اب دور جا چکا ہے وہ شاہِ گدا نما

(مولانا بلال اصغر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت)

 محمد اللہ قیصر قاسمی 

استاذ محترم حضرت مولانا بلال اصغر صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے، چلے گئے مالک حقیقی کی بے پناہ رحمتوں کی آغوش میں، رخصت ہوئے تو یادوں کا ایک طویل سلسلہ ذہن کو الجھا رہا ہے، سمجھ میں نہیں آرہا کہ “کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں” ۔ ثانویہ کے عربی سوم میں داخلہ ہوا، چند ایام گذرے تھے کہ ایک بزرگ استاذ پر نظر پڑی، گول مٹول، سرخی مائل سفید چہرہ، گھنی داڑھی ، چوڑی پیشانی، رعب دار آنکھیں، لیکن آنکھوں سے جھلکتی دل کی نرمی، پیرانہ سالی کی وجہ سے ہلکی چال اور اس چال میں ایک تمکنت اور بلا کی بے نیازی، نام اول دن سے سنا تھا دیکھا آج، اور دیکھتے ہی ان سے عقیدت کے ریلے میں بہتا چلا گیا،عقیدت کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ آپ کے والد حضرت مولانا عبد الاحد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سابق استاذ دارالعلوم دیوبند، میرے والد حضرت مولانا قیصر صاحب کے استاذ تھے اور میرے والد صاحب بڑی عقیدت سے ان کا تذکرہ کیا کرتے تھے، لیکن ایک تو مدرسہ کا ماحول جہاں اساتذہ کا “حد سے زیادہ تقدس” ذہن کو اس قدر جکڑ لیتا ہے کہ ان کی بے پناہ شفقت و محبت کے باوجود عموما قربت کی “جرات” نہیں ہوتی، دوسرے حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے رعب نے عندیہ دیا کہ پہلے حاضری کے آداب سے آگاہ ہو جاؤ پھر “شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا” لہذا حاضری کے ارادے بنتے اور ٹوٹتے رہے، اس طرح سال گذرگیا، عربی چہارم میں شرح وقایہ استاذ محترم سے ہی متعلق تھی، اب تو چارو ناچار سامنا ہونا ہی تھا، ابتدائی ایام پندو نصائح میں گذرے لیکن انہیں ایام میں ان کی شخصیت کا جادو ایسا چڑھا کہ اپنے چند عزیز ترین ساتھی بلکہ حقیقی معنوں میں ہم پیالہ و ہمنوالہ “ڈاکٹر مفتی وصی میاں خان رازی، مفتی ذکوان گونڈوی، مفتی دلبہار سہارنپوری” کے ہمراہ حضرت الاستاذ کی خدمت میں آنے جانے لگا، دو چار دفعہ آنا جانا ہوا تو ایک انسیت ہوگئی، ان کی ذات میں مخلص استاذ، مشفق مربی، پدرانہ شفقت سے لبریز رہنما، بے لوث محبت کرنے والا ، خیرخواہ سرپرست سب کچھ نظر آیا، غلطی ہوتی تو ڈانتے نہیں، بس ذرا نظر پھیر لیتے سمجھنے والا سمجھ جاتا کہ کہیں تو قدم پھسل گیا ہے، طلبہ کے ساتھ گفتگو میں “تابع ومتبوع” والے تکلفات سے کوسوں دور ،باپ اور بیٹے والی مؤدب بے تکلفی ہوتی تھی، جہاں آداب شاگردی کی رعایت کی اجازت تو ہوتی لیکن تعلیم و تربیت میں مانع سارے حجاب اٹھا دئے جاتے، وہ بلاشبہ استاذ کے ساتھ ایک بہترین مربی بھی تھے، اللہ ان کے درجات بلند کرے۔

حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 13 رمضان 1354ھ (بہ مطابق 10 دسمبر 1935ء) دیوبند میں ہوئی، حضرت کا خاندان خالص دینی و علمی تھا، آپ نجیب الطرفین تھے آپ کے والد حضرت مولانا عبد الاحد قاسمی اور دادا مولانا عبد السمیع قاسمی رحمہما اللہ نے دارالعلوم میں تدریسی خدمات انجام دیں ،آپ کے پر دادا ظہور الدین دیوبندی 1894 سے 1905ء تک مجلس شوریٰ دار العلوم کے رکن رہے۔

