حس مزاح اور سنجیدگی کے درمیان بڑھتا عدم توازن

علیزے نجف 

ہم انسانوں نے گزرتے وقت کے ساتھ بلاشبہ بہت کچھ حاصل کیا ہے جس کو ہماری روزمرہ کی زندگی میں آسائش سے تعبیر کیا جاتا ہے، یہ حصولیابی کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں، لیکن اس کے ساتھ کچھ المیاتی پہلو بھی ہے ان میں سے ایک ہے ہمارا بہت سی انسانی قدروں کے تئیں بے اعتنائی کا رویہ، ہم زندگی کی مادی آسائشوں کو زیادہ سے زیادہ پانے کی تگ ودو میں ایک جنونی کیفیت کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، نتیجتاً بہت سی اخلاقی اور نفسیاتی قدریں پامال ہوتی جا رہی ہیں انھیں قدروں میں ایک قدر حس مزاح بھی شامل ہے بےشک آپ نے صحیح پڑھا حس مزاح…… حس مزاح کو لوگ جس طرح سے متروک بنا رہے ہیں یہ کوئی سادہ بات نہیں جدید ریسرچ نے انسانی صحت پہ اس کے غیر معمولی نتائج مرتب ہونے کو ثابت کیا ہے۔ مزاح انسان کی جبلت میں شامل ایک فطری جذبہ ہے جس کے اپنے بےشمار فوائد ہیں۔ ہمارے یہاں اس کے تحت دو طرح کے شدت پسند رویے دیکھنے میں آتے ہیں یا تو ہم زندگی کے رنج و غم اور ذمے داریوں کو خود ہہ اس قدر حاوی کر لیتے ہیں کہ ہمیں ہنسنا بھی گراں گزرنے لگتا ہے یوں لگتا ہے کہ اب ہنسی پہ ہمارا کوئی حق ہی نہیں رہا یا یہ کہ گذرے وقت کی تفریح تھی اب اس مصروف زندگی میں بھلا کہاں وقت رہا ہنسنے کا، دوسرا رویہ جس میں ہم مذاق اور مزاح کے درمیان تمیز ہی نہیں پیدا کر پاتے کسی بھی بات کا جوک بنا کر ہنسنا شروع کر دیتے ہیں،۔سوشل میڈیا پر بے تحاشہ عریاں مواد روزانہ کی بنیاد پر شائع ہوتا ہے ان کو بے حد پھیلا دیا جاتا ہے اور ہنسی مذاق کے نام پر تہذیب کا بیڑا غرق کر دیا گیا ہے۔روسٹنگ(Roasting)اور میمز(Memes) کے نام پر کسی کی بھی عزت کو پارہ پارہ کر دیا جاتا ہے ۔ستم در ستم یہ کہ ان سب چیزوں کا دفاع کرنے والے بھی لاکھوں میں ہیں۔ سوشل میڈیا پہ ایسے لطائف کی بھرمار ہے جس میں رشتوں کے اقدار کو پامال کیا جا رہا ہے اس کی وجہ سے وقتی طور پہ خوش ہونا اور ہنسی آنا شاید فطری ہے لیکن لاشعوری ذہن پہ اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں لوگ ان رشتوں کے حوالے سے اخلاقیات کو پامال کرنے میں زرا بھی تامل نہیں کرتے یہ دونوں ہی رویہ غیر صحتمند ہے جس سے کہ آگاہی حاصل کرنا از حد ضروری ہے۔

