ہم وفا کرکے بھی تنہا رہ گئے

فضل المبین

خیروا ، ڈھاکہ، چمپارن

عالم صحافت کا ایک چمکتا دمکتا ستارہ اپنی کہکشاں کے مدار کو چھوڑ کر ابدی جہاں کی جانب روانگی کیلیئے زمین کے مدار میں داخل ھو گیا یہ ایک ایسا مقام ھے جہاں سے ہرروز زندگی کے قافلے عالم برزخ کی جانب کوچ کرتے ہیں

 ادب کی تاریخی سرزمین عظیم آباد ( پٹنہ) سے اچانک واٹس ایپ پر ایک خبر موصول ہوئی جس نے مجھے ذاتی طور پر ہلا کررکھ دیا ۔ قلم کچھ لکھنے کو تیار ہی نہیں اور نا ہی کچھ بولنے کی سکت باقی رہی ۔

میں کش مکش میں مبتلا ہو گیا ، ماضی میں اس بے باک صحافی کے ساتھ گزارے لمحات یاد آنے لگے ، اُنکے ذریعہ بتائے گئے صحافتی اصولوں کی ورق گردانی شروع ہو گئی ۔

مگر ہمیں اس بات پر صبر کرنا پڑا کہ:

                 موت سے کس کو رستگاری ہے

                آج ہماری تو کل تمہاری باری ہے

گویا واضح طور پر یہ کہیں کہ : بہار میں صحافت کا ایک اور مضبوط ستون گر گیا۔ گذشتہ پانچ دہائیوں کے دوران اردو صحافت کی دل و جان سے خدمت کرنے والے اشرف استھانوی کو اس بے رحم وقت نے 15 نومبر 2022 کو ہم سب سے چھین لیا۔ ان کے انتقال کی خبر ہر کسی کو چونکا نے والی تھی ۔ کیونکہ وہ چلتے پھرتے ، سوشل میڈیا کے ذریعے اردو کی خدمت ، بزرگوں کی تاریخ ، نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے یایک دار فانی کو الوداع کہہ گئے ۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ : وہ پچھلے کئی سالوں قوت گویائی کے مرض میں مبتلا تھے جس کی وجہ سے زندگی کے آخری دنوں میں وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گئے تھے۔ لیکن انکی تحریریں ، فیس بک پر اُنکے ذریعہ روزانہ کئے جانے والے پوسٹ سے پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ وہ مرض میں مبتلا ہیں اور کچھ بھی بولنے سے قاصر ہیں ۔ جو لوگ قریب رہے وہ حالات سے واقف رہے ۔

جناب اشرف استھانوی صاحب کا اصل نام ضیاء الا شرف تھا لیکن وہ قلمی دنیا میں اشرف استھانوی کے نام سےمشہور و مقبول ہوئے۔ ان کی پیدائش2 فروری 1967کو مردم خیز بستی استھانواں ضلع نالندہ میں ہوئی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں حاصل کی اور پٹنہ یونیورسیٹی سے 1984میں بی اے آنرس پاس کیا۔ اس کے علاوہ کئی ڈگڑیاں انہوں نے جامعہ اردو علی گڑھ سے بھی حاصل کی ۔

    اشرف استھانوی اپنی صحافت ، طرز تحریر ، اندازِ گفتگو اور منفرد طریقۂ بیان کے تعلق سے اپنی پہچان آپ تھے آپ کے مضامین اور تحریریں ملک کے مشہور و مقبول اخبار و رسائل میں شائع ہوتے تھے اور بے حد پسند کیے جاتے تھے، انہیں ہندی صحافت میں بھی اعلیٰ مقام حاصل تھا،مرحوم کئی ملی سماجی اور ثقافتی تحریکوں سے وابستہ رہے اردو کی تعمیر و ترقی کے واسطے ہمیشہ جدوجہد کرتے رہے، بالخصوص نوجوانوں کو اردو سے قریب کرنے کے لیے بھرپور فکرمندی، مکمل خلوص اور تسلسل کے ساتھ کوشاں رہے، اور بےغرض ہوکر اردو زبان کی بےلوث خدمت کی ، اسی کے نتیجہ میں آپ کی بے شمار تصانیف منظر عام پر آئیں جو عوام وخواص کا مرکز نگاہ رہیں، آپ نے فاربس گنج سانحہ کے موقع پر جس جرأت و ہمت اور بہادری کا مظاہرہ کیا تھا وہ تاریخ کے صفحات میں سنہری حروف سے لکھنے کے قابل اور انقلابی مزاج رکھنے والوں کے لئے مشعلِ راہ اور زادِ سفر کی حیثیت رکھتی ہے ۔

