قاضی محمد فیاض عالم قاسمی
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام دین فطرت ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے اسےپوری انسانیت کے فلاح کے لئے ناز ل فرمایا ہے، اس لیے اس کی تعلیمات زندگی کےتمام شعبوں اورسماج کے سارے طبقات کی رہنمائی کرتی ہیں۔ اس میں رہتی دنیا تک کے مسائل کا حل موجودہے، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلامی تعلیمات کے ماخذ قرآن اور سنت ہیں ، جو محدود ہیں ، جب کہ انسانی مسائل لامحدود۔ قرآن و سنت چوں کہ قانون اور اصول وکلیات کی کتاب ہے، اس لئے اس میں ہر جزئیہ کی وضاحت نہیں ہے، ہاں اس میں ایسے اصول موجود ہیں ، جن سے پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اس تلاش کرنے کو شریعت کی اصطلاح میں اجتہاد کہا جاتا ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جب نبی کریم ﷺ نے یمن کا قاضی بناکربھیجا تو آپ نے ان کاامتحان لیاکہ تم وہاں پر کیسے فیصلہ کروگے؟ آپ نے جواب میں کہاکہ قرآن کے مطابق فیصلہ کروں گا، آپ ﷺنے ان سے پوچھاکہ اگر قرآن میں تم کو وہ مسئلہ نہ ملے تو پھر کیا کرو گے، آپ نے جواب دیاکہ سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپ ﷺ نے سوال کیاکہ اگرسنت میں بھی تم کو نہ ملے تو پھر کیا کروگے، تو حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ نے جواب دیا اجتھدبرائی ولاآلو یعنی میں کوشش کرکے اپنی تحقیق سے کسی نہ کسی اصول سے تطبیق دوں گا اوراس میں کوتاہی نہیں کروں گا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: الحمدللہ الذی وفق رسول رسول اللہ ﷺ بمایرضی رسول اللہ یعنی تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنے رسول کے قاصد کو اس بات کی توفیق عطا فرمائی جس سے اس کا رسول راضی ہے۔ (ابوداؤد:٣٥۹٢)
قرآن و حدیث سے مسائل کونکالنے کے لیے اعلیٰ درجہ کی ذہانت، قرآن و سنت کے معانی و مطالب پر گہری نظر، سیرت نبوی اور تاریخ اسلامی سے واقفیت ہونے کے ساتھ فن نحووصرف اور لغت کا بھی جاننا ضروری ہے۔ نیز اللہ اور اس کے رسول سے محبت، تقویٰ و طہارت اور خوف آخرت بھی لازمی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر و بھلائی کا معاملہ کرنا چاہتا ہے تو اس کو دین کا تفقہ یعنی قرآن و سنت سے مسائل نکالنے کی سمجھ عطا فرما دیتے ہیں اور اس کے لوازمات بھی آسان کردیتے ہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ:٣١٠٤۸)۔ اس عظیم الشان کام کے لیے نبی کریم ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کوایک موقعہ پر دعاء بھی دی اللھم علمہ الکتاب وفقہہ فی الدین، اے اللہ اس بچہ کو کتاب اللہ کاعلم اور دین کی صحیح سمجھ عطا فرما۔ (بخاری:١٤٣)۔ ایک جگہ آپ ﷺ نے فرمایاکہ جس کو یہ صلاحیت دی گئی تو گویاکہ اس کو دنیا و آخرت کی بھلائی دی گئی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ:٣١٠٤۹)۔
چنانچہ صحابہ کرام کےزمانہ سے لیکر آج تک اس امت میں ایسے جیالےپیداہوتے رہےہیں ، جن کو اللہ کی طرف ایسے کاموں کی توفیق ملتی رہی، انھوں نے ایسےبہت سے مسائل قرآن وسنت سے مستنبط کئےجوان میں صراحت کے ساتھ موجودنہیں تھے، مگرجب انھوں نے غورسے جائزہ لیااورقرآن وسنت کی گہرائی میں جاکرتلا ش کیاتوان کوان گنت مسائل کاحل مل گیا۔ ان میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ؒ، حضرت امام مالک ؒ، حضرت امام شافعی ؒحضرت امام احمدبن حنبل ؒ، حضرت امام ابویوسفؒ، حضرت امام محمدؒ، امام سفیان ثوریؒ، امام سعیدبن المسیبؒ، امام اوزاعیؒ وغیرہم بہت مشہورہوئے، مگراوائل الذکرچاروں ائمہ کرام کواللہ تعالیٰ نے ایسی قبولیت عطافرمائی کہ آج دنیاکاکوئی بھی مسلمان ان کے بتائے ہوئے مسائل کے بغیردورکعت نماز بھی نہیں پڑھ سکتاہے۔ مسلمان کہیں کا بھی رہنے والا ہو اس کو ان ائمہ کرام کے بتائے ہوئے مسائل پرعمل کئے بغیرکوئی چارہ کارنہیں ؛یقیناہرمسلمان ان کا مرہون منت ہے۔ آج بھی نت نئے مسائل روزبروزوجودپذیرہورہےہیں ، سائنس اورجدیدٹکنالوجی کی ترقی نےمعاشرہ میں کافی تبدیلیاں رونماکی ہے، پوری دنیاایک چھوٹی سے بستی بن گئی ہے۔ معاشی اوراقتصادی امورمیں بہت سارے مسائل پیدا ہوگئے ہیں ۔ اس لیےان نت نئے مسائل کاحل کرناضروری ہے، اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (سورۃالتوبہ:١٢٢)
مسلمانوں کے لیے یہ بھی مناسب نہیں کہ سب کےسب اللہ کے راستے میں نکل جائیں ، پس ایساکیوں نہ ہوا کہ ان کے بڑے گروہ میں سے ایک چھوٹاگروہ نکل جاتا، تاکہ جولوگ رہ جائیں وہ دین کی فہم حاصل کریں ، اورجب وہ لوگ واپس آئیں توانھیں واقف کرائیں ، تاکہ وہ بھی اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہیں ۔ اس آیت کریمہ کے تحت مفسرین نے لکھاہے کہ مسلمانوں کی ہربڑی آبادی میں چندایسے لوگوں کاہوناضروری ہے جو دین کی سمجھ حاصل کریں اوروہ اس میدان میں مہارت حاصل کرکے قرآن وسنت سے نئے مسائل کاحل تلاش کرسکیں ۔
نئے مسائل کوحل کرنے کے دوطریقے ہیں ، ایک یہ ہےکہ اس میدان کاماہر از خود غوروفکرکرکےمسئلہ کااستنباط کرے، جیساکہ ائمہ اربعہ رحمہم اللہ اوران کے بعض شاگردوں نیزقرن اولیٰ کے بعض نابغہ روزگارہستیوں نے اس کام کوبحسن وخوبی انجام دیا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ماہرین کی ایک جماعت سر جوڑکرمل بیٹھیں اورباہمی تبادلہ خیال کریں ، ایک دوسرے سے استفادہ کریں پھرکوئی رائے قائم کریں ۔ آج کے حالات کے پیش نظریہ طریقہ نہایت ہی محتاط ہےاوراختلاف رائے سے دوربھی۔ چنانچہ خودنبی کریم ﷺاہم امورمیں اورجن میں وحی الٰہی نہیں اتری تھی، صحابہ کرام سے مشورہ لیا، اسی طرح خلفاء راشدین بھی نئے پیش آمدہ مسائل میں دیگرصحابہ کرام سے مشورہ کرتے تھے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نےباضابطہ طورپرایک کمیٹی بنائی تھی، اس کمیٹی میں عمر کے تفاوت کا لحاظ کئے بغیردانائی وقابلیت، علم وفضل، ورع وتقوی اور فقہی سوجھ بوجھ کومعیاربنایاگیاتھا۔ اسی نقطہ نظرسے حضرت عمر ؓ نےحضرت عبداللہ بن عباسؓ کو-جبکہ آپ عمرکےلحاظ سے چھوٹے تھے اورجن کے لیےآپ ﷺ نے تفقہ کے لیے دعاء فرمائی تھی- اکابرصحابہ کےساتھ مجلس شوری میں شریک فرمالیاتھا۔ (بخاری:٢/۷٤٣)۔ اس مجلس میں اہم اورنئے مسائل پربحث ومباحثہ کے بعد تجاویز طے ہوتی تھیں ۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ؒ نےباضابطہ طورپرچالیس فقہاء کرام کی ایک کمیٹی بنوائی تھی جس میں نئے مسائل پر کافی غوروخوض اوربحث ومباحثہ کے بعد تجویزپاس ہوتی تھی۔
ہندوستان میں بھی یہ کام انفرادی طورپراسلام کی آمدکے ساتھ ہی شروع ہوچکاتھا، صحابہ کرام کے زمانہ سےلیکرہرعہدمیں محدثین اورفقہاء کی ایک جماعت ہمیشہ اس خطہ میں رہی اورپوراعالم اسلام ان سے سیراب ہوتارہا، تاہم باضابطہ طورپرمغل بادشاہ حضرت اورنگ زیب عالم گیر رحمہ اللہ نےاپنی نگرانی میں سرکاری فنڈسےعلماء کرام کی ایک جماعت کو اسی کام کے لئے منتخب کیا، جس کے نتیجہ میں فتاویٰ عالمگیری وجود میں آئی، جس سےآج کوئی بھی مفتی بے نیازنہیں ۔ ماضی قریب میں بھی جمعیۃ علماء ہندکی ماتحتی میں ادارہ مباحث فقہیہ اوردارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤمیں بھی مجلس علمی کاقیام عمل میں آیا، مگراس طرح کی باضابطہ اورکامیاب کوشش فقیہ عصر حضرت اقدس قاضی مجاہدالاسلام قاسمی نوراللہ مرقدہ نے ١٩۸٩ء میں مجمع الفقہ الاسلامی الہند، یااسلامک فقہ اکیڈمی انڈیاکے نام سے کی۔ جس کامقصدنئے مسائل میں ہندوبیرون ہندکےمایہ نازمفتیان کرام اورفقہاء عظام کی آراء سےاستفادہ کرکےفقہی اعتبارسے امت کے سامنے ایک ہی فتویٰ پیش کرناہے۔ الحمد للہ اکیڈمی اس مقصد میں بڑی حدتک کامیاب بھی ہے؛کیوں نہ ہوجب کہ اکیڈمی کی باگ ڈور ملک کےایسے اکابرعلماء کرام سنبھالےہوئےہیں ، جن کے اندراخلاص وللہیت، تقویٰ اورخوف آخرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہےنیزوہ فقہ وفتاویٰ میں یدطولیٰ رکھتے ہیں ۔
اکیڈمی کی یہ خوش قسمتی ہے کہ شروع ہی سے اس کواکابرعلماء امت کی سرپرستی حاصل رہی ہے، چنانچہ حضرت مولاناسید ابوالحسن علی میاں ندوی ؒ، حضرت مولانامنت اللہ رحمانیؒ، حضرت مولانامفتی عبدالرحیم لاجپوری ؒاورحضرت مولانامفتی نظام الدین اعظمی فاروقی وحضرت مولاناسیدنظام الدین ؒ(پٹنہ) اکیڈمی کے سابق سرپرستان تھے۔ اب اس وقت حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی صاحب صدر آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ، و ناظم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ) کی سرپرستی حاصل ہے۔
حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ کی وفات کے بعد حضرت مولانا مفتی ظفیرالدین صاحب مفتاحی رحمہ اللہ صدر مفتی دارالعلوم دیوبند اکیڈمی کے صدرمنتخب ہوئے اور ان کی وفات کے بعد متفقہ طور پر استاذ الاساتذہ، محدث کبیر، بحرالعلوم حضرت اقدس مولانا نعمت اللہ اعظمی دامت برکاتہم استاذ حدیث و صدر شعبہ تخصص فی الحدیث دارالعلوم دیوبند اس کی صدارت فرما رہے ہیں۔ جب کہ قاضی صاحب کے انتقال کے بعد جنرل سیکریٹری کے عہدہ پر عالم اسلام کے ممتاز فقیہ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب فائز ہیں۔
نئے مسائل کو حل کرنے میں اکیڈمی کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ پیش آمدہ مسائل کے انبارسے مختلف قسم کےکئی مرکزی عناوین طے کئے جاتے ہیں، ان کے تحت حسبِ ضرورت کئی ذیلی عناوین ہوتے ہیں اور ہرعنوان کے تحت کم و بیش پندرہ بیس سوالات ہوتے ہیں ، جن کواکیڈمی کی مجلس علمی مرتب کرتی ہے اور ملک وبیرون ملک کےفقہ وفتایٰ میں مہارت رکھنے والے علمائے کرام کی خدمت میں چھ ماہ قبل ارسال کردئے جاتے ہیں، کم و بیش تین سو چنیدہ فقہاء کرام کی خدمت میں سوالنامہ بھیجا جاتا ہے۔ ان علمائے کرام کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ قرآن و سنت اجماع اور قیاس نیز فقہی اصول و ضوابط اور فقہاء کے اقوال کی روشنی میں نئے مسائل کاحل مدلل انداز میں تحریر کرکے اکیڈمی کو روانہ کریں، اکیڈمی پھر ان جوابوں کا خلاصہ مرتب کرواتی ہے۔ پھر ملک کے کسی حصہ میں ان علماء کرام کا ایک اجتماع منعقد کیا جاتا ہے جس میں وہ زبانی بات چیت کرتے ہیں، بحث و مباحثہ کرتے ہیں، اپنے دلائل پیش کرتے ہیں اوربعض دفعہ دوسروں کے دلائل کارد بھی کرتے ہیں، تین دن تک کافی غوروخوض اور بحث و مباحثہ کے بعد تجاویز کے لیے ایک کمیٹی قائم کی جاتی ہے اور وہ کمیٹی مقالات اور ان مباحثوں کی روشنی میں کوئی تجویز پیش کرتی ہے، اس پر سارے مفتیان کرام کی تائید حاصل کی جاتی ہے۔ اس طرح امت کے سامنے نئے پیش آمدہ مسئلہ کا حل قرآن و سنت سے چھَن کر اور نکھر کر سامنے آتا ہے۔ واضح رہے کہ اکیڈمی کا اکتیسواں سیمینار حال ہی میں برہانپور مدھیہ پر دیش میں دارالعلوم شیخ علی متقی کے وسیع و عریض صحن میں منعقد ہوا ہے۔ فقط