محمد منہاج عالم ندوی
(امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ)
کائنات کے طول وعرض میں ایسے علماء کرا م ہمیشہ رہے ہیں جنہوں نے ہر دور میں ملک وملت کی صحیح ترجمانی کی ہے،اورانہوں نے پوری ملت کے شیرازہ بندی کوقائم و دائم رکھنے میں اہم رول اداکیاہے،جن کی ذات ایک انجمن کی حییثیت رکھتی تھی،ا نہیں میں شمار ریاست بہار کی محفل علم ودانش کے روشن چراغ، ہندوستان کی جنگ آزادی کے مرد میداں، بہترین ادیب، انشاء پرداز،مبصر،مصنف اور عظیم ملی رہنما حضرت مولانا سید محمد عثمان غنی صاحب ؒسجادہ نشیں خانقاہ برہانیہ دیورہ کی ذات گرامی تھی،جنہوں نے اپنے علم وحکمت اورشمع دین ومعرفت سے ایک جہاں کو روشناس کرایااورپوری دنیامیں علم وعمل کی دیپ جلائی،اپنے علم سے ایک جہاں کو سیراب کیا، ان کو فقہ وفتاویٰ میں خاص درک اورمہارت حاصل تھی،جس کا نتیجہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد اپنے آبائی وطن کا رخ کیا۔ اس وقت ہندوستان کے چوٹی کے علماء میں شمار فکراسلامی کے امین وترجمان، صاحب علم وفراست اورزہدوورع حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ کی شخصیت سے ملاقات ہوئی،جوکیمیاء گری اور جوہرشناصی میں بہت ہی درک اورمہارت رکھتے تھے، انہوں نے اس گوہر گرانمایاں کو بھانپ لیا اوران کی صلاحیتوں کو پرکھ لیا اور پھر امارت شرعیہ کی کئی عظیم اورکلیدی ذمہ داری آپ کے سپر دکی جسے نہ صرف یہ کہ آپ نے سنبھالا بلکہ پورے اخلاص اورجذبہ جنون اوراحساس جوابدہی کے ساتھ انجام دینے میں ہرطرح کی تعاون اورہرممکن کوششیں کیں۔
حضرت مولانا سید عثمان غنی ؒ کی پوری زندگی جہدمسلسل سے عبارت ہے، اللہ تعالیٰ نے بے پناہ خوبیوں سے نوازاتھا،خاندانی شرافت اورنسبی وجاہت کے ساتھ ساتھ تصوف وشریعت کے جامع تھے،آپ ایک طرف میدان جہاد کے علمبردار،سیاسی رہنماتھے تو دوسری طرف میدان صحافت کے بے باک اورنڈر قلم کاربھی،نظامت وقیادت اورسیاست وسیادت کے ملکہ سے بھی باری تعالیٰ نے خوب نوازاتھا،آپ کی دینی خدما ت کادائرہ بہت وسیع ہے،درحقیقت آپ ایک شخص نہیں؛بلکہ ا پنی ذات میں انجمن تھے، آپ کی پیدائش شرفاء صلحاء کی پرانی آبادی ضلع گیا کے دیورہ کے ایک خوشحال زمیندار خاندان میں مورخہ یکم جنوری 1896ء مطابق 15/رجب 1313ھ کو ہوئی ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کرنے کے بعداعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کا سفرکیا،جہاں کبار علماء اور افراد ساز شخصیتو ں سے ملاقاتیں ہوئی اوران سے شرف تلمذ نصیب ہوا، اوراپنے کو علم کے موتی اصحاب فکر ونظرکے حوالہ کرگنجینہ علم وحکمت کے حصول میں مصروف کرلیا اور علم کی بھٹی سے خود کو کندن بناکر نکالا اور تقریباً پوری دنیا کو سیراب بھی کیا،آپ نے جن اساتذہ سے علم حاصل کیاان میں شیخ الہندحضرت مولانا محمودحسن دیوبندیؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ اور حضرت مولانا عبیداللہ سندھیؒ کا شمار سرفہرست ہے۔
