عوام کے دلوں میں بسنے والا نوجوان صحافی: عارف اقبال

مشتاق احمد نوری

سابق سکریٹری، بہار اردو اکادمی

عزیزم عارف اقبال سے میری ملاقات تقریباً سات سال پر محیط ہے۔ میرا تعارف ان سے ایک ادیب کی حیثیت سے ہوا تھا جب انہوں نے امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ کے چھٹے امیر شریعت حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب مرحوم کی سوانح پر مبنی کتاب ”باتیں میر کارواں کی“ مجھے پیش کی تھی۔ اس کتاب کو انہوں نے بہار اردو اکادمی میں انعام کے لیے پیش کیا تھا اور میری ہی سکریٹری شپ کے دوران اُس کتاب کو انعام سے بھی نوازا گیا تھا۔ بعد میں ان کی دو اور کتابیں ”امیر شریعت سادس، نقوش و تاثرات“ اور ”حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی، حیات و خدمات “ بھی سامنے آئی۔

  ان کتابوں نے اس نوجوان کو ایک اچھے اور محنتی ادیب کی طرح نہ صرف ملک بھر میں متعارف کرایا بلکہ اس کم عمری میں ہی عارف اقبال علماء، ادباء و دانشور طبقہ کے نور نظر بن گئے۔ عارف اقبال اُن دنوں دہلی میں رہ کر تعلیم حاصل کر رہے تھے لیکن کچھ دنوں بعد جب میں نے انہیں گلے میں کیمرہ لٹکائے ارریہ کے کچی سڑکوں اور  دیہاتوں میں دھول پھانکتے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ ارریہ ضلع میں ”ای ٹی وی بھارت اردو “ کے رپورٹر/کنٹنٹ ایڈیٹر ہو گئے ہیں، ساتھ ہی اس بات کا بھی علم ہوا کہ یہ نوجوان جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے بہترین ادارہ سے صحافت کی ڈگری بھی لی ہے اور تاریخی ادارہ دہلی یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے بھی کیا ہے۔ اپنی سرکاری ملازمت کے دوران مجھے متعدد صحافیوں سے سابقہ پڑتا رہا ہے، ایک سے ایک تیز طرار صحافی سے بھی پالا پڑا ہے اور ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر نیوز بنانے والے صحافی بھی میرے نظروں سے گزرے ہیں۔

ارریہ ضلع ایک پسماندہ ضلع ہے جہاں کے گاؤوں میں غربت بسیرا کرتی ہے، گاؤں تک پہنچنے کے لیے پل پلیا بھی میسر نہیں، وہاں میں نے عارف اقبال کو کبھی ناؤں سے، کبھی بیل گاڑی تو کبھی بھینس پر چڑھ کر رپورٹنگ کرتے ہوئے دیکھا ہے،آج کے ترقی یافتہ انڈیا میں اس طرح سے رپورٹنگ کا انداز ناظرین کو چونکا دیتا ہے۔ آج جبکہ صحافی تمام تر سہولیات سے لیس ہوکر صحافت کے میدان میں نکلتے ہیں،ایسے میں عارف اقبال وسائل کی کمی کے باجودان علاقوں میں پہنچ کر سنجیدہ مسائل کو سامنے  لاتے ہیں جس سے حکومت تو دور عام آدمی بھی بے خبر تھا۔ ارریہ کے گاؤں کی عوام کے درمیان یہ اس طرح گھل مل گئے کہ کوئی کہہ نہیں سکتا کہ یہ چھوٹے قد کا بڑا صحافی اس گاؤں کا حصہ نہیں ہے۔ چاہے ناخواندگی کا مسئلہ ہو یا بھوکے پیٹ سونے کا، بدن پر کپڑے میسر نہ ہو یا بے روزگاری کا، ان جیسے بہت سارے مسائل جو دیہی زندگی کا جزو لانیفک بن گئے تھے اسے عارف اقبال نے تلاش کر کے مسائل کی گہرائی میں جا کر اسے حکومت کے سامنے پیش کیا تاکہ ان مسائل کا سدباب ہو سکے۔ مجھے اس بات پر خوشی ہے کہ ان کی بہت سی رپورٹ نے حکومت کو چونکنے پر مجبور کیا اور حکومت نے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش بھی کی۔

