وہ فرد سے نہیں فکر سے ڈرتے ہیں!

ابھے کمار

وقت کا دریا بڑی تیزی سے بہتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے شرجیل امام کو جیل گئے پورے ایک ہزار دن ہوگئے ہیں۔ جے این یو کے شعبہ تاریخ میں پی ایچ ڈی کر رہے شرجیل امام پر ملک سے غداری کرنے کا الزام ہے۔ اس کے علاوہ ان پر دہشت گردی سے متعلق دفعات بھی لگائی گئی ہیں۔ سرکار اور پولیس اسے ملک و معاشرہ کے لیے ایک خطرہ بنا کر پیش کرتی رہی ہیں، جبکہ بہت سارے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ جیل میں اس لیے قید ہے کیونکہ اس نے موجودہ حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انصاف اور حقوق کی بات کی اور اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ایک بڑی تحریک چھیڑی، جسے دنیا آج شاہین باغ کے نام سے جانتی ہے۔گزشتہ دنوں ایک شام جے این یو کے سابرمتی ڈھابا پر، طلبہ، اساتذہ اور ملازمین جمع ہوئے اور انہوں نے شرجیل کو یاد۔ایک احتجاجی مظاہرہ کے دوران، انہوں نے شرجیل کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ مقرین نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ ریاست اختلاف رائے کو کچل رہی ہے اور اس طرح جمہوریت کو کمزور کر رہی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ جو شخص موجودہ حکومت کی پالیسی کی مخالفت کرتا ہے یا اپنی ایک منفرد رائے رکھتا ہے، اسے دانستہ طور پرنشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پریشان تو عام لوگ ہیں، مگر سرکار کا رویہ محکوم طبقات کےتئیں اور بھی زیادہ سخت ہو چکا ہے۔ دلت، آدی واسی، پسماندہ، مسلمان، عیسائیوں کے شہری حقوق کی پامالی سر عام ہو رہی ہے۔ بائیں بازوں اور سیکولر نظریہ کے حامل افراد کو بھی ستایا جا رہا ہے۔ مقرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ شرجیل کی گرفتاری اس کی مسلم تشخص اور اس کی انقلابی سوچ کی وجہ سے کی گئی ہے۔مقررین نے زور دے کر کہا کہ شرجیل نے کوئی بھی ایسا کام نہیں کیا تھاکہ اس کے خلاف یو اے پی اے لگایا جائے۔

جے این یو کے طلبہ کی باتیں بےجا نہیں ہیں۔سچ میں حالات آج اس قدر خراب ہو گئے ہیں کہ شرجیل کے دوستوں کی باتوں کو سُننے کے لیے میڈیا، پولیس، انتظایہ اور ارباب اقتدار تیار نہیں ہیں۔مشکل یہ ہے کہ حکومت کے موقوف کو قومی مفاد کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اور اپوزیشن کی آوازوں کو دبا دیا جا رہا ہے۔آج مین اسٹریم میں کتنے ایسے صحافی ہیں جو شرجیل کے بارے میں کھُلے دل سے بات کرنا چاہتے ہیں؟ شرجیل کی رہائی کی بات کرنے والوں کی بات سُننا تو دور کی بات ، انہیں شدت پسند کہہ کر خاموش کرنے کی کوشش ہوتی رہی ہے۔ میڈیا نے شرجیل کے خلاف اتنا مواد پیدا کر دیا ہے کہ اس کی رہائی کی بات کرنے سے بھی بہت سارے لوگ گھبررا جاتے ہیں۔ یہ کھبراہت اور خوف کا ماحول ہی جابر ریاست کو مزید ظلم اور زیادتی کرنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔ مگران مایوسیوں کے درمیان، جے این یو کے طلبہ نے پھر سے شرجیل کے لیے امید کی روشنی جلائی۔ جے این یو کو سرکار اس لیے نشانہ بناتی رہی ہے کیونکہ یہاں کے بچیں یہ بات بار بار کہتے آ رہے ہیں کہ سرکار کی پالیسی کی تنقید کرنا ملک سے بغاوت نہیں ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ اور اسمبلی کے ذریعہ بنائے گئے قانون کی مخالفت کرنا دہشت گری ہے۔ جے این یو کے طلبہ سچ ہی کہتے ہیں کہ ایک زندہ سماج وہ ہے، جہاں اختلاف رائے کی بھرپور جگہ ہو۔ٹھیک اسی طرح ایک کامیاب جمہوریت وہی ہے، جہاں سب کو بولنے کا حق دیا جائے ۔ لوگوں کی بات سُنی جائے ، نہ کہ احتجاج کو دبانے کے لیے لاٹھیاں اور گولیاں برسائی جائیں۔ میڈیا کو بھی کون سمجھائے کہ اسے اپنے مفاد کی خاطر سرکار کا ترجمان نہیں بننا چاہیے ۔ اس کا دھرم تو محکوموں اور بے زبانوں کی زبان بننا ہے۔ مگر تضاد دیکھیے کہ شرجیل کو بدنام کرنے میں مین اسٹریم میڈیا خوب آگے رہتا ہے، مگر وہ اس کے خلاف لگائے گئے الزامات کی صداقت کو جانچنے کی کوشش نہیں کرتا ہے۔