مولاناٖ کے میدان عمل میں قدم رکھتے ہی بہت ساری ذمہ داریاں سر پر ڈالی گئیں؛جسے بحسن وخوبی انجام دیا۔آپ نے کئی تحریکوں،تنظیموں اورجماعتوں کے ساتھ کام کیا اورکلیدی عہدے پر فائز رہے؛مگرجب بات آتی ہے ملک ہندوستان کی ممتاز تنظیم امارت شرعیہ (بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ) کی جس کے لیے گویا انہوں نے اپنے آپ کو وقف کردیاتھااورشروع سے ہی اپنی صلاحیتوں کو اسے پروان چڑھانے میں لگادیا اور آخری وقت تک اس سے جڑے رہے؛ تا آنکہ جسمانی کمزوریوں اوربڑھاپے کے اثرات کی وجہ کر خود کو رضاکارانہ طور پر الگ کرلیا؛مگر دل وجان میں اب بھی اس کی محبت اورفکر سموئی ہوئی تھی۔
جب ریاست بہارکی دارالسلطنت پٹنہ میں 1919ء مطابق 1339ھ میں امارت شرعیہ کاقیام عمل میں آیا اورامام الہند مولانا ابوالکلام آزادؒ کی صدارت میں اس کے سب سے پہلے امیر شریعت بدرالکاملین حضرت مولاناسید شاہ بدرالدین صاحب قادریؒ ؒاورنائب امیر کی حیثیت حضرت مولانا ابولمحاسن محمد سجاد ؒ کا انتخاب ہوا اورشوریٰ کے افراد کی تشکیل عمل میں آئی تو اس وقت جن اصحاب علم وہنر کو اس کا ممبر اوررکن نامزد فرمایاگیا ان میں ایک بڑانام آپ ؒ کا بھی تھا،جس کے بعد مجلس شوریٰ نے آپ کے ہاتھ میں اس ادارہ کی باگ ڈور دی،جسے پورے اخلاص اورمتانت وسنجیدگی کے ساتھ چلایا اوراپنی ابتدائی اور دینی تحریکوں کا آغاز بھی فرمایا اور پیچھے مڑ کرنہیں دیکھا،اورادارہ دن بدن ترقیات کے مراحل طے کرتا رہا،اورآج بھی انہیں اکابروبزرگان دین کے نہج اوررو پر پابند سفر اوراپنے قیا م کے مقاصد میں سرگرم عمل ہے۔
بات 1924ء کی ہے جب امارت شرعیہ نے اپنی تعلیمات،دینی سرگرمیوں اورقیام کے مقاصد کو عوام و خواص کے درمیان لانے اوراس کاتعارف کرانے کے لیے وقت کے موثر ترین ذرائع ابلاغ میں سے ایک، اخبار کا سہارالیا اور امارت شرعیہ نے خود ”جریدہ امارت“ نامی اخبار نکالنے کا فیصلہ فرمایا اور اس کے پہلے مدیر کی حیثیت سے آپ کا انتخاب عمل میں آ یاتو آپ نے اس کے بال وپرکو سنوارنے اوراس میں چارچاند لگانے میں اہم کردار نبھایا اور اپنی انشاپردازی تحریروں، اداریوں اورفکری واصلاحی مضامین سے اس کے معیار کو خوب سے خوب تر بنانے میں کسی قسم کا دقیقہ فروگذاشت نہیں رکھااوراس جریدہ کی اشاعت اور اہمیت اور مقاصد پر مضامین تحریر فرمائے ذیل میں ان کی تحریر کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں جو انہوں نے قلم بند کیا: ”امارت شرعیہ سے ”جریدہئ امارت“کااجراء ایک نہایت حیرت انگیز امر ہے، اور ان اصحاب کے علاوہ جو ہر حقیقت کو ظنون اوراوہام کی نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہیں بہت سے نکتہ رس اورحقیقت شناس حضرات اسباب وعلل،حکم مصالح،مبادی ومقاصد کے معلوم کرنے کے مشتاق ہوں گے،اس لیے آج کی پہلی صحبت میں سب سے پہلے ناظرین”جریدہئ امارت“ کو اس سے روشناس کرتے ہوئے نہایت سادہ لفظوں میں صاف طور پر یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ اس جریدہ کے اجراء کا مقصد وحید اسلامی، خدمت ہے اور حالات وضروریات وقت کے لحاظ سے جن امور کی اشاعت ضروری ہوگی اورجن تعلیمات اسلامیہ کی تلقین وتعلیم عوام الناس کے لیے لابدی ہوگی،وہ سب باتیں اس کے ذریعہ شائع ہوتی رہیں گی؛مگر ہمارے سامنے صرف شہری آبادی نہیں ہے؛بلکہ اسلامی آبادی کا وہ حصہ زیادہ زیادہ تر ملحوظ ہے جو دیہاتوں میں آباد ہے اورنہایت کسمپرسی کی حالت میں تمام اسلامی تعلیمات سے بے بہر ہ ہیں (جریدہئ امارت یکم محرم الحرام 1343ھ مطابق 3/اگست1994ء(
