طلاق اور اقوامِ عالم

محمد فیاض عالم قاسمی

قاضی شریعت دارالقضاء ناگپاڑہ ممبئی

  ساتویں صدی عیسوی میں جب اسلام کا ظہور ہوا تب دنیا اس حقیقت سے باکل نا آشانا تھی کہ مردوں کی طرح عورتوں کے بھی حقوق ہو سکتے ہیں ۔اسلام سے قبل دنیا کے مذاہب میں طلاق کے معاملے میں بھی بڑی کمیاں اور زیادتیاں نظر آتی ہیں ۔اس وقت جوبڑے مذاہب موجود تھےان کے یہاں طلاق کا کیا تصور تھا اس کا جائزہ لیتے ہیں:

یہودیوں کے یہاں طلاق:

یہودیت میں بھی دیگر معاشروں کی طرح طلاق کو برا سمجھا جاتا ہے۔ اور ایک سانحہ کے طور پر لیا جاتا ہے۔ تورات میں اس سے نفرت کا اظہار ملتا ہے۔ تالمود کے مطابق جب کوئی شخص اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کرتا ہے تو معابد کی محرابیں تک گریہ کرتی ہیں “۔

ایک یہودی روایت کے مطابق طلاق زندہ کھال کھینچ لینے کے مترادف قرار دی گئی ہے۔تاہم قانونی لحاظ سے طلاق کا اختیار صرف مرد کو تھا،تالمود کے احکام کے مطابق مرد کو یہ اختیار حاصل تھاکہ وہ جب چاہے کسی بھی وجہ کی بنا پر بیوی کو بنا اس کی رضامندی کے طلاق دے سکتا ہے۔

ان کے یہاں طلاق میں بہت ڈھیل تھی، شوہرکی خواہش ہی طلا ق کے لئے کافی سمجھی جاتی تھی ، یعنی اگر شوہر کو دوسری عورت پسندآگئی تو اپنی بیوی کو چھوڑکردوسری شادی کرسکتاتھا،معمولی بات بھی طلاق کی وجہ بن سکتی تھی، مثلاعورت کی دونوں آنکھیں برابرنہ ہوں، چھوٹی بڑی ہوں، عورت کے بال لمبے نہ ہوں، عورت بانجھ ہو،بیوی سخت مزاج ہو،زیادہ بولنے والی ہو، بے ادب ہو، لالچی ہو،کھانے میں نفاست پسندنہ ہو، اس کی خوراک زیادہ ہو، وغیرہ ان چھوٹی چھوٹی سی باتوں کی وجہ سےعورت کو طلاق دیدی جاتی تھی۔یعنی مرد کو یہ حق تھاکہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دیکر رخصت کردے اوردوسری بیوی اپنی پسندکی لیکر آئے۔ مگر یہی عیوب بلکہ اس سے بھی خطرناک عیوب مردکے اندرموجودہوں تو عورت کو چھٹکارہ لینے کاکوئی حق نہیں تھا۔مگر آج سے تقریباً ایک ہزار برس قبل، ربیوں نےاجتہاد سے کام لیتے ہوئے یہ حکم جاری کیاکہ بیوی کو اس کی رضامندی کے بغیر طلاق نہیں دی جاسکتی۔

عیسائیوں کے یہاں طلاق:

عیسائیت میں سرے سےطلاق کاکوئی تصورہی نہیں تھا، مر دکے لئے یہ جائزہی نہیں تھاکہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے، یاعورت کے لئے یہ درست نہیں تھاکہ وہ اپنے شوہرسے چھٹکارہ حاصل کرے۔رشتہ نکاح دوامی سمجھاجاتاتھا، موت کے علاوہ اورکوئی دوسری وجہ نہ تھی جس سے نکاح ختم ہوسکے۔ یہ تصورعیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس قول سے اخذکیاتھا،جسے “خدانے جوڑاہے اسے آدمی جدانہ کرے”حالاں کہ یہ ایک اخلاقی بات تھی، کوئی قانونی بات نہ تھی۔

 تقریباپندرہ سوسال تک یہ قانون عیسائی دنیامیں رائج رہا۔سولہویں صدی میں اصلاح کی آوازاٹھی، مگر نتیجہ کے اعتبارسے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا،جب تک زناء اورظالمانہ برتاؤدونوں ثابت نہ کیاجائے تفریق نہیں ہوسکتی تھی، اوراگردونوں ثابت ہوجائےخواہ کسی بھی فریق کی طرف سے ہو، تو صرف تفریق ہوسکتی تھی نکاح ختم نہیں ہوسکتاتھا، کسی بھی فریق کو دوسری شادی کرنے کی اجازت نہیں تھی،بہرصورت یہ کارروائی کورٹ کرے گی۔

