیہ کا ناظم بنایا ، پھر جب ۱۹۲۴ء میں امارت شرعیہ کا پندرہ روزہ ترجمان ’’ امارت ‘‘ کے نام سے جاری ہوا تو آپ کو اس کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا۔

         مولانا سید عثمان غنی کے بےباکانہ اسلوب ،حق وصداقت کی بات، صحافت میں ادب کی چاشنی اور ان کی انفرادی انداز صحافت ، ملت اور مسلم سماج کے لئے اصلاحی فکر نے جلد ہی لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا اور پندرہ روزہ جریدہ ’’امارت‘‘ کی مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا۔ لوگوں میں بیداری پیدا ہوئی ، بہت حد تک سماجی انتشار ختم ہوئے ، لوگ اتفاق و اتحاد کی جانب متوجہ ھوئے ، اس طرح جریدہ امارت نے بیحد مقبولیت حاصل کر لی ، لوگ جریدہ امارت کے اداریئے کے دیوانے نظر آنے لگے ، اس جریدہ کا اداریہ ملک کی آزادی اور سالمیت ، باہمی روادی ، آپسی میل و محبت ، قومی یکجہتی کے فروغ اور مسلم معاشرہ کی اصلاح پر مشتمل ہوتا تھا ، یہی وجہ ھوئی کہ ’امارت‘‘ کی مقبولیت اور پسندیدگی سے حکومت کے کان کھڑے ہوگئے، آپ کی جارحانہ تنقید کو حکومت برداشت نہیں کرپائی ،اس طرح کئی مرتبہ مقدمہ چلا ۔ ۱۸؍ مئی ۱۹۲۶ء کے ایک اداریہ پر حکومت نے اس شمارہ کو ضبط کرلیا اور بغاوت کا مقدمہ کردیا۔

  ۱۸۰۳سے ۱۹۱۸ تک علمائے کرام ملک کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد کرانے کے لئے تحریک چلا رہے تھے۔ انہوں نے اس تحریک میں برادران وطن کو شامل نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے تحریک کو تیز کرنے میں دشواری پیش آئی۔ ۱۹۱۹ میں جمیعت علمائے ہند کا قیام عمل میں آیا تو جمیعت علماء سے وابستہ علماء نے محسوس کیا کہ ملک کو آزاد کرانے کے لئے برادران وطن کے ساتھ اتحاد ضروری ہے، پھر جمعیت علماء ہند کے قیام کے بعد برادران وطن کے ساتھ اتحاد قائم کرنے پر اتفاق ہوا اور دونوں قوموں کے رہنماؤں نے آپسی مصالحت کی تجویز منظور کی۔ مولانا سید عثمان غنی جریدہ ’’ امارت ‘‘ میں تحریر کرتے ہیں

  ’’ وقت کی نزاکت “

 ایں چہ شوریست کہ دردورقمرمی بینم

 ہمہ آفاق پر از فتنہ و شرمی بینم

ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت جب سے قائم ہوئی ہے ،ہندو و مسلم فرقہ وارانہ جذبات ابھرنے لگے، اور اوسی کے بدولت ہمیشہ کچھ نہ کچھ ان قوموں کے درمیان جھگڑا ہوتا رہا ۔آخر ایک زمانہ دراز کے بعد دونوں قوموں کو اللہ تعالیٰ نے عقل سلیم سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائی۔ چنانچہ ۱۹۱۹ میں دونوں قوموں کے رہنما ملکی فلاح وبہبود اور اپنی اپنی قوم کو بچانے اور غیروں کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے آپس میں ایک حد تک متحد الخیال ہو گئے اور عہد مصالحت کیا اور عقد سالمیت کے مضبوط کرنے کا قصد مصمم کر دیا اور ان رہنماؤں نے ایک متفقہ آواز سے تمام اقوام ہند کو نہایت زور شور کے ساتھ مصالحت و مسالمت کی طرف بلاوا دیا۔ آخر ان کی آواز فرقہ وارانہ شور و شر پر غالب آئی اور بہت حد تک باہمی اسٹیٹ کا دار و دورہ رہا۔‘‘

 اسی درمیان ۲ نومبر ۱۹۲۷ اگست میں بتیا فساد کو موقع پر ۲۰ صفر ۱۳۴۶ مطابق ۱۹ اگست ۱۹۲۷ کا ایک اداریہ ایسا تحریر کیا گیا کہ پھر حکومت برانگیختہ ہو گئی جس کی وجہ سے دفعہ 153 ایف کے تحت مقدمہ چلایا۔ ایک سال قید اور ڈھائی سو روپیہ جرمانہ کی ادائیگی کا حکم ہوا ۔ سر علی امام نے مولانا کی طرف سے اس مقدمہ کی پیروی کی تو جیل سے ضمانت ملی۔ مولانا کو ڈسٹرکٹ جج کے یہاں سے ۳۰ اپریل ۱۹۲۸ کو انصاف ملا اور وہ بری کر دیئے گئے۔