آپ جس زمانہ میں اس کے مدیر بنائے گئے تھے درحقیقت وہ مغلیہ سلطنت کے زوال اورانگریزی سامراج کے عروج کازمانہ تھا اورآپ انگریزوں کے سخت مخالف تھے، وقت اورحالات کے نشیب وفراز کا مشاہدہ انہوں نے اپنے سر کی آنکھوں سے کیا تھا، سامراج حکومت کی ظلم وتشدد،عنادو سرکشی،ان کے باطل افکارو نظریات،غلط پالیسوں،چالاکیوں اورعیاریوں کو اپنی تحریروں میں لاتے اوران کی مخالفت بھی کرتے؛جسے مورد الزام بناکر آپ کوسلاخوں کے پیچھے ڈالاگیا،مگر عزم بالجزم اوربلند ہمتی،حق گوئی وبے باکی کاعلمبردار اور مرد درویش ان سب سے کہاں ڈرنے والاتھا،اتنے سارے حالات کے باوجود انہوں نے اپنی دینی غیروت و حمیت اورخودداری سے سمجھوتہ نہیں کیا اوربے باکانہ صحافت کا اعلیٰ نمونہ پیش کیااوراپنی آراء کا اظہار کرتے رہے اور ثابت کردیا کہ
آئین جواں مرداں حق گوئی وبے باکی
اللہ کے شیروں کو آ تی نہیں روباہی
نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت برطانیہ نے آپ کی تحریروں اورخود”جریدہئ امارت“ پر پابندی عائد کردی اورجرمانہ بھی لگایاجس کی ادائے گی صورت نہ ہونے کی وجہ سے اسے بند کرنا پڑا اور پھر بعد میں چل کر ”نقیب“ کے نام سے اس کی اشاعت ہوئی جو آج تک اسی نام سے جاری ہے۔
حضرت مولانا کو اللہ تعالیٰ نے فقہ وفتاویٰ میں بھی درک ومہارت سے نوازاتھا،اس کی باریکی سے خوب واقف تھے،ان کی تبحر علمی کا اندازہ ان کے ان فتاوے سے جو ”فتاویٰ امارت شرعیہ“میں چھپے ہیں بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے،آپ کے فتاوے اورفیصلوں سے دارالافتاء کا وقار بلندہوا، دارالافتاء کی طرف لوگوں کا رجحان پیداہوا،جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جناب شاہد رام نگری سابق ایڈیٹر”ہفت روزہ نقیب“ نے تحریر فرمایاتھا:”آپ کے فتاویٰ اورفیصلوں سے دارالافتاء کو بڑا وقار اوراعتماد حاصل ہوا،عملی حیثیت آپ کی بہت بلند تھی،جزئیات فقہ اورافتاء میں آپ کو عبور حاصل تھا،لگ بھگ پچاس سال تک عوم وخواص آپ کے فقہ اورافتاء سے مستفید ہوتے رہے،نہ صرف بہار؛بلکہ دوسرے صوبوں سے پیچیدہ مسئلوں میں لوگ آپ سے رہنمائی طلب کرتے اورآپ کے مبسوط مدلل جواب رہنمائی کرتے،ان کی شرعی اپنی رائے رکھتے تھے،جس سے ان کے اصابت فکر اورتفقہ کا پتہ چلتا ہے“(بشکریہ ہفت روزہ نقیب1 0اکتوبر2022 شمارہ 38)۔
بالآخر آسمان دنیا کا یہ روشن چراغ،بلند پایہ صحافی،عظیم مجاہد آزادی نے اپنی حیات مستعار کے ایام گذارکر24/ذی الحجہ 1397ھ مطابق 8/دسمبر1977ء کو ہمیشہ ہمیش کے لیے غروب ہوگیااورخانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی،اللہ تعالیٰ حضرت مولاناکی مغفرت فرمائے ان کے سیئات کو حسنات سے مبدل فرمائے اورجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عنایت فرمائے آمین ثم آمین۔