١۸۶۶ء میں عدالت کو یہ حق بھی دیاگیاکہ الگ کی گئی بیوی کاخرچہ بھی خطاکار شوہرپر لازم کیاجائے،١۹۰۷ء میں خطاکارکی شرط ختم کردی گئی،یعنی میاں بیوی کے درمیان جدائیگی کے باوجود عدالت کو یہ حق تھاکہ وہ شوہرپر بیوی کانفقہ لازم کرے۔١۸۹٥ء میں یہ طے ہواکہ اگر عورت شوہرکے ظلم وستم سے بھاگ کرچلی جائے تو مرد کو اس کے پاس جانے سے روکاجائے، البتہ خرچہ ملتارہے گا۔١۹١۰ء میں ایک شاہی کمیشن مقررکیاگیا کہ وہ نکاح اورطلاق کے مسائل ومعاملات پر غورکرکے اپنی رپورٹ پیش کرے، تو اس کمیشن نے اپنی رپورٹ پیش کی کہ مردوعورت دونوں کومساوی طورپرطلاق کاحق دیاجائے۔یعنی جس طرح مرد کو طلاق دینے کاحق ہے تو بیوی کو بھی طلاق دینے کاحق ہے۔

 اس وجہ سے آج عیسائی سماج افراتفری کا شکار ہے ، خاندانی نظام بکھررہا ہے ، کروڑوں عیسائی جوڑے بے راہ روی کا شکار ہیں ، ازدواجی زندگی کے حدود وقیود اصول وآداب سے برگشتہ ہو کر مفسدانہ زندگی بسر کررہے ہیں ، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر شادی سے فرار اختیار کیا جارہا ہے ، لیوان ریلیشن کا نظریہ مقبول عام ہو چکا ہے ۔

ہندوؤں کے یہاں طلاق:

 منو مہاراج کے قانون ’’منو‘‘ نے عورت کی ہستی کو صرف اس طرح دیکھا تھا کہ وہ مرد کے بچوں کے لیے پیدائش کا ذریعہ ہے ۔اور اس کی نجات صرف اس پر قائم رہی کہ وہ مرد کی خدمت گزاری میں اپنی زندگی ختم کردے ۔( ترجمان القران : جلد ۱ ص ۱۸۷)یا پھر شوہر کے گزر جانے کی صورت میں اس کے ساتھ چتا پر لیٹ کے اس کے ساتھ ہی’’ سورگ باسی‘‘ بن جائے۔ ویدک دور کو چھوڑیے آزاد ہندوستان میں ہندووں مین طلاق کا تصور نہیں تھا۔ وہ تو آزادی کے بعد 1956 میں ہندو میرج بل پاس ہوا تب جائداد اور طلاق کا حق ملا۔١۹٥۶ء سے قبل ان کے یہاں طلاق کاکوئی تصورنہیں تھا، لڑکی کی شادی کو کنہیادان تسلیم کیاجاتاتھا،یعنی باپ نے اپنی بیٹی کو داماد کو دان کردیا، تو اب وہ اسی داماد کے ساتھ مرتے دم تک رہے گی۔ مگرچوں کہ یہ تصور فطرت کےخلاف تھا، اس لیے ان کو ١۹٥۶ء میں قانون بناناپڑا، اوراس کے روسے مردوعورت دونوں طلاق کے ذریعہ علیحدگی اختیارکرسکتے ہیں، مگر اس کی شرائط اورکارروائی اتنی مشکل اورپیچیدہ ہے کہ لوگ اس سے گھبراتے ہیں، اورقانونی طورپرطلاق لینے کے بجائے غیرقانونی راستہ اختیارکرتے ہیں۔

عیسائیت اورہندومت میں طلاق کاکوئی تصورنہیں تھا،مگر دونوں قوموں نے طلاق کو اپنایا،مگر اپنی سوچ کے مطابق اس کے اصول وضوابط مقررکئے اس لئے ان کے یہاں طلاق کاتناسب سب س زیادہ ہے۔ایک رپورٹ اس طرح ہے:

جرمنی: 39.4،برطانیہ:42.6،روس:43.3،چیک جمہوریہ: 43.3،بلجیم:44.0، ڈنمارک:44.5، امریکہ:54.8،سویڈن:54.9، بیلاروس:52.9،آسٹریا:43.4،ناروے:40.4، فرانس:38.3، نیدرلینڈ:38.3،ہنگری:26.9،سلوواکیا:26.2، پرتگال:25.5، سوئزرلینڈ:25.5۔یو روپ و ا مر یکہ میں طلا ق کا تنا سب بہت ا و نچا ہے۔

دنیا کے 10 مما لک جہا ں طلا ق کا فیصد سب سے ذیا دہ ہے۔ وہ یہ ہیں۔بلجیم 71%،پر تگا ل 268%، ہنگری 3 67%،چیک رپیبلک 4. 66%اسپین 5. 61% لکسمبر گ 660% ا یسٹو نیا 7. 58% کیو با 8.، 56% فرا نس 9. 55%امر یکہ 10 53%۔

