دربھنگہ: (نمائندہ) 18 مارچ بروز سنیچر شعبہ اردو للت نارائن متھلا یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر زیبا پروین کے اوپن وائیوا کے موقع پر بحیثیت بیرونی ممتحن پروفیسر جمیل اختر محبی صدر شعبہ اردو ویر کنور سنگھ یونیورسٹی آرہ کی آمد ہوئی ۔ اس موقع پر ڈین فکلٹی آف ہومنٹیز پروفیسر اے کے بچن کی صدارت میں ایک توسیعی خطبہ کا انعقا کیا گیا ۔ جس کا عنوان تھا ’’ فلسفہ وجودیت اور اردو افسانہ ‘‘ ۔ پروفیسر جمیل اختر محبی نے اپنے کلیدی خطبے میں پہلے فلسفہ وجودیت اور ادب میں اس کے رجحان پر روشنی ڈالی اور تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے انھوں نے ترقی پسند تحریک کے بعد اردو افسانے میں تجریدیت کو کیسے برتا گیا، تجریدیت کسے کہتے ہیں، خاص طور پر تجریدی افسانوں کے مسائل کیا ہیں اسے بیان کیا ۔ انتشار ذہن اور انتشار عرفان ذات کی وضاحت کی اور یہ بتایا کہ’’ وجودیت ‘‘انسانی انفرادیت اور خود مختاری کی رہنما ہے جس میں انسان انفرادی وجود کے فکر و فلسفے میں اپنی اہمیت و شناخت رکھتا ہے۔ گویا کہ تجریدی افسانہ، انسان کی انفرادی، داخلی اور نفسیاتی کیفیات کے اظہار کا نام ہے۔ اس موقع پر پروفیسر محبی نے اپنے استاد پروفیسر عبدالوہاب اشرفی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اس موضوع پر کام کرنے کے لئے میری پوری رہنمائی کی اور پی ایچ ڈی کے مقالے کے لیے اس موضوع کے انتخاب پر میری کافی ہمت افزاٸی اور ہرممکن مدد کی۔ وہیں انھوں نے فکشن کی تنقید پر بہار کے حوالے سے جن لوگوں نے کام کیا ہے انکی طرف بھی محبیین اردو، طلبا اور طالبات کی توجہ دلائی اور ان کے کاموں کو سراہا۔ انھوں نے فلسفۂ وجودیت اور اردو افسانوں پر اس کے اثرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
اس موقع سے شعبہ اردو کے صدر ڈاکٹر سرور کریم نے اپنے استقبالیہ خطبے میں ڈاکٹر محبی صاحب کی فکشن تنقید کی سمجھ اس کی نفسیات اور انکی ذہانت کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہا کہ محبی صاحب سے میری ملاقات نوے کی دہائی میں ہوئی تھی جب یہ ریسرچ کررہے تھے تو میرے ذہن میں ایک پرفیکٹ ریسرچر کا جو تصور بیٹھا تھا میں نے انہیں من و عن پایا ۔ وہیں شعبہ کے سابق صدر پروفیسر محمد آفتاب اشرف نے محبی صاحب کا ذکر کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ محبی صاحب نے بہار میں ارو فکشن کی تنقید پر جو کام کیا ہے وہ انہیں صف اول کے نقاد میں لا کھڑا کرتا ہے انہوں نے تنقید میں وہاب اشرفی کو اپنا مشعل راہ بنایا جس کی روشنی قدم قدم انکی رہنما بنی۔فلسفہ ٔ وجودیت سے اردو افسانے کا جو تعلق ہے انھوں نے اپنی کتاب میں اس کو اچھی طرح اجاگر کیا ہے ۔
اس پروگرام کی نظامت شعبہ کے استاذ ڈاکٹر محمد مطیع الرحمن نے کی وہیں اظہار تشکر ڈاکٹر ناصرین ثریا نے پیش کیا اس پروگرام میں شہر دربھنگہ میں واقع مختلف تعلیمی اداروں سے وابستہ افراد بھی موجود تھے ۔ جن میں سرفہرست سابق صدر شعبہ ھذا سید محمد رضوان اللہ ، ،پروفیسرافتخاراحمد،ڈاکٹرجمال اویسی ،ڈاکٹر عبد الرافع ، ڈاکٹرشہنواز عالم ، ڈاکٹر عبد الحی ، ،ڈاکٹر ریحان قادری ، ڈاکٹر خالد عثمانی ، ڈاکٹرشوکت انصاری ،ڈاکٹرایس ایم اسرارالحق نعمانی ، ڈاکٹر محمدانیس الرحمن ، ڈاکٹرمحمد قاسم ، ڈاکٹر شاہد حسین ، ڈاکٹڑرمیش جھا ، پروفیسر پریم موہن مشرا،ٖڈاکٹر کریتی چورسیا، پروفیسر نیر اعظم ،ڈاکٹر نفاست کمالی ، ڈاکٹررضوان احمد ،ریسرچ اسکالروں میں عمر فاروق قاسمی ، حسان جاذب ،واجدہ بانو اور دیگر لوگ شامل تھے ۔ اور طلبا وطالبات میں فوزیہ قمر ،شباہت فاطمہ ،عامل عمر، محمد عدنان ،محمد غفران، عامر عثمانی، رشدیٰ خاتون ،محمد علی جوہر، زرینہ خاتون، ارجمند نگار، راضیہ ترنم، محمد نفیس، امن نواز، افشاں بانو، ،شاذیہ سلطانہ، عافیہ روحین، ،نوشین شاھین وغیرہ کثیر تعداد میں موجودگی تھی وہیں شعبہ کے عملہ منی کانت جھا ، رہل راج ، محمد سہیل ، محمد امتیاز ، بھردواج منڈل بھی شریک بزم رہے ۔