صحافی بہت سے اقسام کے ہوتے ہیں جو زیادہ تر خانہ پری کرنے کی روایت پر قائم ہوتے ہیں اور جو تیز طرار ہوتے ہیں وہ خبر کوچٹ پٹا بنا کر واہ واہی لوٹتے نظر آتے ہیں۔ لیکن عارف اقبال کو میں نے دیکھا کہ وہ بہت سادگی سے گاؤں کے لوگوں سے ملتے ہیں، ان کی کھٹیا پر بیٹھتے ہیں اور بہت توجہ سے وہاں کے مسائل دریافت کرتے ہیں اور پھر بغیر کسی سنسنی خیزی کے لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ان کی محنت صرف اس بات پر ہوتی ہے کہ عوام کے مسائل حکومت کی نظر میں آ جائے تاکہ عوام کو پریشانی سے نجات مل جائے۔ میں نے انہیں شہری علاقوں میں گشت کرتے ہوئے بہت کم پایا کیوں کہ یہ گاؤں گاؤں بھرمن کرنے پر یقین رکھتے ہیں، آپ کو یقین نہیں ہوگا کہ میں ارریہ ضلع کا باشندہ ہوں مگر مجھے بھی گاؤں کی اتنی معلومات نہیں تھی جتنا میں نے عارف اقبال کی رپورٹ سے جانا۔

عارف اقبال ایک ایسا جنون صحافی ہے جو بغیر کسی داؤ پیچ کے میدانِ صحافت میں اترتا ہے تو پوری انکساری و خاکساری کے ساتھ لوگوں کے دلوں میں بس جاتا ہے اور وہاں سے ان کی درد کو محسوس کر لیتا ہے۔ ارریہ ضلع کا شاید ہی کوئی ایسا پسماندہ علاقہ ہو جو عارف اقبال کے کیمرے میں قید ہونے سے بچ گیا ہو۔ عارف اقبال نے گاؤں کی تہذیب و تمدن کو بھی پیش کیا اور وہاں کے کھان پان کو بھی اپنی رپورٹ کا حصہ بنایا ہے جو آج کے زمانے میں صحافت میں کم دکھائی دیتا ہے۔ سیمانچل میں اگہن کے زمانے میں بھکا اور بگیا بہت شوق سے کھایا جاتا ہے، بھکا خاص طور سے مچھلی کے ساتھ یا دودھ کے ساتھ لیا جاتا ہے، چاول کے آنٹا سے بنا یہ پکوان سیمانچل کی پہچان بھی ہے۔عارف اقبال نے اس بھکا کی روایت کو اتنے دل فریب انداز میں پیش کیا کہ روش کمار جیسے عظیم صحافی بھی اس رپورٹ کو اپنے فیس بک پیج پر شیئر کرتے ہوئے اسے کھانے کی خواہش کا نہ صرف اظہار کیا بلکہ عارف اقبال کا شکریہ بھی ادا کیا کہ انہوں نے سیمانچل کے ایک نئے پکوان سے لوگوں کو متعارف کرایا۔

بات یہ ہے کہ ارریہ میں بہت سے صحافی آئے، انہوں نے زیادہ تر سیمانچل کے سیاسی نشیب و فراز پر نگاہ رکھی، وہاں کی تہذیب و تمدن پر کسی کی نظر نہیں گئی۔گاؤں جس علاقہ کا بھی ہو وہاں کے مسائل، وہاں کی تہذیب، وہاں کا کلچر، وہاں کے مسائل،وہاں کی پسماندگی اور دیگر مسائل گاؤں میں ہی ملتے ہیں، شہر تک آتے آتے تہذیب و تمدن میں ایک ملمع کاری ہو جاتی ہے۔سچ پس پشت چلا جاتا ہے صرف چکا چوند پر نظر ٹھہرتی ہے، کیوں کہ کوئی بھی صحافی دور دراز کے مسائل اور وہاں کے بکھیڑے میں اپنے آپ کو ملوث نہیں کرنا چاہتا، لیکن عارف اقبال کو اس بات کا احساس تھا کہ اگر علاقہ کے مسائل اور وہاں کی پسماندگی کی جانکاری لینی ہو تو انہیں موٹر کے علاوہ پیدل بھی چلنا ہوگا، ناؤں پر بھی سوار ہونا ہوگا اور بھینس پر بھی سفر کرنا ہوگا تبھی وہ گاؤں کی روح تک پہنچ سکیں گے۔