   آپ کے انتقال کی خبر تو چند ہی منٹوں میں جنگل کی آگ کی طرح عوام و خاص تک پہنچ گئی اور تعزیت کا سلسلہ جاری ہوگیا ،متعلقین و محبین اپنے اخباری بیانات، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے اپنے رنج و غم کا اظہار کرنے لگے۔

 طے مشورہ کے مطابق صبح 8.30 بجے پٹنہ سبزی باغ میں واقع فقیر بارہ میں پہلی نماز جنازہ ہونی تھی اس کے بعد انہیں انکے آبائی گاؤں استھانواں میں دوسری نماز جنازہ اور تدفین ہوگی ۔

راقم کو انتقال کی خبر نے جھجھوڑ کر رکھ دیا تھا ، اشرف صاحب کے ساتھ ان گنت چائے نوشی ، اُنکے ساتھ بتائے لمحات یاد آ رہے تھے ۔

میں اس وقت اپنے آبائی گاؤں مشرقی چمپا رن کے ڈھاکہ حلقہ کے خیروا گاؤں میں تھا ۔

ایک طرف سرد کا موسم ، عشاء کا وقت ، پٹنہ پہنچنا وہیں دوسری طرف استھانوی صاحب کے احسانات ، اُنکی عقیدت و محبت نے مجھے رات کے دس بجے سفر کرنے پر مجبور کر دیا، کیونکہ میں نے سب سے پہلا مضمون ” آہ میرے نانا” لکھا تھا ، جسے قومی تنظیم میں جگہ ملی تھی، اسکے بعد اشرف صاحب سے میری ملاقات سبزی باغ کے چائے خانہ پر ہوئی ۔ انہوں نے میری خوب حوصلہ افزائی کی ، موجودہ حالات پر لکھنے کی ترغیب کرتے رہے اور انہوں نے میری ناقص تحریر کو تاثیر میں جگہ بھی دلوائی ۔ پھر انہوں نے مجھے روز لکھنے کا مشورہ دیا اور خود جاکر میرے ساتھ روزنامہ سہارا کے دفتر میں مجھے مشرقی چمپارن کا نمائندہ بنوا دیا کیونکہ اس وقت وہاں کی جگہ خالی تھی ۔ احسان تو یہ ہوا کہ مجھے اس وقت رپورٹنگ آتی ہی نہ تھی ۔

اشرف صاحب لکھنے پڑھنے والے نوجوانوں سے بہت محبت کرتے تھے ، لکھنے پڑھنے والوں کی حوصلہ افزائی ، چھوٹے بڑے پروگرام میں انہیں اعزاز سے نوازنا یہ سب ان کی صفات میں شامل تھی اور یہ آج تک میں نے کسی دوسرے صحافی میں نہیں دیکھا ۔

انہوں نے مجھ سے متاثر ہو کر اپنی کتاب صدائے جرس عنایت فرمائی تھی اور اس پر انہوں نے اس ناچیز کو مسلم نوجوانوں کے لیے سرچشمہ ترغیب قرار دیا تھا وہ آج میرے لیے کسی سرٹیفکٹ سے کم نہیں ہے ۔

خیر میں جیسے تیسے کر کے نماز جنازہ کے لیے پٹنہ پہنچا ۔ میں یہ گمان کر رہا تھا کہ صبح نمازِ جنازہ میں بڑے بڑے قلمکار، مضمون نگار، دانشوران، اردو کے نام پر اپنا پیٹ بھرنے والوں اور روزی روٹی کا مسئلہ حل کرنے والے زبان و ادب کے علمبرداروں کی ایک بڑی تعداد اپنے ہم مقصد و ہم نشیں کے آخری دیدار اور بارگاہ خداوندی میں اس کی مغفرت ، رفعِ درجات کی التجا اور لواحقین سے اظہار تعزیت کرنے کی خاطر اشکبار آنکھوں، غمگین دلوں اور بوجھل قدموں کے ساتھ الوداعی مرثیہ پڑھنے کے لیے جمع ہو گی۔