دنیا میں سب سے زیادہ بلجیم میں71% جو ڑ ے طلا ق حا صل کر تے ہیں۔ بلجیم کی جملہ آ با دی ایک کڑ ور 11 لا کھ ہے۔ امر یکہ طلا ق کے تنا سب میں10 و یں نمبر پر ہے۔ جہا ں53% جو ڑ ے طلا ق حا صل کر لیتے ہیں۔ امر یکہ میں ہر چھ سکینڈ میں ایک طلا ق ہو تی ہے۔

عیسا ئی دنیا میں خا ندا نی بند شیں بڑ ے پیما نے پر ٹو ٹ پھو ٹ کا شکا ر ہیں۔ ا عدا د و شما ر کو دیکھنے سے اس با ت کا بہ خو بی ا ندا زہ لگا یا جا سکتا ہے کہ عیسا ئی سما ج من حیث الکل ا زدوا جی زند گی سے بیز ا ر ہے۔ اس لئے پو پ فرانسس نے کتھو لک چر چ کو عیسا ئی قا نو ن طلاق میں ا صلا ح کر کے ا سا نی پیدا کر نے کا فر ما ن جا ری کیا ہے۔

ا گر ہم عیسا ئی دنیا کا مسلم دنیا کے طلاق کے ا عداد و شما ر مقا بل و تجز یہ کر یں تو پتہ چلے گا کہ مسلم دنیا میں ازدوا جی زندگیا ں زیا دہ کا میا ب ہیں۔ امر یکہ طلا ق کے تعلق سے دینا کادسواں ملک ہے۔فی گھنٹہ 600 طلاقیں ہو تی ہیں۔جبکہ سعودیہ عر بیہ میں فی گھنٹہ 8طلاقیں ہو تی ہیں۔2014میں امر یکہ میں 51 لا کھ 84 ہزا ر طلا قیں ہو یں جبکہ سعودیہ عر بیہ میں 34ہزا ر طلا قیں دی گئیں اور خلع حا صل کر نے و الو ں میں صر ف 434 عو ر تیں تھیں۔ ان عداد و شما ر سے یہ با ت ثا بت ہو تی ہے کہ اسلا م کا قا نو ن نکا ح خا ندا ن طلاق ،خلع، تفر یق ،ٹھو س اور کا میا ب ہے۔

ڈاکٹرزویاحسن نے ہندوستان میں طلاق کاتناسب جاننے کے لئے ١٢/ریاستوں کے ٤۰/اضلاع کااحاطہ کیا، ۹۶٤١خواتین کی آراء لی گئیں، جس میں ۸۰فیصد مسلمان اور٢۰ہندوتھیں، اوران خواتین میں ۶۰فیصد دیہی اور٤۰فیصد شہری علاقوں سے تعلق رکھتی تھیں،اس جائزہ میں بتایاگیاکہ طلاق کاتناسب مسلمانوں میں 0.41اورہندوؤں میں 0.47ہے۔ (یہ ساری تفصیلات مسلم پرسنل لا-حقائق اورغلط فہمیاں ازمولانا خالدسیف اللہ رحمانی سے لی گئی ہیں)

اسلام میں طلاق:

 قرآن نے چودہ سو برس پہلے یہ اعلان کردیا’’ ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف‘‘(سورۃ البقرۃ:228) (اور حسن سلوک میں بیویوں کے حقوق بھی مرد پر ایسے ہی ہیں جیسے شوہر کے بیوی پر)،یہ اعلان انسانی سماج کاانقلابی اعلان تھا، کیوں کہ اس سے پہلے کسی بھی مذہب یاقانون میں یاکسی بھی قوم میں عورت کو وہ مقام نہیں ملاتھا، جو اسلام نے اسے عطاکیا۔اس اعلان نے گری پڑی عورت کو خاک سے اٹھا یا اور عزت کے تخت پر بٹھایا ۔میاں بیوی دونوں کے حقوق اورفرائض بتائے گئے اوران پر عمل کرنے کی ترغیب وترہیب دی گئی، اسی پر بس نہیں بلکہ تاکید کی گئی، نیزاگرمیاں بیوی کے درمیان جھگڑاہوجائے تو اس کو ختم کرنے کاطریقہ بھی بتایاگیا، تاہم اس بات کی بھی گنجائش رکھی گئی کہ شوہر اور بیوی کے درمیاں مزاج نہ ملنے کی صورت میں زندگی تلخ ہونے لگے تب اس کا آخری علاج یہ بتایا ہے کہ بھلے طریقہ سے زوجین طلاق ،خلع یا فسخ نکاح کےذریعہ ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں، اور دونوں اپنی زندگی آپ گزاریں۔ فقط

رابطہ : 8080697348

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com