اللہ سے کرے دور ، تو تعلیم بھی فتنہ

یاور رحمٰن

تعلیم کے نقطۂ نظر سے دیکھا جاۓ تو صنعتی انقلاب کی مثال اس ‘سخی’ انسان جیسی ہے جو آنکھیں چھین کر چراغ بانٹتا پھرتا ہو۔ اس انقلاب نے بالکل ایسا ہی کیا۔ اس نے ایک طرف تو تھک تھک کر اور رک رک کر چلنے والی انسانی زندگی کو غضب کی قوت پرواز دی۔ فاصلوں کو روشنی کے ہمرکاب کیا۔ نت نئی ایجادات کے در کھول کر معیار حیات کو ہمدوشِ ثریا کیا اور ترقی و افزائش کی ایسی ایسی حیرت انگیز راہوں سے روشناس کرایا جسے دیکھ کر آنکھیں خود حیرت کدہ بن جاتی ہیں۔

مگر دوسری جانب آدمی اور مشین کو ایک دوسرے سے جوڑ کر کارخانۂ حیات کو برق رفتار کر دینے والے اس انقلاب نے نہ صرف تعلیم کے تصور کو بدل کے رکھ دیا بلکہ اسکے مقاصد کو پائمال کر کے اس علم کو پاؤں کا کوئلہ بنا دیا جسے آنکھوں کا کاجل ہونا چاہیے تھا۔

سیاست، معیشت اور معاشرت کی تزئین جدید کرنے والے اس صنعتی انقلاب نے علم کی نئی صورت گری کی اور اسے براۓ فروخت بنا دیا۔ اس نے پہلے تعلیم کا مفہوم بدلا، پھر اس کی تعریف بدلی اور اس کے بارے میں وہ نقطۂ نظر بدل دیا جو انسان کو اصل مقصد حیات سے روشناس کراتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ علم کہ جس کی تجلیاں جہل کی آہنی چادروں کو تار تار کر دیتی ہیں خود جہل کا شریف النفس خدمتگار بن گیا۔

اس نے عام انسانی ذہنوں میں بٹھا دیا کہ تعلیم کا مقصد مادی ضروریات کی فراہمی کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ حال یہ ہوا کہ اخلاقیات بے در و بے گھر ہوتی گئیں اور دو وقت کی روٹی کے لئے روزگار دینے والے ‘پروردگار’ بنتے چلے گئے، کل پرزوں، فائلوں اور رجسٹروں کی ‘معرفت’ ہی اہل علم ہونے کی پہچان بن گئی اور جاہل زردار معاشروں کے سردار بن گئے۔

نت نئے تعلیمی ادارے وجود میں آنے لگے اور دیکھتے دیکھتے اس تعلیم نے صنعت کا درجہ اختیار کر لیا۔ پھر اس صنعت میں سرمایا کاریوں کا دور شروع ہوا، سرگوشیوں نے ایک دوسرے کو بتانا شروع کیا کہ اس ‘دھندھے’ میں پیسہ بہت ہے۔ پھر ‘پیسے’ نے طے کیا کہ نصاب تعلیم کے کس مضمون کی قیمت کتنی ہونی چاہئے۔ بازار علم میں مضمون کی قیمت طے ہوئی تو سبجیکٹ کے لحاظ سے سبجیکٹ پڑھانے والے اساتذہ کی فیس بھی ‘مارکیٹ ڈیمانڈ’ کو دیکھتے ہوئے گھنٹے کے حساب سے متعین ہوئی۔ اس طرح آدم زادوں کو پیکر انسانیت میں ڈھالنے والی تعلیم اساتذۂ علم کے لئے بھی ذریعۂ معاش بنتی گئی اور طالبین علم کے لئے بھی محض وسیلۂ روزگار بنتی چلی گئی۔

 ایک طرف جسم کی تزئین تو دوسری جانب روح کی ‘تدفین’ کرنے والے اس نئے نظام تعلیم نے بڑے سلیقے سے فن اور فحاشی کے بیچ کی لکیروں کو مٹایا، ہوس زر کو انگیز کیا، مادہ پرستی کو فروغ دیا اور جرم، جبر، ظلم اور فریب دہی کو

ایک آرٹ کی صورت موضوع نصاب بناکر روشن چہروں اور نرم لہجوں والے ایسے ایسے منظم مجرم پیدا کئے جنکے میٹھے میٹھے جرائم نے پتھر کے زمانے کے وحشیوں کو بھی مات دے دی۔

حصول علم کے تئیں جنم لینے والے اس نئے رویے نے انسان سے علم کا وہ نور چھین لیا جو اسے شعور و آگہی سے آراستہ کرتا ہے۔ جو اسے بتاتا ہے کہ اسکا یہ وجود نہ تو صرف اس خاکی بدن تک محدود ہے اور نہ اسکی زندگی امروز و فردا کی مختصر سی اک کہانی ہے۔ بلکہ حیات کا یہ سفر جاوداں، پیہم رواں اور ہر دم جواں ہے۔