 آپ کے نانا مولانا عبد الشکور دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ (متوفّٰی: 1963ء) دارالعلوم میں ایک عرصے تک تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد یہاں سے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لے گئے، اور وہیں مدرسہ علوم الشرعیہ، مدینہ منورہ میں بحیثیت مدرس علوم دینیہ کی اشاعت میں مصروف ہوگئے، آپ جنت البقیع میں خلیفۂ ثالث سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے مرقد مبارک کے قریب ہی مدفون ہیں، آپ کے چہرنانا، حضرت مولانا عبد الشکور مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے دادا، عبد الخالق دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ حضرت سید احمد شہید بریلوی رحمہ اللہ کے خلیفہ مجاز تھے، آپ کے سسر حضرت مولانا نعیم صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے ہم زلف حضرت مولانا خورشید صاحب رحمۃ اللہ علیہ دونوں ہی دارالعلوم وقف دیوبند کے شیخ الحدیث رہے ہیں۔

تعلیم

مقام حیرت ہے کہ آپ ابھی پڑھنا بھی نہیں جانتے تھے لیکن اپنے دادا رحمۃ اللہ علیہ سے، بطریق تلقین و تکرار قرآن کریم کے دس پارے حفظ کر چکے تھے، اس پر جتنا بھی رشک کیا جائے کم ہے،آپ نے اردو کی ابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی، جب پڑھنے کے لائق ہوئے تو حافظ شریف احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس حفظ قرآن کی تکمیل کی، پھر از ابتدا تا انتہا آپ کی مکمل تعلیم دارالعلوم میں ہوئی، آپ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی، شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہی اور حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی رحمہم اللہ کے چشمہ حکمت و معرفت سے سیرابی حاصل کرتے رہے اور

1375ھ بہ مطابق 1956ء میں سند فراغت حاصل کی، دورہ حدیث کے بعد ایک سال مفتی مہدی حسن شاہ جہاں پوریؒ رحمۃ اللہ علیہ سے فتاوی نویسی کی تمرین کی۔

 تکمیل علوم کے بعد اپنے والد بزرگوار کی ہدایت پر ایک سال کیلئے تبلیغی سفر میں رہے، اس کے بعد تدریسی زندگی کا آغاز مظفر نگر کے ایک مدرسہ سے کیا، 1383 ھ میں دارالعلوم کے شعبہ تبلیغ سے منسلک ہوئے، 1386 سے شعبہ تنظیم و ترقی میں بحیثیت مبلغ خدمات انجام دینے لگے، اور 1402 بہ مطابق 1982 میں تدریسی خدمات آپ کے سپرد کی گئیں، یہ سلسلہ وفات سے چند ماہ قبل تک قائم رہا، دارالعلوم کے مختلف شعبوں میں آپ کی خدمات کا دورانیہ تقریبا 60 سالوں پر محیط ہے۔

حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کا نمایاں ترین پہلو یہ تھا کہ وہ ایک مشفق اور ہر دلعزیز استاذ تھے، اپنی ذمہ داریوں سے خوب واقف تھے، ضعیف العمری اور گرتی صحت کے باوجود درس گاہ میں عموما وقت پر تشریف لاتے اور بیٹھتے ہی فرماتے “پڑھ بیٹے” ہمیں درجہ چہارم میں شرح وقایہ پڑھاتے تھے، حل عبارت میں زیادہ کام طلبہ سے لیتے، طالب علم عبارت پڑھتا، حضرت مختصر تشریح کرتے، کسی نکتے کی وضاحت حاشیہ میں ہوتی تو اس کی طرف اشارہ کرتے، بسا اوقات اسے پڑھنے کا حکم دیتے، پھر سوال کرتے کہ “تم نے کیا سمجھا” غلطی کی صورت میں اصلاح فرماتے، اس طرح ان کی کوشش ہوتی تھی کہ طالب علم میں “حل عبارت” کی صلاحیت پیدا ہو جائے، کبھی مطولات کا حوالہ دینا مقصود ہوتا تو متعلقہ کتاب گھر سے ساتھ لاتے اور دکھاتے یہ مسئلہ فلاں کتاب میں زیادہ شرح و بسط کے ساتھ اور واضح طریقے سے مذکور ہے، مختلف شاگردوں کے تاثرات الگ ہو سکتے ہیں، میرا اور میرے مخصوص ساتھیوں کا تجربہ یہ رہا ہے کہ کسی کتاب کو شرح کی مدد کے بغیر سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرنے میں حضرت مولانا طاق تھے، متون کے حل کیلئے شروحات کا جو خطرناک مزاج پیدا ہوا ہے اس سے انہیں ایک طرح کی چڑ تھی، قریب رہنے والے طلبہ کو اس “زہر” سے دور رہنے کی نصیحت کرتے اور عربی شروحات سے مراجعت کی تلقین کرتے، ان طلبہ کو ذاتی کتب خانہ میں موجود عربی شروحات عاریۃ لے جانے کی مکمل اجازت تھی۔