عارف اقبال کی مقبولیت کا اندازہ تب ہوا جب 2021ء میں انہیں ارریہ سے پٹنہ ٹرانسفر کیا گیا، گاؤں اور شہر کی آبادی انہیں چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ انہیں ان کی ذات اور ان کے کام سے اتنی محبت تھی کہ انہوں نے نم آنکھوں کے درمیان وہاں سے سے خدا حافظ کہا اور کچھ لوگ ان کی محبت میں پٹنہ تک بھی ساتھ چلے آئے۔ میں نے عام طور سے صحافیوں کو گالی دیتے ہوئے سنا ہے، لیکن عارف اقبال پہلا صحافی میرے نظر سے گزرا جن کی ایماندارانہ صحافت کو لوگوں نے سراہا اور اسے گھر کے فرد کی طرح محسوس کیا۔

پٹنہ میں بھی میں نے ان کی صحافت کا بغور جائزہ لیا تو یہ پایا کہ عارف اقبال ہر جگہ وقت پر پہنچ جاتے ہیں مگر وہ نہ کسی کی چمچہ گری کرتے ہیں اور نہ کسی کی بخیہ ادھیڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے بڑ بولے پن کا شکار ہو جاتے ہیں، عارف اقبال کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بیان کو سدھار لیں لیکن اپنے زعم میں جب وہ متوجہ نہیں ہوتے تو پھر وہ میڈیا میں وائرل ہونے لگتے ہیں۔

پٹنہ میں انہوں نے جتنے بھی کوریج کئے ہیں وہ صرف سیاسی اور سماجی نہیں بلکہ تاریخی مقامات کے علاوہ تاریخ کے بطن میں پوشیدہ ان حقائق کو باہر لانے کی کوشش کی ہے جن سے عام لوگ ناواقف ہوتے ہیں۔ پٹنہ ایک تاریخی شہر ہے جو بہت سے ادوار سے گزرا ہے جن سے عام لوگ واقف نہیں ہے، ممتاز محل سے تو سب لوگ واقف ہیں لیکن مجھے بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ ممتاز محل کی چھوٹی بہن ملکہ بیگم پٹنہ سیٹی میں آسودہ خاک ہیں۔ بہار میں اردو دوسری سرکاری زبان ہے، لیکن پٹنہ کے کسی چوراہے یا سڑک پر اس کا نام نظر نہیں آتا جبکہ سرکاری طور پر یہ لازمی ہے کہ دوسری سرکاری زبان اردو میں بھی چوراہوں اور دفاتر کے نام اردو میں لکھی جاتی، اس کمی پر جب عارف اقبال کی نظر پڑی تو اس پر بھی ایک اسٹوری کی، ایشیا کی سب سے بڑی لائبریری خدا بخش لائبریری ہو، پٹنہ سیٹی کا گرودوارہ ہو یا سیٹی کا امام باڑہ ہو، خانقاہ مجیبیہ ہو، امارت شرعیہ ہو یا پٹنہ کے دیگر تاریخی مقامات ان سب پر عارف اقبال فوکس کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اس نوجوان سے ادب کے علاوہ صحافت میں بھی اچھی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں اور میں نے ان کی صحافت کے بطن میں ان کے شاندار مستقبل کی دھمک محسوس کی ہے۔ میری دعا ہے کہ عارف کا اقبال ہمیشہ بلند ہو۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com