ایک طرف ہم نے زندگی کو اس قدر سنجیدگی کے ساتھ اپنے اوپر طاری کر لیا ہے کہ ہمیں لگتا ہے کہ اب ہمارے پاس نہ ہنسنے کا وقت ہے اور نہ ہی تفریح کا آج کی تاریخ میں تو ہمارا یہ خیال بن چکا ہے کہ ہنسنا ہنسانا اور تفریحات طبع نوعمری کے مشغلے تھے اب ہم بڑے اور ذمے دار ہو چکے ہیں اور زندگی کے تئیں ہمیں مکمل طور سے سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے، ہماری ذمےداریاں ہم سے یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ ہم ہمہ وقت غور و فکر میں ڈوبے رہیں اس طرح سے ہی ہم ذمے دار اور سنجیدہ انسان ہونے کا حق ادا کر سکتے ہیں حالانکہ یہ خیال بلکل ہی غلط ہے کہ ہم حس مزاح اور سنجیدگی کو ایک ساتھ اپنے مزاج میں باقی نہیں رکھ سکتے۔ نہ ہی حس مزاح کو کسی خاص عمر تک کا مشغلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ کامیاب اور سنجیدہ زندگی گذارنے کے لئے ہمیں اپنے ان جذبات کو دبانا ضروری ہے۔ ہمیں اپنی اس خود ساختہ سوچ سے باہر نکلنا ہو گا اور اپنی جسمانی اور نفسیاتی صحت کے تقاضوں کو سمجھنا ہوگا۔ جب تک ہم اپنے اندرونی جبلتوں کو صحیح طرح نہیں سمجھیں گے اس کے تئیں ہمارا رویہ کبھی مثبت و متوازن نہیں ہوگا۔

حس مزاح ہماری جسمانی اور نفسیاتی صحت کو معتدل بنائے رکھنے میں بہترین معاون کا کردار ادا کرتی ہے اس سے نہ صرف ذہنی تناؤ کو کم کیا جا سکتا ہے بلکہ رشتوں کے درمیان حائل ہونے والی خلیج کو پاٹا جا سکتا ہے جب بھی کچھ اچھا کیا جائے یا اچھا محسوس کیا جائے یا کسی اچھی یاد کو تصور کیا جائے تو دل میں خوشی اور چہرے پہ مسکراہٹ کا آنا فطری ہے جب اس فطری رد عمل کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو حس مزاح کی فطری صلاحیت متاثر ہونے لگتی ہے جو کہ سٹریس پیدا کرنے والے کیمیکلز میں اضافہ کرنے کا سبب بنتی ہے، اس کی وجہ سے ہماری زندگی میں بوجھل پن پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور یہ ذہنی دباؤ ہمیں کئی طرح کے جسمانی و نفسیاتی عوارض میں بھی مبتلا کر دیتی ہے۔

جدید سائنس نے حس مزاح کو Gelotology کا نام دے کر باقاعدہ اسے ایک علم قرار دے دیا ہے۔ اس علم کے تحت ماہرین نے اپنی ایک ریسرچ میں کہا ہے کہ جو لوگ انتہائی پریشانی کے عالم میں بیس سیکنڈ کے لئے ہنستے ہیں خواہ جبراً ہی سہی ایسی ہنسی ان کی پریشانی میں دس منٹ کم کرنے میں مدد دیتی ہے کیوں کہ حس مزاح کو ایکٹو کرنے سے انسانی جسم میں ایسے کیمیکلز پیدا ہوتے ہیں جو ان کی قوت مدافعت میں اضافہ کرتی ہے اور ان کو خوش رہنے میں بھی تعاون فراہم کرتی ہے اور یہ حس مزاح ذہنی و جسمانی عضلات کو تنو مند و توانا بھی بناتی ہے, حس مزاح سے پیدا ہونے والے مثبت نتائج کی وجہ سے ہی تو تھیراپسٹ اپنے مریضوں باقاعدہ لافٹر تھیراپی کرواتے ہیں تاکہ ان کے اندر خوشی دینے والے کیمیکلز کی مقدار کو بحال کیا جا سکے اور غم اور رنج کی کیفیت پیدا کرنے والے ہارمونز کو معتدل سطح پہ لایا جا سکے۔ اگر ہم انسان اپنی فطری رویوں میں بےجا مداخلت نہ کریں تو یہ سارے ہارمونز معتدل انداز میں کام کرتے رہتے ہیں خوش ہونے کے موقع پہ خوش ہوتے ہیں، رنج و غم کے واقعے افسردہ ہو جاتے ہیں، اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان بہت سی جسمانی و نفسیاتی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔

ہم نے مصروفیت اور وقت کی قلت کا بہانہ بنا کر حس مزاح کو غیر ضروری شئے کے زمرے میں ڈال دیا ہے کبھی کبھی غیر ضروری سنجیدگی اختیار کرنے کی کوشش میں بھی ہم حس مزاح کو نظر انداز کر دیتے ہیں ہماری تھکی تھکی زندگی اسی کے منفی نتائج کی آئینہ دار ہے جس کی سچائی سے ہم نظریں نہیں چرا سکتے مشاہدہ و مطالعہ کے تحت یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ وہ لوگ جن کی حس ظرافت کمال کی ہوتی ہے وہ ہنسنے کے لئے نہ فارغ وقت کا انتظار کرتے ہیں اور نہ ہی مسائل کے ختم ہو جانے کا بلکہ وہ ہمہ وقت اپنی حس ظرافت کا اس کمال خوبی سے استعمال کرتے ہیں کہ آس پاس کے لوگوں کے چہروں پہ بھی مسکراہٹ آ جاتی ہے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں لیا جا سکتا کہ وہ ایک غیر سنجیدہ انسان ہیں جنہیں اپنی کام کی فکر نہیں یا ان پر کام کا بوجھ نہیں بلکہ ایسے لوگ جب تناؤ کا شکار ہوتے ہیں تو وہ اس سے مغلوب نہیں ہوتے کیوں کہ انھیں مشکل وقت میں خود کو مطمئن رکھنے کا فن اتا ہے انھوں نے یہ ہنر سیکھا ہوا ہوتا ہے کہ تناؤ کی حالت میں اپنی سوچوں کو منتشر ہونے سے کیسے بچانا ہے اور کس طرح یکسو ہو کر اصل مسائل پر غور کرتے ہوئے خود کو پر سکون رکھنا ہے ایسے لوگ ذہنی طور پہ کم تھکتے ہیں اور ساتھ ہی ذہنی و جسمانی بیماریوں سے بھی محفوظ رہتے ہیں، کیوں کہ مسکرانے سے دماغی عضلات کو خوش ہونے کا سگنل ملتا ہے جب آپ تناؤ میں دل سے مسکراتے ہیں تو تھوڑی دیر میں آپ نارمل ہونے لگتے ہیں اور بہتر محسوس کرتے ہیں کیوں کہ جب ہم مثبت انداز میں سوچتے ہیں اور اچھا محسوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو دماغ کو بھرپور طریقے سے آکسیجن مل رہی ہوتی ہے جس سے پریشانی اور دباؤ کی حالت میں بھی بلڈ پریشر نارمل رہتا ہے اور دل کی کاکردگی بھی بہتر رہتی ہے ۔ حس مزاح سے ذہنی کارکردگی پہ مثبت اثرات مرتب ہونے کے بھی شواہد ملتے ہیں بچوں میں حسِ مزاح ان میں بلند آئی کیو اور ذہانت کو ظاہر کرتی ہے، اب ایک سروے سے معلوم ہوا ہے کہ بہتر معلومات اور زبانی دلائل کے ماہر بچوں کی فطرت میں ہنسی مذاق کی حس پائی جاتی ہے۔ اس ضمن میں ایک مطالعہ ترکی میں کیا گیا جس کی تفصیلات ہیومر نامی تحقیقی جرنل میں شائع ہوئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بالغان کے مقابلے میں کمرہ جماعت کے مسخرے بچے ہی درحقیقت ذہین ہوتے ہیں اور یوں بچوں میں ذہانت اور حسِ مزاح کا گہرا تعلق پایا جاتا ہے انسانی تاریخ میں حسِ مزاح کو بلند ذہانت قرار دیا جاتا رہا ہے کیونکہ برجستہ جملوں کا اظہار ہوشیاری اور حاضر دماغی کو ظاہر کرتا ہے۔