تیسری مرتبہ پھر ایک اداریہ کی وجہ سے ۱۳۵۲ھ میں حکومت بہار نے ایک ہزار روپے کی ضمانت طلب کی۔ امارت شرعیہ کے ذریعہ اس جرمانہ کی ادائیگی ممکن نہیں ہوئی تو جریدہ ’’امارت‘‘ کو بند کردینا پڑا، اس لئے کہ اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھاکہ جریدہ کو بند کردیا جائے۔ چنانچہ امارت شرعیہ نے اپنے ترجمان’’امارت‘‘ کو بند کردیا اور اس کے بجائے دوسرا ترجمان ’’نقیب‘‘ کے نام سے جاری کردیا، جس کے ایڈیٹر مولانا سیدعثمان غنی ہی رہے ، لیکن آپ کا نام شائع نہیں ہوتا تھا۔ قانونی طور پر مدیر اور منیجر کی حیثیت سے صغیرا لحق ناصری کا نام درج ہوتا تھا۔ ۵؍ اپریل ۱۹۴۹ء یعنی ملک کی آزادی کے بعدپھر ’’نقیب‘‘ پر مولانا سید عثمان غنی کا نام مدیر کی حیثیت سے شائع ہونے لگا۔

          مولانا سید عثمان غنی نے اپنے اداریئے میں اجتماع پر زور دیتے ہوئے مسلمانوں کو انتشار سے پیدا ہونے والے خطرات سے بھی واضح کیا ۔ اس اداریہ میں ان کا انداز فلسفیانہ نظر آتا ہے اور مضمون کو اس انداز پر پیش کیا ہے کہ اس سے نہ صرف اجتماع اور انتشار کے درمیان فرق ظاہر ہوتا ہے بلکہ واضح نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں

 ’’کائنات کے منتشر ذرات جب تک مجتمع نہیں ہو جاتے کسی کام کے نہیں ہوتے۔ یہی حال اقوام اور افراد کا ہے۔

 افراد میں جب تک انتشار اور افتراق رہتا ہے، ان کو قوم کی لقب سے ملقب نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ قوم نام ہے کہمجموع افراد کا۔اور جب افراد منتشر اور مختلف الخیال ہو تو ان کو قوم کے نام سے موسوم کرنا درست نہیں اسلئے افراد میں پہلے تناصر و تعاون پیدا کرنا چاہئے۔ تناصر باہمی کے بعد ان میں اجتماع پیدا ہوگا۔ اسی وقت ان کو جماعت اور قوم کے نام سے مخاطب کرنا صحیح ہوگا۔

 مسلمان اپنی حالات پر نظر کریں اور بتائیں کہ کیا جماعت کا اطلاق ان پر صحیح ہو سکتا ہے؟ جب کہ ان کا ہر فرد ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنانے کو تیار رہتا ہے۔

 مسلمان اگر عقل و فہم سے کام لیں اور اپنے انتشار اور افتراق کو اتحاد و اجتماع سے بدل دے تو ان کی دینی حالتوں کے ساتھ دنیاوی حالت بھی سنور جائے اور وہ ایک قوم و جماعت بن جائیں۔‘‘

آگے تحریر کرتے ہیں:

 ’’اگر ہم اخوت اسلامیہ کو مد نظر رکھیں اور اپنے اندر تعاون و تناصر کا مادہ پیدا کر دیں تو ہمارا سارا انتشار دور ہو جائے اور ہم میں اجتماع پیدا ہو جائے ۔

 دنیوی زندگی میں انسانوں کے مابین نزع و خصومت اور اختلاف کا ہونا لازمی ہے ۔ اگرچہ اس کے امتناع کی سعی بھی ضروری ہے مگر اس کا انسدادقطعی نا ممکن ہے۔ اس لئے ہم میں سے ہر شخص اگر اس کا عزم کرے کہ ہمارے اخوان و احباب میں جب دو شخصوں کو درمیان کوئی نزع پیدا ہو تو ہم درمیان میں پڑ کر ان میں مصالحت کرا دیں گے اور اس طرح اس خداوندی کی تعمیل کریں گے۔

انماالمومنون اخوۃ فاصلحوا بین اخویکم واتقوللہ لعلکم ترحمون (ترجمہ) تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ اپنے دو بھائیوں میں صلح کرادو اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ تمہارے اوپر رحم کیا جائے۔

 اگر ہم اس پر عمل شروع کر دیں تو نہ صرف اپنی اور اپنی برادری کی محض خدمت کرینگے بلکہ ایک فرض سے سبکدوش ہونگے اور قومیت کی بنیاد استوار کریں گے۔‘‘

           ربیع الاول کی مناسبت سے انہوں نے مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئےایک اداریہ کا عنوان قائم کیا ہے ’’ مسلمانوں کے درد کی دوا ‘‘ اس اداریہ میں مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوے تحریر کرتے ہیں:

’’مسلمانوں کی عبرت وبصیرت کے لئے عالم کائنات کا ہر ورق کھلا ہوا ہے۔ دنیا کی ہرچیز سے بصیرت حاصل کرنے والے بصیرت حاصل کرسکتے ہیں، لیکن جس کو کچھ کرنا ہی نہ ہو، اس کے لئے کسی بھی چیز میں سبق نہیں ہے۔ ہم مسلمانوں کے لئے قرآن کریم اور سرور کائنات ﷺ کے اسوۂ حسنہ سے بڑھ کر درس حاصل کرنے کی کوئی چیز نہیں ہے۔