بحیثیت مربی:

حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے تربیت کرنے کا انداز انوکھا تھا، وہ طلبہ کو کھل کر بولنے کا پورا موقع فراہم کرتے ، بسا اوقات کوئی طالب علم استاذ اور شاگرد کے درمیان کے بعد کی وجہ سے بولنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا تو ٹوکتے اور اپنی بات بلا ہچکچاہٹ بولنے پر اکساتے، ایک مرتبہ مجھے بہت حیرت ہوئی جب ایک خاص موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے حضرت کی آواز معمول سے زیادہ اونچی ہوگئی تو میں نے بے ادبی کے شائبہ سے بچنے کیلئے خاموشی میں عافیت محسوس کی۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ پر قربان جاؤں کہ انہوں نے ڈانٹتے ہوئے فرمایا کہ تم لوگوں کو اسی لئے بولنے کا موقع دیتا ہوں کہ میرے سامنے بے وجہ خاموش ہو جاؤ ، بولو، بے جھجھک اپنی رائے ظاہر کرو، یہاں نہیں بات کروگے تو ہر جگہ خاموشی کی عادت پڑ جائے گی، اس طرح وہ طالب علم کے اندر بحث و مباحثہ کا سلیقہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے، کتابوں کی طرف رہنمائی بھی کرتے، بالخصوص حضرت تھانوی اور دیگر اکابر رحمہم اللہ کی کتابوں سے استفادہ کی تلقین کرتے تھے، کچھ طلبہ کے متعلق انہیں معلوم ہوا کہ مسلک دیوبند سے اختلاف رکھنے والے مصنفین کی تحریریں پڑھتے ہیں ، تو متصلب دیوبندی ہونے کے باوجود انہیں پڑھنے سے کبھی منع نہیں کیا، انہیں روکنے ٹوکنے کے بجائے آپ ان مفکرین کے افکار سے متعلق گفتگو کرنے لگے یہ جاننے کی کوشش کرتے کہ کوئی نئی بات پڑھی ہے، جہاں انہیں محسوس ہوتا کہ طالب علم مختلف فیہ مسائل میں ان حضرات کی تحریروں سے متاثر نظر آرہا ہے، وہاں اصلاح کرتے، ان کی رائے تھی کہ اگر طالب علم کو مطلقا منع کردیا جائے تو یقینا وہ چوری چھپے جو چاہے پڑھے گا، اس طرح خوف ہے کہ وہ ہر رطب و یابس فکر سے متاثر ہوسکتا ہے، جبکہ اپنے طلبہ کی فہم و فراست پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے گفتگو کی شرط پر اجازت دینے کی صورت میں اسے جہاں شبہ ہوگا وہ اسے ظاہر کرے گا اس طرح طالب علم کو غلط افکار سے محفوظ رکھنے کا امکان باقی رہتا ہے،نیز طلبہ کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا، وہ طلبہ سے یہ بھی کہتے تھے کہ پہلے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی مخصوص کتابیں پڑھ لو، پھر جسے چاہو پڑھو، کوئی خطرہ نہیں، حتی کہ ملحدین کی تحریروں کے تیشوں سے بھی محفوظ رہوگے، ان شاءاللہ،

 مادر علمی سے آپ کی محبت: 