 آخر شرجیل کا قصور کیا ہے؟ یہی نہ کہ اس نے چکا جام کی بات کہی تھی۔ مگر چکا جام کی بات کرنا ملک سے بغاوت کیسے ہوسکتا ہے؟ کیسے شاہین باغ میں این آر سی اور سی اے اے مخالف تحریک کوجنم دینا دہشت گردی تھی؟ اگر شرجیل نے کوئی مبینہ طور پر جوشیلی تقریر بھی کی تھی، تب بھی اس کے خلاف یو اے پی اے نہیں لگایا جا سکتا ہے۔اگر شرجیل کی باتوں سے سرکار کی شدید نا اتفاقی بھی تھی، تب بھی یہ کسے اس کی گرفتاری کی بنیاد بن سکتی تھی؟ اگر شرجیل کو وہی بولنا چاہیے، جو سرکار صحیح سمجھتی ہے تو پھر جمہوریت اور آمریت میں کیا فرق رہ جائے گا! اصل مسئلہ کچھ اور ہے جو بتلایا نہیں جاتا۔ ڈر شرجیل سے نہیں ہے۔ نہ ہی اس کے جسم سے ہے۔بلکہ خوف اس کی سوچ سے ہے۔ شرجیل امام صرف ایک فرد کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ ایک فکر بھی ہے۔ ملک کے لاکھوں نوجوان شرجیل کو اپنا رہنما مانتے ہیں۔ پھولوں کو کچل کر، آمرانہ حکومت بہار کو آنے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ وجہ ہے کہ سرجیل کے خلاف ایک نہیں بلکہ کئی ریاستوں میں کیس درج ہیں۔ سچ میں فرقہ پرست طاقیں شرجیل کی فکر سے ڈرتی ہیں۔ ان کو اس بات سےپریشانی ہے کہ کیسے ایک معمولی سا نو جوان ایک تحریک کو کھڑا کر سکتا ہے! یہ بات فرقہ پرستوں کو کھٹکتی ہے کہ شرجیل کے کال پر ہزاروں لوگ سی اے اے کے خلاف شاہین باغ میں جمع ہو گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے شاہین باغ کی تحریک کی تقلید کرتے ہوئے ہزاروں شاہین باغ کے پھول ملک بھر میں کھل گئے۔شرجیل نے اپنی تقریروں میں بھگوا حکومت اور سابقہ سرکاروں کی پول کھولی دی تھی۔اس کی باتوں کا جواب دینے یا پھر پالیسی میں اصلاح کرنے کے بجائے ، بھگوا حکومت نے شرجیل کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کی۔ فرقہ پرستوں کی یہ پرانی حکمت عملی رہی ہے کہ محکوموں کی بات سُننے کی جگہ انہیں بدنام کر دو تاکہ ان کی باتیں بھی بے اثر ہو جائے۔

جو لوگ آج شرجیل کو انصاف دینے سے منہ موڑ رہے ہیں ، کیا ان کے پاس اس بات کا جواب ہے کہ اگر شرجیل نے چکا جام کی بات کہی تھی، تو کیا ایسا کہنے والا وہ بھارت کا پہلا شخص تھا؟کیا احتجاج اور سول نافرمانی کا درس ہمار ی جنگ آزادی نہیں دیتی ہے؟ کیا اختلاف رائے ملک کے جمہوری نظام اور آئین کے دائرے سے باہر ہے؟ ایک ذمہ دار سرکار کو چاہیے کہ وہ اپنے ناقدین سے سیکھے اور اپنی پالیسی میں اصلاح کرے۔ مگر سرکار نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔ مذہب کی بنیاد پر بنائی گئی کوئی بھی پالیسی بھارت کے سیکولر ڈھانچے کو مسمار کر سکتی ہے۔ شرجیل تاریخ کا طالب علم ہے اور اس کی ریسرچ تقسیم ملک اور فرقہ وارانہ فسادات کے موضوع پر ہے۔ اس نے ہندو مسلمان ، فرقہ پرستی، ریاست کے تشخص کے بارے میں خوب مطالعہ ہے۔ شرجیل کو اس بات کا پورا پقین تھا کہ بھارت کی سیاست کو بڑی تیزی سے فرقہ وارانہ زہر میں گھولا جا رہا تھا۔ شرجیل اچھی طرح سمجھتا تھا کہ جو لڑتے ہیں وہ بھی حکومت کے ظلم و زیادتی کے شکار ہوتے ہیں اور جو خاموش بن کر ظلم و زیادتی کو دیکھتے رہتے ہیں وہ بھی کسی روز ظلم کے شکار بن جاتے ہیں۔ جے این یو کے طلبہ کا ماننا ہے کہ شرجیل صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے جیل میں نہیں ہے، بلکہ اس لئے قید ہے کیونکہ وہ سوچنے، سمجھنے والا مسلمان ہے۔ بھگوا طاقتوں کو قیادت کرنے کی صلاحیت رکھنے والے مسلمان سے خطرہ محسوس ہوتی ہیں۔ شرجیل امام، عمر خالد، میران حیدر جیسے ذہین اور قیادت کی صلاحیت رکھنے والے طلبہ حکومت کے سیدھے نشانہ پر ہے۔ ان کے خلاف ماحول اس لیے خراب کیا جا رہا ہے کیونکہ سرکار کو ڈر ہے کہ ان کی باتیں ظلم اور زیادتی کے خلاف لوگوں میں بولنے کا جذبہ پیدا کرتی ہیں۔

(مضمون نگار جے این یو سے تاریخ میں پی ایچ ڈی ہیں)

debatingissues@gmail.com

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com