    لیکن حیف صد حیف! جونہی جنازہ گاہ کی طرف نظر پڑی تو تو چند لمحوں کے لیے جسم کی حرکت منجمد سی ہوگئی اور زبان پر بےساختہ یہ بکھرے ہوئے اشعار جاری ہوگئے کہ:

 کہہ دو کہ نہ شکوہ لبِ مرحوم سے نکلے،

 اس لاش کو چپکے سے کوئی دفن نہ کر دے ،

   اور میں خاموشی سے ایک جانب کھڑا ہو کر میت پر پڑی ہوئی چادر کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا اور زبان حال سے یہ کہنے پر مجبور تھا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو خود کو اردو اور اردو داں کے محبین اور محسنین میں شمار کرتے نہیں تھکتے ؟ کہاں ہیں وہ لوگ جو بڑی بڑی تصاویر کے ساتھ اپنا تعزیتی بیان جاری کر تے پھر رہے ہیں ؟ کہاں ہیں وہ لوگ جو اس سانحے کو قوم وملت کا عظیم خسارہ گردانتے نہیں تھک رہے ہیں ؟ کیا اس مرنے والے کا اتنا بھی حق نہیں تھا کہ اپنے آرام و راحت کو کچھ لمحوں کے لیے قربان کرکے اس کے جنازے میں شرکت کرتے ، اس کے لئے دعائے مغفرت کرتے اور پرنم آنکھوں سے اسے الوداعی سلام کہتے

         میری نماز جنازہ تو پڑھی غیروں نے

       مرے تھے جن کے لئے وہ رہے وضو کرتے

     یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اردو کی بقا موٹی موٹی کتابوں کی تصانیف ، مشاعروں کی مجلس اور اردو کے نام پر بڑی بڑی تقریبات پر منحصر نہیں ہے، بل کہ جسم کے آرام کو خود پر حرام کر کے عوام کے بیچ پہنچ کر اردو زبان کی اہمیت و افادیت سے روشناس کرانے اور اردو دانوں کی قدر پر موقوف ہے ، یقینا یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔

حد درجہ افسوس اس بات کی ہے کہ: مرحوم نے جن اخبارات کے لئے دن و رات محنت کیا ، جس کی خاطر اپنے خون پسینے کو ایک کیا ، اپنے بچوں کی پرواہ کیے بنا بے لوث خدمات انجام دیں وہ سب کے سب اخیر کے اس گھڑی میں نظر نہیں آئے ۔

ع _ ہم وفا کرکے بھی تنہا رہ گئے

 میں اپنی بات کو مختصر کرتے ہوئے مرحوم کے واسطے بارگاہ ایزدی میں دعا گو ہوں کہ اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے، اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کے اہل خانہ کی مکمل طور پر کفالت فرمائے آمین یارب العلمین ۔

   جنازہ میں شریک ہونے والے چند مشہور اشخاص کے نام قابل ذکر ہیں : راشد احمد ( قومی تنظیم) عتیق الرحمن شعبان (پندار) مولانا مبشر نجمی ، امتیاز احمد کریمی ، نورالسلام ندوی ، محمد مہزاد (امین) انوار الہدی ( ہمارا نعرہ) شمیم ندوی ( انقلاب) معین گریڈیہوی (قومی تنظیم) عارف اقبال (ای ٹی وی بھارت) مولانا ابرار کریم قاسمی ، مولانا اسلم حسین ، قطب الدین ، سید عقیل احمد ، فضل توحید وغیرہ مقامی حضرات شریک تھے

  نمازِ جنازہ فخرِ ائمہ ، تنظیمِ تحریک ائمۂ مساجد کے سرپرست ، جامع مسجد فقیر باڑہ کے امام و خطیب مولانا محمد عتیق اللہ قاسمی نے پڑھائی۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com