آپ کی دادھیالی، ننھیالی نسبتوں کے ساتھ سسرالی اعزہ میں بھی دارالعلوم میں رہ کر علوم دینیہ کی خدمت کرنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے بال و پر سنوارنے میں آپ کے آباؤ اجداد اور اعزہ و اقارب کی کتنی عظیم خدمات رہی ہیں، علوم دینیہ کے اس چمن کو گلزار و لالہ زار بنانے میں انہوں نے روز اول سے اپنی خدمات پیش کی ہیں، اور اسی سے یہ بھی پتہ چلتاہے کہ مادرعلمی کے تئیں آپ کی بے پناہ محبت کا راز کیا تھا، ان کی رگ و جاں میں دارالعلوم رچا بساتھا، یہی وجہ ہے کہ جب کبھی ناموافق حالات رونما ہوتے تو آپ پر ایک عجیب غمناک خاموشی طاری ہو جاتی، ان کے بجھے بجھے چہرے سے ایسا محسوس ہوتا جیسا کسی خوبصورت گلستاں پر خزاں کے اندیشہ سے پیدا ہونے والا خوف اپنے گلستاں سے بے پناہ محبت کرنے والوں کے چہروں سے جھلکتا ہے، اور ہنستے کھیلتے گھر کے مکینوں میں در آنے والے انتشار سے گھر کے بڑے بوڑھوں پر فکر مندی کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہے، انہیں یہ ڈر ستانے لگتا ہے کہ کہیں اس چمن کی رونق ہی نہ ماند پڑ جائے، دشمنوں کو حملہ آور ہونے کا موقع نہ مل جائے، ان حالات میں ایسا لگتا جیسے ان کی زبان پر رب کریم سے مادر علمی کی حفاظت کی فریاد کے ساتھ یہ دعا ہے”لا تشمت بي الأعداء” وہ ہمیشہ کہتے “مولی صاحب”بس دعا کرو کہ اکابر کے آباد کردہ اس چمن کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ انہیں حضرات اکابرین رحمہم اللہ بالخصوص حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے بے انتہا محبت تھی، اپنے شیخ کا نام بڑی عقیدت سے لیتے، اکثر فرماتے کہ ہمارے اکابر ایک طرف تقوی و طہارت میں شان قطبیت، اور ارشاد و طریقت میں شان مجددیت کے حامل تھے تو علم و تحقیق کے شناور بھی تھے اور بعض تو میدان سیاست کی شہسواری کے فن سے بھی خوب آشنا تھے، حضرت حکیم الاسلام قاری طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے چہرے کی آب و تاب دیکھنے لائق ہوتی، ایسا لگتا جیسے فراق کی تپش میں جل رہے عاشق کے سامنے کسی نے محبوب کا ذکر چھیڑ دیا، حضرت شیخ الاسلام رحمہ اللہ کی شخصیت کی جامعیت سے بہت متاثر تھے،ان کے زہد و ورع، بے نیازی اور ان کی مہمان نوازی کے قصے خوب سنا تے، ملی مسائل میں ان کی بے باکی بہادری اور ان کے دوسرے مجاہدانہ کارناموں کا ذکر چھڑجاتا تو مجلس کے اختتام کیلئے وقت کی کوئی قید نہ ہوتی، حضرات اکابر سے ان کی محبت، عقیدت کا روپ دھار کر ان کے چہرے سے جھلکتی تھی، اس ذکر خیر کا مقصد ایک طرف اپنی محبت کا اظہار ہوتا تو وہیں طلبہ کی تربیت بھی مقصود ہوتی، وہ اکثر فرماتے کہ دارالعلوم کا طالب علم اگر اپنے اکابر رحمہم اللہ کے کارناموں سے واقف نہیں ہوگا تو ان کے عظیم کارناموں کی عصری معنویت کا اندازہ کیسے ہوگا، دین کیلئے فنائیت کا جذ بہ، ناموافق حالات میں کام کرنے کا حوصلہ کیسے ہیدا ہوگا، حقیقت تو یہ ہے کہ حضرات اکابر رحمہم اللہ کی خدمات سے ناواقف شخص دارالعلوم کے قیام کے مقاصد سے بھی مکمل آشنا نہیں ہو سکتا، پھر اس کے عمل میں وہ روح کس طرح پیدا ہو سکتی ہے جو دارالعلوم کے مشن کی تکمیل کیلئے مطلوب ہے، دارالعلوم کے پیغام کو عام کرنے کیلئے جو تڑپ، سوز و اضطراب، اخلاص و عمل کا تب و تاب ، اور فداکارانہ و جاں نثارانہ جذبات درکار ہیں وہ کہاں سے پیدا ہوسکتے ہیں، اس لئے مادرعلمی سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کیلئے ضروری ہے کہ وہ حضرات اکابر کی حیات و خدمات، اور ان کی قربانیوں سے خوب واقف ہو۔