حس مزاح کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ آپ مصنوعی ہنسی کا خول اپنے اوپر طاری کر لیں اور مسکراہٹ کو دل سے محسوس کئے بغیر خود کو لوگوں کی نظروں میں مطمئن اور خوشحال ظاہر کرنے کے لئے مسکراہٹ کو کسی ڈیکوریشن پیس کی طرح چہرے پہ سجا لیں ہمارے اردگرد ایسے بہتیرے لوگ نظر آتے ہیں جو ایسی ہی مصنوعی ہنسی کے ساتھ زندگی گذارنے میں ہلکان ہوئے نظر آتے ہیں ایسے میں وہ دوہری اذیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں وہ اپنے اندرونی خلجان کو سمجھنے اور اس کا مداوا کرنے کے بجائے اس سے بھاگ رہے ہوتے ہیں ایک مصنوعی مزاح کو اپنانے کی کوشش بھی ان کو تھکا دیتی ہے۔

اگر آپ کسی مشکل کا شکار ہیں تو پہلے سنجیدگی کے ساتھ اس کے اسباب پر غور کریں پھر اس کا سدباب تلاش کرتے ہوئے مزاح کی جبلت کا برمحل استعمال کریں حقیقی مزاح وہی ہوتا ہے جو ادب و اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے اندرونی چاہ کے تحت ہوتا ہے۔ ایک پرسکون اور مطمئن زندگی گذارنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے داخلی اور بیرونی کیفیات کو سمجھیں اور درپیش مسائل سے فرار کے بجائے اس کی اصل وجہ تلاشیں اور اس کا تدارک کریں اور زندگی میں مزاح اور سنجیدگی کو توازن کے ساتھ اپنائیں اور اس کے محل استعمال کا بھی لحاظ رکھیں حس مزاح کو مجروح کرنے اور اسے خودساختہ طور پہ اپنانے کے بجائے ہمیں اس کو اس کی فطری ساخت پہ بحال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم جسمانی اور ذہنی طور پہ خود کو صحت مند رکھ سکیں اور زندگی کی خوشیوں سے محظوظ ہو سکیں۔ خوش رہنے کی اس کوشش کو بروئے کار لانے کے لئے ہمیں خود سے سچا ہونے کی بھی ضرورت ہے ہمیں اپنے احساسات کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اسے قبول کرنا بھی ہو گا اور اصلاح کرنے کی صورت میں بھی ہمیں خود سے نظریں چرانے کے بجائے اصول و اقدار کی بنیاد پہ کھڑے ہو کر اپنی بات کہنے کا ہنر سیکھنا ہوگا، تبھی ہم ایک معتدل اور کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں،سادہ لفظوں میں اگر کہا جائے تو خلاصہء کلام یہ ہے کہ ہمیں اپنے اندر ودیعت کئے گئے ہر جذبے کو اس کی جگہ پہ رکھنا چاہئے جہاں پہ اداس ہونا ہو وہاں اداسی کے احساس کو محسوس کریں اور جہاں خوش رہنا ہو وہاں پہ خوشی کے جذبات کو محسوس کریں اپنے احساسات کو کنٹرول کرنے کے بجائے اسے اس کے فطری بہاؤ میں بہنے دیا جائے اپنے آپ کو اور اپنی زندگی کو جیسی ہے اسی طرح اس کو قبول کرتے ہوئے اس کو بہتر بنانے کی کوشش کریں نا کہ دوسرے سے موازنہ کرنے میں خود کو ہلکان کرتا پھریں۔ زندگی تو ہر کسی کو عطا کی گئی ہے اسے کامیاب بنانے کے لئے زندگی گزارنے کا فن سیکھنا پڑھتا ہے موجودہ وقت میں ظاہری زندگی جس قدر آسان ہوئی ہے لوگ اندرونی سکون سے محروم ہوتے جا رہے ہیں اس کی وجہ ہی یہی ہے کہ لوگ آسائشوں کی اس بہتات میں اپنے رویوں کو متوازن بنائے رکھنے میں اکثر ناکام رہ جاتے ہیں، آپسی تعلقات پیچیدہ ہونے کی وجہ سے وہ اکیلے ہوتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے رشتوں کے ہونے سے پیدا ہونے والی آسودگی سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں وہ اپنے مسائل کا بروقت سد باب کرنے میں ناکام رہتے ہیں، حس مزاح اور سنجیدگی کے درمیان توازن پیدا کرنے کے لئے ان تمام پہلوؤں پہ کام کرنا اشد ضروری ہے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com