ذہنوں میں انقلاب برپا کر دینے والا یہ صنعتی انقلاب اب اپنے پانچویں اسٹیج پر پہنچ چکا ہے۔ آج انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کو آنکھیں حیرت سے دیکھتی ہیں، دماغ اسے مرعوبیت سے سوچتا ہے اور دل اسکی طرف دھڑ دھڑا کے لپکتا ہے۔ “کھل جا سم سم” والی اس ٹیکنالوجی نے آٹھ ارب انسانی آبادی والی اس لحیم و شحیم دنیا کو گویا ایک ایک شخص کی مٹھی میں سمو دیا ہے۔ لیکن اس ٹیکنالوجی نے جس مشینی ذہن کو فروغ دیا اس نے اس نظام تعلیم و تربیت کو مسمار کر دیا جو روح انسانی کی صنعت کو فروغ دیتا تھا۔

  اب وہ دن چلے گئے جب نسلوں کی آبیاری کے لئے بنی اسماعیل کے گھرانوں میں ‘ہاجرائیں’ تیار ہوتی تھیں۔ بیٹوں کو ‘آداب فرزندی’ سکھائے جاتے تھے اور بیٹے باپ کے خوابوں کی تعبیر کا عَلَم اٹھاتے تھے۔ اب تربیت کا فطری نصاب ان ہی نری مادی ترقیات کی تربت پہ چڑھا کر طالبین علم کو ‘رہین شکم ہائے روزگار’ کر دیا گیا ہے۔

پہلے کنواری بیٹیوں کے دن گھر کے آنگن میں اور انکی راتیں ماؤں کے پہلو میں گزرتی تھیں۔ اب تعلیم کی ‘مجبوریوں’ نے انھیں دور دراز شہروں کے کالجوں اور PG ہاسٹلوں کے بستر پہ تنہا چھوڑ دیا ہے۔ نئے دور کے ماں باپ پر سکون ہوکر سوتے ہیں کہ انکی بیٹیوں کا مستقبل سنور رہا ہے۔

بچوں کا مستقبل سنوارنے اور ان کو ‘قیمتی’ بنانے کے لئے ہر ‘قیمت’ چکانے والے تعلیم پسند والدین نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ ‘قیمتی’ بننے کے اس عمل میں خود انکے بچوں نے کیا کیا ‘قیمت’ چکائی ہے۔ چنری میں کہاں کہاں داغ لگے اور دامن ہستی سے کیا کیا برائی دامنگیر ہوئی؟

اس نرے مادی نظام تعلیم کے مقابلے میں جس نظام تعلیم کو مسلم معاشرے میں روح انسانی کے لئے ‘روح افزا’ قرار دیا گیا وہ ‘نظام تعلیم ‘مادَّہ’ کا بالکل ویسا ہی منکر ہے جیسا مغربی نظام تعلیم روح کا انکاری ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ قرآن و سنّت کی خالص مٹھاس سے محروم و محجوب یہ ‘شربتِ علم’ مسلکی اور گروہی آلودگیوں میں گدلا کر ایک ایسا ‘دیسی ٹھرا ‘بن گیا جو گلے سے اترتے ہی آدمی کو اکثر ‘مذہبی فسادی’ بنا دیتا ہے۔ کیونکہ اس “دینی نصاب تعلیم” کے مضامین نے دین کو چند مذہبی رسومات کا قیدی بنا دیا۔ حالانکہ روے زمین پر صرف مسلمان ہی ایک ایسی خوش بخت امّت ہے جسکے پاس ایک ایسا نور ہدایت ہے جس کی کرنوں سے ہی انفس و آفاق کی تاریکیاں دور ہو سکتی ہیں۔ مگر افسوس کہ دنیا کے تمام علوم کی اصل بتانے والا قرآن تو آگے بڑھتا جا رہا ہے جبکہ مسلمان پیچھے ہوتے جا رہے ہیں۔

مختصر یہ کہ صنعتی انقلاب کی کوکھ سے جنم لینے والی مادہ پرستی کی اس وبا سے خود نکلنے اور دوسروں کو بھی نکالنے کے لئے اس امّت کو ایک نئے روحانی انقلاب کی ضرورت ہے۔ اور یہ روحانی انقلاب صرف امّت مسلمہ ہی لا سکتی ہے جسکے پاس قرآن عظیم جیسا پارس ہے جو مٹی کو چھو کر بالیقین سونا بنا دیتا ہے اور جسکے پاس اسوۂ رسول ہے جو اس سونے کو ہیرا بنا کر دنیاۓ انسانیت کا ہیرو بنا دیتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم تعلیم کے اس فطری نقطۂ نظر کو قبول کرتے ہوئے تمام علوم کے اصل ماخذ و مرکز یعنی قرآن و سنّت کی طرف پلٹنے کے لئے تیار ہیں؟؟؟

yawer.rahman@gmail.com

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com