قرآن کریم سے ان کی انسیت بے مثال تھی، تلاوت اس کثرت سے فرماتے کہ ہم چند طلبہ کو تلاوت کی یومیہ مقدار جاننے کی خواہش ہوئی، لاکھ پوچھنے پر ٹال دیتے، کسی نے کہا کہ روزانہ ایک ختم کرتے ہیں، اگر یہ درست نہ ہو تو ایک اندازہ کے مطابق نصف قرآن کی تلاوت تو کرتے ہی ہوں گے، مختلف طریقوں سے ہم نے خود اس کا اندازہ کیا ہے۔ وہ بڑے بیباک تھے۔ اپنی بات بلا خوف لومۃ لائم کہنے کیلئے جانے جاتے تھے، اکثر اساتذہ عمر میں چھوٹے ہی تھے اس لئے سب کی نظر میں یکساں طور پر محترم تھے، لیکن اپنی بڑائی کے اظہار سے پاک تھے، اپنی مجلس کو ادب کے نام پر پیدا ہونے والی پر اسرار خاموشی سے محفوظ رکھتے، ایسا ماحول پیدا کردیتے کہ ہر کوئی اپنی بات بلا تکلف لیکن سلیقہ مندی سے کہہ سکے، سخاوت فطرت میں رچی بسی تھی، اکثر و بیشتر کوئی نہ کوئی طالب علم ان کے دسترخوان پر موجود ہوتا، ایک دفعہ ہم دو پہر میں کہیں سے آئے، دھوپ تیز تھی، حالت دیکھ کر فورا پوچھا، تم لوگ کھانا کھاچکے؟ ہم نے کہا، ابھی واپسی پر کھالیں گے، حضرت نے فورا اپنے پوتے سے کہا نیچے سے کھانا لاؤ، منع کرنے پر ہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا، تھوڑی تاخیر سے کھانا آیا تو پتہ چلا کہ ابھی تازہ تیار کیا گیا ہے، ہمیں شرمندگی بھی ہوئی کہ خواہ مخواہ اس شدید دوپہر میں اہل خانہ کو ہماری وجہ سے تکلیف ہوئی، بظاہر واقعہ معمولی ہے، بات صرف اتنی سی ہے کہ استاذ نے شاگردوں کے کھانے کا نظم کیا، لیکن یہ دیکھئے کہ ان کا مقام کیا ہے اور ادھر کون ہیں، صرف چند معمولی شاگرد، لیکن ان کیلئے اہل خانہ کو آرام کے وقت حکم دیا جارہا ہے کہ کھانا تیار کیا جائے، اس معمولی واقعہ سے ان کی عظمت کے ساتھ اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ وہ طلبہ کے تئیں کتنے نرم دل اور حساس تھے، آج یہ سب باتیں یاد آتی ہیں تو اس عظیم انسان کی خورد نوازی پر حیرت ہوتی ہے،

یہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا، کھانے کا وقت ہو اور نووارد بغیر کچھ کھائے چلا چائے، انہیں قبول نہ تھا۔

اللہ نے انہیں گوناگوں خوبیوں سے نوازا تھا، درس و تدریس ان کی زندگی تھی، تصنیف و تالیف سے لگاؤ تھا، راہ سلوک کے مسافر تھے، خانقاہی مزاج ضرور تھا لیکن دنیا کی فریب کاری اور عیاریوں پر بھی نگاہ تھی، میدان سیاست کے راہی نہیں تھے لیکن اہل سیاست کے مکرو فریب کو خوب سمجھتے تھے، علما سے عوام کی بڑھتی بے اعتمادی پر بے چین رہتے، اکثر یہ کہتے کہ علما اور عوام میں دینی مزاج کا فقدان ان بیماریوں کی بنیادی وجہ ہے۔

حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی وفات سے دنیا بھر میں پھیلے ان کے ہزاروں شاگرد اور منتسبین رنجیدہ و نمدیدہ ہیں، ہر کسی کی زبان پر ان کی خوبیوں کے تذکرے ہیں، اور ساتھ ہی دعا گو ہیں کہ رب رحیم و کریم جوار رحمت میں مقام خاص عطا فرمائے۔

اب دور جا چکا ہے وہ شاہِ گدا نما 

اور پھر سے اپنے دیس کی راہیں اداس ہیں

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com