فخر کائنات ﷺ کی ذات اقدس نے صرف قول ہی نہیں بلکہ عمل سے ہمارے لئے ایسا نمونہ قائم فرمادیا ہے کہ اگرہم اس کو اختیار کرلیں تو ہمارے لئے دین ودنیا دونوں میں فلاح و بہبود کے لئے کافی ہے۔ بعثت نبوی ایسے زمانے میں ہوئی تھی، جبکہ تشتت وانتشار، فوضویت اور افتراق پورے ملک پر حاوی تھا،ایسے ملک میں آپ نے نظم ونسق کا سبق پڑھایا اور اسی سبق کے یاد کرنے سےآپ کے نقش قدم پر چلنے والے صحابۂ کرام نے دنیا کی بڑی آبادی اور بہت بڑی سلطنتوں کو اپنے نظم میں شامل کیا۔ان ہی صحابہ کی تعریف میں اللہ عزوجل نے فرمایا: اشداء علی الکفار رحماء بینہم

آخر میں تحریر کرتے ہیں :

’’مسلمانوں کے درد کی ایک ہی دوا ہے جو نبوت کے شفاخانہ سے حاصل ہوسکتی ہے۔ من کان للہ کان اللہ لہ، جس نے رسول کی اتباع کی ،اس نے خدا کو اپنا کرلیا اور جس کا خدا ہوگیا اس کے لئے کائنات کی تمام چیزیں ہوگئی۔‘‘

           ایک دوسری جگہ مسلمانوں کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اداریہ کا عنوان قائم کیا ہے ’’مسلمانوں کے معاملات‘‘ اس اداریہ میں تحریرکرتے ہیں:

’’ہر طرف شور ہے کہ مسلمانوں کی اقتصادی حالت اچھی نہیں ، افلاس وغربت کا ان میں دور دورہ ہے، وہ تجارت نہیں کرتے، وہ زراعت نہیں کرتے، ان میں صنعت و حرفت نہیں، ملازمت میں ان کی تعداد بہت کم ،ان میں اعلیٰ تعلیم کی کمی ہے، کالجوں میں وہ بہت کم، یونیورسٹیوں میں وہ نہیں پائے جاتے، ان کی افلاس وغربت کو دور کرنے ، اقتصادی حالت کو دور کرنے کے لئے تعلیم دی جاتی ہےکہ تجارت کرو، زراعت کرو، صنعت وحرفت سیکھو، کالجو ںمیں پڑھو، یورپ کی ڈگریاں لو، بینک قائم کرو، سودی کاروبار کو رواج دو، زندگی کا بیمہ کراؤ ، اس سے افلاس دور ہوگا، اقتصادی و معاشی حالت بہتر ہوگی اور اقوام متمدنہ کے دوش بدوش چلنے کے قابل ہوگے۔ ‘‘

 آگے تحریر کرتے ہیں:

’’مسلمانو! اس المناک اور معذب زندگی سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہو، اگر تم دنیا میں عروج ورفعت حاصل کرنا چاہتے ہو ، اگر تم کو آخرت کی عافیت کی تمنا ہے تو تم مسلمان بنو، تم مسلمان رہو اور مسلمان مرو۔‘

           مولانا سیدعثمان غنی یکم جنوری ۱۸۹۶ء میں موضع دیورا ،ضلع گیا میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام سید رمضان علی تھا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔۱۹۱۸ء میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی۔ جمعیت علمائے بہار کا قیام عمل میں آیا تو آپ پوری زندگی اس کی مجلس عاملہ کے رکن رہے اور اسی دوران نائب ناظم، نائب صدر اور صدر کی ذمہ داری بھی بحسن خوبی انجام دیا۔ ۱۹۲۰ء میں امارت شرعیہ کا قیام عمل میں آیا تو اس میں بھی شریک رہے اور اس کی نظامت کی ذمہ داری بھی آپ کو سپرد کی گئی تو آپ نے بحسن وخوبی اس کو انجام دیا۔ ۱۳۴۳ھ مطابق ۱۹۲۴ء میں پندرہ روزہ ’’امارت‘‘ کا اجرا ہوا تو اس کے مدیر کی حیثیت سے کام کیا۔

 حق گوئی ، بےباکی ، افکار و نظریات ، ملک و ملت کی خیر خواہی اور ادبی چاشنی آپ کی تحریر کا خاص وصف تھا ، آپ کی تحریر بہت سادہ اور پر اثر ہوتی تھی۔

       مولانا سید عثمان غنی رح کا انتقال ۸؍دسمبر ۱۹۷۷ء کو پھلواری شریف میں انتقال ہوا اور خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف کے قبرستان میں مدفون ہوئے ؂

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ھے

بڑی مشکل سے ہوتا ھے چمن میں دیدہ ور پیدا

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com